
جگائے گا کون؟
مصنوعی ذہانت اور ملک دشمن پروپیگنڈا
تحریر : سی ایم رضوان
آج کل کچھ عرصہ سے سوشل میڈیا پر ایک خطرناک اور قابلِ افسوس رجحان دیکھنے میں آ رہا ہے کہ مختلف فوجی چہروں کے ساتھ مصنوعی ذہانت (AI)سے جعلی ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر دکھائی جا رہی ہیں جن میں ان فوجی افسران کے ہاتھ میں قرآنِ پاک پکڑا کر ان سے جھوٹی قسم لی جاتی ہے کہ’’ عمران خان غدار نہیں، بلکہ وہ ملک کا سب سے وفادار شخص ہے‘‘۔ اسی نوعیت کی فوجی چہروں اور وردیوں کے ساٹھ بنائی گئی دیگر ویڈیوز نہ صرف جھوٹ، فریب اور پروپیگنڈہ کا مجموعہ ہیں بلکہ قرآنِ مجید کی حرمت اور اسلام کی تعلیمات کے ساتھ کھلا مذاق ہیں۔ کسی انسان کے نام پر، خاص طور پر سیاسی مقاصد کے لئے، قرآن کو بطور ہتھیار استعمال کرنا محض گمراہی نہیں بلکہ گستاخی ہے۔ ایک ایسی گستاخی جو بظاہر ایمان کے نام پر کی جاتی ہے مگر حقیقت میں دین کے تقدس کو پامال کرتی ہے۔ قرآن کریم کی بیحرمتی کے علاوہ ایک دوسرا افسوسناک پہلو بھی سامنے آتا ہے کہ وہ طبقہ جو خود کو’’ باشعور عوام‘‘ کہتا ہے، جو فخر سے کہتا ہے کہ’’ عمران خان نے ہمیں شعور دیا ہے‘‘۔ انہی ویڈیوز کے نیچے جا کر آنکھ بند کر کے’’ سبحان اللہ‘‘، ’’ واہ! سچ بول دیا‘‘، اور ’’ یہی حق ہے‘‘، جیسے کمنٹس چل رہے ہوتے ہیں۔ یہ کمنٹس ان لوگوں کے ہوتے ہیں جو ان جعلی ویڈیوز کو حقیقت سمجھ بیٹھے ہیں۔ حالانکہ شعور کا مطلب تو تحقیق، فہم وفراست اور احتیاط ہے، نہ کہ ہر ویڈیو کو اس لئے سچ مان لینا کہ اس میں ایک پروپیگنڈہ سے بننے والے لیڈر کا نام لیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان فالوورز کو شعور نہیں دیا گیا، بلکہ یہ اندھی عقیدت کا شکار ہو گئے ہیں اور اندھی عقیدت ہمیشہ سچ کو دفن کر دیتی ہے۔ وہی لوگ جو آج ان جعلی ویڈیوز کو قرآن کے نام پر سچ مان رہے ہیں، اگر کل کو کوئی AIویڈیو عمران خان کے خلاف بنے، تو وہ فوراً شور مچائیں گے کہ یہ جعلی ویڈیو ہے، یہ اصلی نہیں۔ یہ دراصل اس پروپیگنڈا کا اثر ہے جو پی ٹی آئی کی جانب سے پچھلی نصف دہائی سے کیا جا رہا ہے۔ پروپیگنڈا ایک نفسیاتی اور سائنسی حربہ ہے جس نے نہ صرف پاکستان کے بعض نوجوانوں کو عقل و شعور سے بیگانہ بلکہ اپنے ہی ملک کے خلاف کر دیا ہے اب یہ پی ٹی آئی کے بانی کی محبت میں ہندوستان اور افغانستان کے تو حامی بن گئے ہیں مگر پاکستان اور اس کی محافظ فوج کے مخالف پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔
اکثر لوگ پراپیگنڈے کو ایک ایسے عمل کے طور پر دیکھتے ہیں جس میں کسی ایسے پیغام کو جس کا ماخذ معلوم ہو ابلاغ کے مختلف ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے تکرار کے ساتھ اور زور دے کر بیان کیا جاتا ہے۔ پراپیگنڈے کی مثالوں میں اکثر نازی جرمنی (45ئ۔1933ئ)، فاشسٹ اٹلی (43ئ۔1922ئ)، کمیونسٹ سوویت یونین ( خاص طور پر 1924ء سے 1953ء کے درمیان)، کمیونسٹ چین (1966ء سے 1976ء کے درمیان ثقافتی انقلاب کے دوران) اور تھیو کریٹک ایران (1980ء کی دہائی میں) ریاست اور حکومت کی جانب سے کیا جانے والا پروپیگنڈا شامل ہے۔ اسی طرح کا پروپیگنڈا غیر آمرانہ متعدد حکومتوں میں بھی کیا گیا اور ایسا خاص طور پر دوسری جنگ عظیم (1945ئ۔1939ئ) کے دوران ہوا۔ سیاسیات کے ماہرین پروپیگنڈے کو عموماً 3اقسام یعنی سفید پروپیگنڈا، سرمئی پروپیگنڈا، گرے پروپیگنڈا اور سیاہ پروپیگنڈا میں تقسیم کرتے ہیں۔ ’’ سفید‘‘ پروپیگنڈے کے ماخذ اور اس کے ایجنڈے کا کھل کر اظہار کیا جاتا ہے۔ اس میں نازی جرمنی کی حکومت کی جانب سے یہودیوں کے خلاف تشدد پر اکسانے والے پمفلٹ بھی شامل ہو سکتے ہیں اور اس میں وہ مہذب پروپیگنڈا بھی شامل ہو سکتا ہے جس میں کوئی تجارتی کمپنی خود کو ملنے والے کسی ایوارڈ کا اعلان کرے حالانکہ اکثر اوقات ان ایوارڈز کے لئے کمپنی نے خود ادائیگی کی ہوتی ہے۔ سرمئی پروپیگنڈا کی شناخت کرنا کچھ مشکل ہو سکتا ہے۔ اس پراپیگنڈے کا اصل منبع یا ماخذ ظاہر نہیں ہوتا۔ اس پراپیگنڈے میں اپنے پیغام کو پہنچانے کے لئے بالواسطہ ذرائع کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی ایک مثال اخبارات میں وہ مضامین پلانٹ کرنا ہے جو غیرجانبدار نظر آنے والے خواتین و حضرات نے لکھے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت وہ لوگ پراپیگنڈے کے لئے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر چند سال پہلے پاکستان کے سائفر اسکینڈل کے حوالے سے شائع ہونے والی خبر بھی مبینہ طور پر اسی پراپیگنڈے کی مثال لگتی تھی۔ اس خبر کی صداقت کو ثابت کرنے کے لئے بعد ازاں ایک ویب سائٹ نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اس خبر کا ذریعہ پاکستانی فوج میں کوئی فرد ہے۔ اس کے باوجود اس حوالے سے ابہام باقی رہا۔ بعد ازاں اس خبر کو دینے والے افراد کی سوشل میڈیا پوسٹوں سے بھی ان کا عمران خان کا حامی ہونا نظر آیا۔ اس خبر کے آخر میں ان کا کہنا تھا کہ وہ آزادانہ بنیاد پر اس سائفر کی تصدیق نہیں کر سکے جو انہیں فراہم کیا گیا تھا۔ لیکن پھر بھی انہوں نے اس کی بنیاد پر ایک پوری خبر تیار کر دی۔
سرمئی پراپیگنڈے میں بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جسے پراپیگنڈے کے فروغ کے لئے بطور ذریعہ استعمال کیا جا رہا ہوتا ہے وہ بھی اس سے بے خبر ہوتا ہے۔ کمرشل ادارے بھی سرمئی پروپیگنڈا کرتے ہیں۔ وہ خاموشی سے ایک معروف ماہر کی خدمات حاصل کرتے ہیں اور اسے اپنے ادارے یا کمپنی کے نہیں بلکہ اپنی مصنوعات کے ’’ فوائد‘‘ کو اجاگر کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں کیونکہ اس پراپیگنڈے کا انحصار ایک غیر جانبدار پیغام رساں پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر 1920ء کی دہائی کے آخر میں ڈبہ بند بیکن بنانے والی ایک امریکی کمپنی نے ایک معروف ڈاکٹر کی خدمات حاصل کیں۔ اسے یہ دعویٰ کرنے کے لئے ادائیگی کی گئی تھی کہ صبح کے وقت بیکن کھانا ایک صحت مند ترین ناشتہ ہے۔ یہ طریقہ کار اکثر ان کمپنیوں کی جانب سے اختیار کیا جاتا ہے جن پر مضر صحت اشیا بنانے اور فروخت کرنے کے حوالے سے تنقید ہوتی ہے۔ 1940ء سے 1960ء کے درمیان امریکا کی سگریٹ بنانے والی کمپنیوں نے ایسی ’’ تحقیقات‘‘ پر لاکھوں ڈالر خرچ کیے جن میں اس بات کو ’’ ثابت‘‘ کرنا تھا کہ سگریٹ نوشی اتنی خطرناک نہیں ہے جتنا کچھ آزاد تحقیقات میں بتایا گیا ہے۔ اسی طرح تجارتی کمپنیاں دیگر کمپنیوں اور خاص طور پر اپنے حریفوں کے خلاف بھی سرمئی پروپیگنڈا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر پیک دودھ بنانے والی کمپنی حریفوں کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش میں بظاہر ’’ غیر جانبدار‘‘ لوگوں کے ذریعے پلانٹڈ ’’ تحقیق‘‘ کروا سکتی ہے اور سوشل میڈیا پوسٹس لگوا سکتی ہے۔ یہاں سرمئی اور سیاہ پراپیگنڈے کے درمیان فرق ختم ہونے لگتا ہے۔ سرمئی پروپیگنڈے کی طرح، ’’ سیاہ‘‘ پروپیگنڈا بھی اپنا منبع و ماخذ ظاہر نہیں کرتا لیکن سرمئی پراپیگنڈے کے برعکس سیاہ پروپیگنڈا ان لوگوں سے غلط معلومات منسوب کرتا ہے جو اس کا ہدف ہوتے ہیں۔ 1990ء کی دہائی میں سابق پاکستانی وزیراعظم بینظیر بھٹو اکثر اس بات پر افسوس کا اظہار کرتی نظر آئیں کہ ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے اکثر دائیں بازو کے رسائل و جرائد کو ان کے جعلی بیانات شائع کرنے کے لئے استعمال کیا تاکہ اس پراپیگنڈے کو ہوا دی جائے کہ وہ ملک کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اسی طرح 1992ء میں متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران سکیورٹی فورسز نے ایم کیو ایم کے دفتر سے ایک نقشہ برآمد کیا۔ نقشے میں کراچی اور حیدرآباد کو ایک الگ ملک کے طور پر دکھایا گیا تھا۔ اس کے بارے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسے ایم کیو ایم نے شائع کیا تھا لیکن ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد ایک سابق انٹیلی جنس افسر نے اعتراف کیا کہ وہ نقشہ جعلی تھا۔
ملکوں کے خلاف ملکوں کے پراپیگنڈے کے ضمن میں اگر دیکھا جائے تو بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف سرمئی اور سیاہ پراپیگنڈے کے لئے بدنام ہے۔ اپریل 2023ء میں ایک عام سے ٹوئٹر اکائونٹ نے پاکستان میں تالا بند قبر کی تصویر پوسٹ کی گئی۔ پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ قبر ایک خاتون کی تھی اور اس پر تالہ لگایا گیا تھا تاکہ میت کو ان لوگوں سے محفوظ رکھا جا سکے جو نیکروفیلیا میں ملوث ہیں۔ اس خبر کو مین سٹریم کے مختلف ہندوستانی خبر رساں اداروں نے تیزی سے پھیلایا۔ تاہم بعد ازاں حقائق کی جانچ کرنے والی ایک آزاد ویب سائٹ نے اس کہانی کا پردہ فاش کیا اور بتایا کہ یہ تصویر دراصل پاکستان کی نہیں بلکہ ہندوستان ہی کی ہے۔ پاکستان میں سیاہ پروپیگنڈے کو اب اکثر وہ لوگ استعمال کرتے ہیں جنہیں مبینہ طور پر سابق فوجی اسٹیبلشمنٹ نے بانی پی ٹی آئی کے مخالفین کو برا دکھانے کے لئے اس پراپیگنڈے کی تربیت دی تھی۔ لیکن ان افراد کو موجودہ اسٹیبلشمنٹ نے گھاس نہ ڈالی کیونکہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ صرف اور صرف ملک اور قوم کے اصل مفاد کے لئے اپنی طاقت اور تکنیکس استعمال کر رہی ہے۔ یوں اب بانی پی ٹی آئی کے مخالفین اور یہاں تک کہ موجودہ اسٹیمبلشمنٹ کے ممبران سے منسوب جعلی حوالے اور دستاویزات اکثر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں۔ اگرچہ جلد ہی ان کی تردید ہو جاتی ہے لیکن آج کے دور میں سیاہ پروپیگنڈا ان لوگوں کے ذہنوں کو اپنا ہدف بنا لیتا ہے جو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس تردید پر شبہات ظاہر کیے جاتے ہیں جبکہ جس چیز کی تردید کی جاتی ہے اس کی ’’ صداقت‘‘ لوگوں کے ذہنوں میں برقرار رہتی ہے۔ یہی حال ان پی ٹی آئی لوورز کا ہے کہ وہ اس پراپیگنڈے کا اس قدر شکار ہو چکے ہیں کہ انہیں اس محبت کے مقابلے میں اپنا وطن اور اپنی محافظ فوج بھی بیگانہ نظر آتی ہے۔ مگر وقت اور اصل صداقت بالآخر انہیں اس امر کا قائل کر لے گی کہ بانی پی ٹی آئی کے علاوہ کوئی دوسرا لیڈر بھی محب وطن ہو سکتا ہے۔





