سیلابی صورتحال اور سراج الحق کا بیان ۔۔ امتیاز احمد شاد

امتیاز احمد شاد
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستانی عوام کی بڑی تعداد سیاست میں دلچسپی رکھتی ہے۔عوام الناس کی دلچسپی کے پیش نظر اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلوں پر بھی سیاسی پروگراموں، خبروں اور تبصروں کی بھرمار دکھائی دیتی ہے۔ پاکستانی میڈیا کے کردار کا ذکر ہوتا ہے تو اکثر و بیشتر اس پہلو کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے کہ میڈیاکا بیشتر وقت اور سپیس سیاسی پروگراموں اور خبروں کیلئے مختص ہوتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت سے اہم اور حساس معاملات عوام کی نظروں سے اوجھل رہتے ہیں۔ سماجی مسائل کو بھی وہ اہمیت نہیں ملتی جو اصولی طور پر ملنی چاہیے۔ یہ صورتحال اب معمول بن چکی ہے۔ آج کل بھی ہمارامیڈیا شعوری، لاشعوری طور پر یہی کر رہا ہے۔ کوئی بھی ٹی وی چینل اٹھا کر دیکھیں اس میں شہباز گل کی گرفتاری سے لیکر عمران خان کی دہشت گردی تک کی خبریں زیر بحث دکھائی دیتی ہے۔ یہ سلسلہ تا حال جاری ہے۔اس وقت ملک میں سیلاب کی صورتحال نہایت سنگین ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبے اس سے متاثر ہیں۔ اس سال توقع سے کہیں زیادہ بارشیں ہوئیں، جن کے نتیجے میں دریا، ڈیم اور نہریں بپھر گئے اور کئی اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔پوری کی پوری بستیاں سیلاب سے تباہ ہوچکی ہیں، سیکڑوں لوگ جاں بحق ہوگئے۔ مرنے والے جانوروں کی تعداد کا ابھی تک کوئی درست اندازہ نہیں لیکن ان کی تعداد انسانوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ لوگوں کی عمر بھر کی جمع پونجی لمحوں میں سیلاب کی نذر ہوگئی۔ لوگ کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ملک کے غریب عوام مزید غربت اور لاچاری میں چلے گئے ہیں، ان کا کوئی پرسان حال نہیں۔ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا صوبہ بلوچستان ہے۔ یہ وہ صوبہ ہے جو پہلے ہی اپنی غربت اور محرومیوں کی وجہ سے شہرت رکھتا ہے، اب سیلاب نے رہی سہی کسر بھی پوری کردی ہے۔
بلوچستان کے 34 میں سے 27 اضلاع سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، جہاں امدادی کام نہایت سست رفتاری سے ہورہے ہیں بلکہ کئی علاقے ایسے ہیں جہاں امدادی کارروائیاں شروع ہی نہیں ہوئیں۔ بلوچستان کے وسیع و عریض رقبے کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ عین ممکن ہے کئی دور دراز دیہاتوں کے سیلاب سے متاثر ہونے کی خبر ابھی تک امدادی ٹیموں یا محکموں تک پہنچی ہی نہ ہو۔ وہاں کے عوام پر کیا بیت رہی ہوگی؟ آسودہ حال لوگ اس کا اندازہ نہیں لگا سکتے۔اسی طرح سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں بھی سیلاب نے تباہی مچائی ہے۔ متاثرہ علاقوں کے عوام پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ کئی لوگ جاں بحق ہوگئے اور جو بچ رہے ان کے لیے سر چھپانے کو جگہ نہیں ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں لوگ، جن میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں، کھلے آسمان تلے بھوکے پیاسے بیٹھے امداد کے منتظر ہیں۔ جس کی امید عام طور پر کم ہی ہوتی ہے۔یہ حکمرانوں کی ذمے داری ہوتی ہے کہ سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے فوری طور پر کام کریں۔ مگر ہمارے حکمرانوں کو ذاتی مفادات پورے کرنے سے ہی فرصت نہیں ہے۔ گلگت بلتستان،کشمیر، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں تحریک انصاف جبکہ باقی ماندہ پاکستان میں دیگر سیاسی جماعتوں کی حکومت ہے لیکن کوئی حکومت سنجیدگی سے کام نہیں کر رہی۔ سب کو کیس بنانے اور کیسوں سے جان چھڑانے کی فکر ہے۔ کسی کو سیاست، تو کسی کو عہدے و کرسی کا لالچ ہے۔تمام سیاستدانوں کو اپنی اپنی پڑی ہے، عوام کی کس کو فکر ہے۔ کوئی جلسے کر رہا ہے تو کوئی جلسے کرنے والوں کو پکڑ رہا ہے۔ کوئی بیانات دے رہا ہے تو کوئی بیانات سے روکنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہر صوبے میں سب نے اپنی اپنی ریاستیں قائم کرکے دوسروں کے لیے اسے ممنوعہ علاقہ بنا رکھا ہے۔ مرکزی حکومت پی ٹی آئی بالخصوص عمران خان کو رگڑا دینے اور مذکورہ صوبائی حکومتیں مرکزی حکومت کو دبوچنے میں مصروف ہیں۔ اپنی اپنی حکومتوں کو دوسروں کے خلاف استعمال کرنے کا سلسلہ زوروں پر ہے۔
امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بیانات انتہائی قابل توجہ ہیں۔ انہوں نے جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے کہا کہ حکمران لڑائیوں کے بجائے سیلاب متاثرین کی بحالی پر توجہ دیں۔ سیلاب متاثرین کو زیادہ نقصان جاگیرداروں اور وڈیروں نے پہنچایا، انہوں نے اپنی جائیدادیں بچانے کے لیے سرکاری فنڈز سے بند باندھ کر پانی کا رخ غریبوں کی بستیوں کی طرف کردیا ہے، جس کی وجہ سے سیلاب آتا ہے تو غریبوں کے کچے مکانات اور مال مویشی اس کی نذر ہوجاتے ہیں۔ سراج الحق نے یہ بھی کہا کہ وزیراعظم اور آرمی چیف کے مابین سیلاب کی صورتحال پر ملاقات بہت تاخیر سے ہوئی۔ عمران خان کو جلسے کرنے کے بجائے سیلاب زدہ علاقوں میں ہونا چاہیے تھا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں ہمیشہ جاگیرداروں اور وڈیروں کا
راج رہا ہے۔ وہی اس ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں۔ انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور نہ ہی ان پر کوئی ہاتھ ڈال سکتا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو سیاسی لحاظ سے بھی طاقتور ہوتے ہیں اور اکثر یہی وزارتیں وغیرہ حاصل کرتے رہتے ہیں۔ پھر جب ارکان اسمبلی بنتے ہیں تو وہاں بھی اپنے ہی مفادات کے لیے کام کرتے ہیں اور صرف اور صرف اپنے ہی مفادات انہیں نظر آتے ہیں جسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ایوانوں سے لے کر ٹی وی ٹاک شوز تک ہر جگہ فضول اور بے معنی طرز کی گھنٹوں باتیں ہو رہی ہیں مگر بات نہیں ہورہی تو صرف سیلاب متاثرین پر۔ ان کے بارے میں صرف خبرنامہ میں ہی سنا جاتا ہے، اس کے علاوہ کسی کو بھی اس کی فکر نہیں ہے۔سوشل میڈیا پر لوگ اپنی چیخ و پکار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایسی ایسی ویڈیوز دیکھنے کو مل رہی ہیں کہ انسان دہل کر رہ جاتا ہے۔لوگ سڑکوں پر بے یارو مددگار پڑے ہیں، انہیں کسی سہارے کی ضرورت ہے اور سہارا حکومت ہی ہوتی ہے، جس کی یہ ذمے داری ہوتی ہے کہ پہلے تو وہ ایسا نظام قائم کرے جس کے ذریعے یہ پیشگی معلوم کیا جاسکے کہ کون سے علاقے میں کتنی بارش متوقع ہے اور اس کے نتیجے میں کہاں کہاں سیلاب کا خدشہ ہے۔ اگر کسی علاقے میں سیلاب کا خدشہ ہو تو وہاں کے عوام کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا جائے، جہاں ان کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام ہو۔ اگر اس کے باوجود کسی علاقے میں لوگ سیلاب سے متاثر ہوجائیں تو وہاں فوری طور پر منظم امدادی کارروائیاں ہونی چاہئیں۔ یوں بہت بڑے نقصانات سے بچا جاسکتا ہے۔لیکن یہ سب تبھی ممکن ہے جب حکمران سیاست چمکانے کے بجائے اپنی ذمے داریوں پر توجہ دیں ۔افسوس صد افسوس ہمارے بے حس سیاستدان اور حکمران قیامت کی اس کھڑی میں بھی ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہے۔ان حالات میں امیر جماعت اسلامی کا بیان اور آفت زدہ علاقوں کے طوفانی دورے یہ واضح پیغام دیتے ہیں کہ انسانی خدمت کرنا مقصود ہو تو حکمرانی کا ہونا ضروری نہیں۔بہر حال جماعت اسلامی کے پاس وہ وسائل نہیں جو حکومتوں کے پاس ہوا کرتے ہیں۔اگر حکمران طبقہ ضد اور انا کے گھوڑے سے ایک لمحے کے لیے اتر آئے اور سراج الحق ایسے انسان پر اتفاق کرتے ہوئے موجودہ آفت سے نمٹنے کے لیے انہیں وسائل فراہم کر دے تو یقینی بات ہے کہ کافی حد تک جلد مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔







