پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈ لاک

پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات میں ڈیڈ لاک
تحریر : صیاء الحق سرحدی
پاکستان اور افغانستان کے درمیان استنبول میں چھ نومبر کو ہونے والے مذاکرات ڈیڈ لاک کا شکار ہو گئے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے سوشل میڈیا پر بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اپنے اصولی موقف پر قائم ہے، افغانستان کی سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی پر قابو پانے کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغان طالبان دوحہ امن معاہدے کے مطابق اپنے بین الاقوامی، علاقائی اور دوطرفہ وعدوں کی تکمیل میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان افغان عوام کے لئے خیر سگالی کا جذبہ رکھتا ہے اور ان کے لئے ایک پر امن مستقبل کا خواہشمند ہے تاہم وہ طالبان حکومت کے ایسے اقدامات کی حمایت نہیں کرے گا جو افغان عوام یا پڑوسی ممالک کے مفاد میں نہ ہوں، وہ اپنے عوام اور خود مختاری کے تحفظ کے لئے تمام ضروری اقدامات جاری رکھے گا۔ دوسری جانب وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک نجی ٹی وی سے گفتگو میں کہا تھا کہ اس وقت پاک افغان مذاکرات میں مکمل ڈیڈ لاک ہے، مذاکرات ختم ہو چکے ہیں، اگلے دور کا کوئی پروگرام نہیں، پاکستانی وفد کا خالی ہاتھ واپس آنا اس بات کی دلیل ہے کہ ثالثوں کو بھی اب افغانستان سے امید نہیں، انہیں ذرا بھی امید ہوتی تو وہ کہتے کہ آپ ٹھہر جائیں، ثالث کہتے تو پاکستانی وفد رک جاتا، مذاکرات میں افغان وفد پاکستانی موقف سے متفق تھا تا ہم لکھ کر دینے پر راضی نہ تھا جبکہ دوحہ اور استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کے جو تین ادوار ہوئے تھے، ان کے انعقاد میں قطر کے علاوہ ترکیہ کا بھی بڑا اہم کردار تھا۔ ان مذاکرات میں جب بھی ڈیڈ لاک پیدا ہوا’ قطر کے ہمراہ ترکیہ نے بھی اسے ختم کرانے کیلئے بھرپور کوشش کی۔ استنبول مذاکرات میں ڈیڈ لاک کے بعد اگرچہ خواجہ آصف نے پاک افغان مذاکرات کی کہانی ختم ہونے کا اعلان کر دیا ہے مگر اطلاعات کے مطابق ترکیہ کو اسلام آباد اور کابل کے درمیان ڈیڈ لاک پر بڑی تشویش ہے اور ترکیہ کسی صورت مصالحت کی کوششوں کو ترک کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتا بلکہ دونوں ملکوں کے مابین مستقل جنگ بندی کیلئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتا ہے۔ اعلیٰ سطح کے ترک وفد کی پاکستان میں ممکنہ آمد، ترکیہ کے پاکستان کے ساتھ خلوص اور دو ہمسایہ مسلم ملکوں میں مصالحت کیلئے مخلصانہ کوشش کی آئینہ دار ہے۔ ایران کی طرف سے بھی پاکستان اور افغانستان کے باہمی اختلافات ختم کرانے میں تعاون کی پیشکش اس سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے کیونکہ پاکستان کی طرح ایران افغانستان کا بھی ہمسایہ ہے۔ افغانستان میں جنگ اور بدامنی کی وجہ سے افغان باشندوں نے پاکستان کے علاوہ ایران میں بھی پناہ حاصل کی تھی۔ پاکستان اور افغانستان میں جنگ کی صورت میں جو ممالک فوری طور پر اور سب سے زیادہ متاثر ہوں گے ان میں ایران بھی شامل ہو گا’ اس بنا پر ایران کی طرف سے پاک افغان مذاکرات میں ڈیڈ لاک اور سرحدی جھڑپوں کے دوبارہ شروع ہونے کے خدشات کا اظہار قدرتی اور قابلِ فہم ہے۔ اگرچہ اس وقت صرف روس نے طالبان کی حکومت کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطابق روس کی جانب سے طالبان کی حکومت کو افغانستان کی جائز اور قانونی حکومت تسلیم کرنے کا اقدام نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے کیلئے اہم سیاسی، عسکری اور معاشی مظہرات کا حامل ہے۔ تاجکستان میں وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ ایک حالیہ کانفرنس کے دوران روس کے صدر ولادیمیر پوتن نے افغانستان میں امن اور استحکام کو وسطی ایشیائی ممالک کی سلامتی اور خوشحالی کیلئے اہم قرار دیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ روس کی معلومات کے مطابق طالبان حکومت اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی میں استعمال ہونے سے روکنے کیلئے کوشش کر رہی ہے۔2020ء میں دوحہ معاہدے میں افغان طالبان نے پوری دنیا کو تحریری طور پر یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اپنی سرزمین کو دوسرے ممالک کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیوں کیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے مگر اگست 2021ء میں کابل پر قبضے کے بعد سے چار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود افغان طالبان اپنا وعدہ پورا نہیں کر سکے اور افغان سرزمین بدستور پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔ گزشتہ دنوں بھی اسلام آباد جی الیون کچہری کے باہر بھارتی سپانسرڈ اور افغان طالبان کی پراکسی فتنہ الخوارج نے خودکش دھماکہ کیا، جس کے نتیجے میں 12افراد شہید اور 36زخمی ہوگئے۔ اس سے قبل پیر کے روز فتنہ خوارج کی جانب سے جنوبی وزیرستان میں وانا کیڈٹ کالج کو نشانہ بنانے کی مذموم کوشش کی گئی۔ یہ امر پوری دنیا پر روزِ روشن کی طرح عیاں ہو چکا ہے کہ افغان طالبان نے نہ صرف کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو اپنے ملک میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رکھی ہیں بلکہ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان رجیم کی جانب سے انہیں عسکری اور مالی امداد بھی فراہم کی جاتی ہے جبکہ افغان طالبان اپنے رویے میں تبدیلی لانے سے صاف انکاری ہیں، دوحہ اور استنبول مذاکرات بھی اسی وجہ سے بے نتیجہ رہے۔ اس کے باوجود ترکیہ اور ایران جیسے برادر مسلم ممالک پاکستان اور افغانستان کے درمیان تنازعات کا مستقل حل ڈھونڈنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ یہ تنازعات اسی صورت ختم ہو سکتے ہیں جب افغان طالبان اپنے سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہونے سے روکیں گے، مگر ایران اور ترکیہ کی طرف سے مصالحت کی پیشکش کا مقصد پاکستان اور افغانستان کے درمیان کسی بڑی جنگ کے امکان کو روکنا ہے کیونکہ مذاکرات میں ڈیڈ لاک کے بعد پاکستان نے واضح کر دیا کہ وہ سرحد پار سے کسی بھی دہشت گردی کا فوری اور بھرپور جواب دے گا۔ ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان کی ہدایت پر اعلیٰ سطح کے ترک وفد کی پاکستان میں آمد کا مقصد پاکستان کو افغانستان کے ساتھ دوبارہ مذاکرات پر آمادہ کرنا اور سیز فائر کو مستقل قرار دینے پر راضی کرنا ہے۔ امید ہے یہ اعلیٰ سطح کا وفد اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان حکومت نے اپنا رویہ نہ بدلا تو معاملات مزید بگڑ سکتے ہیں اور پھر دونوں اطراف کو ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس معاملے کو بات چیت کے ذریعے ہی حل کرنا چاہئے، افغان طالبان اپنا رویہ بدلیں، حقیقت کا سامنا کرتے ہوئے درست راستہ اختیار کریں۔ اگر افغان حکومت کو کسی بھی قسم کے مسئلے کا سامنا ہے تو پاکستان اس کی مدد کر سکتا ہے۔ پاکستان کا ایک ہی مطالبہ ہے جو ہر طرح سے جائز ہے، اس حوالے سے ان تمام ممالک کو بھی مدد کرنی چاہئے جو افغان طالبان پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کر سکتے ہیں، بلاشبہ مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل ہی اولین ترجیح ہونی چاہئے کیونکہ افغانستان کی سرزمین ایک پراکسی جنگ کا میدان بن چکی ہے، جہاں علاقائی اور عالمی طاقتیں اپنے مفادات کے لیے چال چلی رہی ہیں۔ پاکستان، جو اس سب سے براہ راست متاثر ہے، نے ہمیشہ سفارتی اور پر امن ذرائع کو ترجیح دی ہے، لیکن جب تک دوسرے فریق کی سنجیدگی نہ ہو، تو یہ کوششیں ناکام رہتی ہیں۔ ایسے نازک موڑ پر، ایران اور ترکیہ کی مصالحتی کوششیں ایک امید کی کرن کی مانند ابھر رہی ہیں جبکہ ایران کی ثالثی کی پیشکش اور ترکیہ کا اعلیٰ سطح کا وفد بھیجنے کا اعلان اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ علاقائی طاقتیں اب تنازعات کو حل کرنے کے بجائے انہیں روکنے کی طرف مائل ہورہی ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ ان مواقع کو سنجیدگی سے لے اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ مل کر ایک جامع امن فریم ورک تیار کرے اور طالبان رجیم کو بھی یہ سمجھنا ہو گا کہ انکار کی پالیسی طویل مدتی نقصان کا باعث بنے گی۔ بھارتی مداخلت جیسے بیرونی عوامل کو روکنے کے لیے علاقائی فورمز جیسے ای سی او اور شنگھائی تعاون تنظیم کا کردار بھی اہم ہو گا۔ خلاصہ یہ ہے کہ امن کی راہ سفارتکاری اور با ہمی اعتماد سے ہی گزرتی ہے۔ ایران اور ترکیہ کی شمولیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ خطہ تنازعات سے تنگ آچکا ہے اور اب مشترکہ حل کی تلاش میں ہے۔ پاکستان کو اس موقع کو ضائع نہ کرنے دیں، کیونکہ ایک مستحکم افغانستان ہی ایک مستحکم پاکستان کی ضمانت ہے۔





