Column

ی ایل پی اور شدت پسندی

جگائے گا کون؟
ٹی ایل پی اور شدت پسندی
تحریر: سی ایم رضوان
خبر ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت کی تجویز پر وفاقی حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی کا نوٹیفیکیشن وزارت داخلہ کو بھجوا دیا ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ یہ نوٹیفیکیشن سپریم کورٹ کو بھیجا جاتا جو اس پابندی کے قانونی پہلوں پر غور کر کے ایک مدلل فیصلہ جاری کرتی اور بعد ازاں قانونی موشگافیوں کا خدشہ کم سے کم ہوتا لیکن ہماری حکومتیں شاید دلیل اور جواز کی بجائے صرف ڈنڈے سے کام لینے کو ہی ترجیح دے رہی ہے جو لامحالہ سنگین نتائج لائے گی۔ ٹی ایل پی پر پابندی گو کہ متنازعہ ہے لیکن اس حوالے سے شاید مناسب ہو گی کہ اس جماعت نے بھی شدت پسندی اور انتہا پسندی کی انتہا کر دی ہے۔ جہاں تک اس جماعت کے نعرے کا تعلق ہے وہ تو پورے ملک کے ہر شہری کے دل کی دھڑکن ہے لیکن اس جماعت کے لوگ اس نعرے کی آڑ میں نجانے کیا منوانا چاہتے ہیں اور مسلسل شدت پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔
ویسے تو شدت پسندی کم و بیش دنیا کے ہر معاشرے، مذہب اور تہذیب میں پائی جاتی ہے لیکن اکثر معاشروں میں ان کی تعداد مٹھی بھر اور پورے معاشرے کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی ہے سو اکثریتی آبادی بھی اپنی ڈگر پر چلتی رہتی ہے اور یہ شدید قسم کے خیالات اور نظریات رکھنے والے تھوڑے سے لوگ بھی اپنے اصولوں پر زندگی بسر کرتے رہتے ہیں اور اپنی درسگاہوں اور حلقہ احباب تک ہی محدود رہتے ہیں۔ اس کی مثالیں ہمیں آج کے ترقی یافتہ یورپ میں بھی مل جائیں گی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں کے سیکولر معاشروں میں شخصی آزادی اپنی انتہا پر ہے، اسی آزادی کی بنا پر وہاں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو سختی سے اپنے شدت پسندانہ خیالات پر کاربند رہتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ وہ اپنی ریاست اور نظام سے متصادم نہیں ہوتے بلکہ اپنے مذہبی مقامات تک ہی محدود رہتے ہیں۔ لیکن پاکستان جیسے معاشرے میں اکثر اوقات تشویشناک صورت حال اس وقت پیدا ہو جاتی ہے جب یہ شدت پسند عناصر ریاست اور نظام پر اثر انداز ہو کر پورے معاشرے کو یرغمال بنا لیتے ہیں اور معاشرے میں اپنے وجود سے متعلق ایک خوف اور دہشت پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ صورت حال اس وقت اور بھی گھیبر اور خطرناک ہو جاتی ہے جب ان عناصر کو پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی شہ اور فنڈنگ مل جاتی ہے۔ ویسے تو پاکستان کا بنیادی مسئلہ ہی یہ ہے کہ یہ قائم ہی مذہب کے نام پر ہوا تھا لہٰذا اس میں مذہبی لوگوں کی اکثریت ہے لیکن ساتھ ہی یہ عافیت بھی موجود ہے کہ اس اکثریت کا ایک معقول حصہ معقولیت کے مقام پر فائز ہے اور خال خال ہی شدت پسندی اور انتہا پسندی کا مظاہرہ کرتا ہے لیکن گزشتہ چند دہائیوں سے ( موجودہ رجیم کے برسر اقتدار آنے سے پہلے تک) یہاں اس طرح کی صورتحال رہی ہے کہ اس شدت پسندی اور انتہا پسندی کو زیادہ پسندیدگی، اختیار اور پذیرائی ملتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ ایک شدت پسندانہ سیاسی سوچ کے حامل عمرانی پراجیکٹ کو تو اقتدار تک دے دیا گیا تھا اور اسی دور میں چند انتہا پسند جتھوں کو سیاسی جماعتیں قرار دے دیا گیا تھا پھر ملک کی سڑکوں اور چوراہوں پر انسانی خون کی جو ارزانی ہوئی وہ پورا ملک دیکھ چکا ہے کہ پورا ملک احتجاج کے نام پر ملک دشمنی پر مبنی حملوں سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔ کبھی کبھار تو یوں لگتا ہے کہ یہاں مذہبی اور سیاسی شدت پسندی نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور وہ ریاست اور اس کے نظام کو چیلنج کر رہی ہے۔
تاریخ کھنگالنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا یہ سماج صدیوں سے کسی مذہبی و مسلکی تفریق کے بغیر ایک ساتھ رہتا چلتا آیا ہے۔ موریہ خاندان کے تیسرے فرمانروا مہاراجہ اشوک اور مغلیہ سلطنت کے بھی تیسرے ہی فرمانروا شہنشاہ اکبر کا نام اس حوالے سے تاریخ نے خصوصی طور پر محفوظ کر رکھا ہے کہ انہوں نے اپنے اپنے ادوار حکومت میں ملک میں مذہبی رواداری کی خصوصی مثالیں قائم کیں، لیکن بعد کے زمانے میں یہ خطہ، خصوصاً پاکستان، اپنے شدت پسندانہ تشخص کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جانے لگا۔ مذہب کے نام پر تقسیم نے قیامِ پاکستان کے وقت سے یہاں شدت پسندی کو جو فروغ دیا تھا وہ بعد ازاں اتنا مضبوط ہو گیا کہ قومی اور سیکولر ریاست کے تخیل کے مقابلے میں مذہبی حکومت کے تصور نے یہاں کی اکثریت کو اپنے سحر میں جکڑ لیا اور یوں آج تک پاکستان میں اٹھنے والی ہر شدت پسند تحریک اپنے مقاصد کے لئے مذہب کا نام استعمال کرتی رہی ہے تاکہ اکثریت کو اپنی جانب راغب کیا جا سکے۔ یہاں تک کہ بیرونی طاقتیں بھی پاکستان میں اپنے مقاصد اور اہداف کے لئے مذہب ہی کو آلے کے طور پر استعمال کرتی ہیں، اور ریاست و عوام کے خلاف بر سرِ پیکار قوتوں کی مالی سرپرستی بھی مذہب کے نام پر ہی کی جاتی ہے۔ ہمارے اساتذہ بھی اپنی مبہم تعلیمی پالیسی کی چھتری تلے مستقبل سے زیادہ ماضی کو زیر بحث لاتے رہے اور ہندو مسلم اختلافات، فرقہ وارانہ تعصبات اور دنیا پر حکومت کرنے کے خواب نے ایسی جنگجویانہ نفسیات کو جنم دیا ہے جس نے معاشرے میں موجود شدت پسند عناصر کے حق میں جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہمارے حکمران اور ریاست گزشتہ چند ادوار میں بہت جارحانہ رہی ہے۔ نتیجتاً اس نوعیت کی پالیسیوں کے زیرِ اثر تیار ہونے والی نسل اب بطور ایندھن استعمال ہو رہی ہے اور پاکستان میں شدت پسندی سے وابستہ عناصر کو بڑھاوا مل رہا ہے۔ تنگ نظری، اپنے مذہبی حریفوں سے نفرت، عدم برداشت اور جارحیت ہمارے مزاج کا حصہ بن گئی ہے۔ آج بھی پاکستان کا نظامِ تعلیم ایسا کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام ہے جس سے عوام میں قرار واقعی سماجی شعور اور انسانی رویے فروغ پا سکیں اور ہم تعصبات کی تنہائی سے نکل کر عالمگیر معاشرے کا باوقار حصہ بن سکیں۔ آج بھی ہمارا نصابِ تعلیم رواداری، انسان دوستی اور مسلّمہ انسانی اقدار پر خاموش ہے اور ہم خطے میں امن، سلامتی اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکے ہیں۔ آج بھی ہمارے نصاب کے مضامین اپنی کمزوریوں کو زیر بحث لانے کے بجائے غیر ضروری مواد سے اٹے پڑے ہیں۔ آج بھی ہم اپنے نصاب تعلیم کے ذریعے تنگ نظری کا بیج بو رہے ہیں، جس کا نتیجہ بہرحال تنگ نظری کی فصل کی صورت میں ہی نکلنا تھا۔ آج ہمارا ایسا کوئی قومی ادارہ نہیں بچا جہاں شدت پسندی کسی نہ کسی شکل میں موجود نہ ہو۔ اب شدت پسندی کا یہ زہر ہمارے قومی وجود کی رگ رگ میں سرایت کر چکا ہے۔ ہمارا معاشرہ شدت پسندی کے اندھے کنوئیں میں جا گرا ہے۔
دوسری جانب اس شدت کو روکنے جیسے اقدامات اس لئے ناکام ہو رہے ہیں کہ جب آپ کسی سے اس کا مقصد اور عقیدہ چھیننے کی کوشش کریں گے تو وہ آپ سے لڑے گا نہیں تو اور کیا کرے گا خواہ اسے آپ کے یا اپنے دشمن ہی سے مدد کیوں نہ لینا پڑے، اور ایسی صورتحال میں معاشرے میں موجود ہمدرد عناصر ان دیکھے انداز میں ان کی پشت پر آ جاتے ہیں۔ یہی کچھ پاکستان میں ہوا کہ شدت پسند عناصر کو معاشرے کی مختلف پرتوں سے تعاون حاصل ہوتا رہا اور قومی عمارت کی بنیادوں میں شدت پسندی کا پانی رستے رستے ہمارے قومی وجود کی بنیادیں کھوکھلی ہو گئیں۔ ہمارے ہاں شدت پسندی کے جڑ پکڑنے کی ایک بڑی وجہ اہلِ علم اور دانشوروں کی طرف سے بوجوہ اس کو فکری اور نظریاتی سطح پر بطور ایک علمی اور فکری چیلنج کے قبول نہ کرنا بھی ہے کیونکہ افغان جنگ کے دوران ایسے دانشوروں کی حوصلہ شکنی کی گئی جنہوں نے پاکستان کی مقتدرہ کی پالیسی کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کے برعکس ایسے رسائل و جرائد جاری ہونے لگے جن کے سرورق کلاشنکوف، مشین گنوں اور جدید اسلحے کی تصویروں سے مزین ہوتے تھے۔ ان رسالوں اور جرائد میں چھپنے والے مواد نے روایتی سسپنس میں جاسوسی رسائل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ شدت پسندی کی اس فضا کو پرواں چڑھانے اور پاکستانی معاشرے کو انتہا پسندی کے جہنم میں دھکیلنے میں ہماری سیاسی جماعتوں نے بھی پھرپور کردار ادا کیا۔ شدت پسند عناصر کے خلاف کارروائی میں ہماری سیاسی اور نام نہاد جمہوری حکومتیں بھی ہمیشہ ہی تذبذب کا شکار رہی ہیں کیونکہ کسی نہ کسی طرح ان کے مفادات اس طبقے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں، مثلاً ووٹ بینک اور اپنی مقبولیت برقرار رکھنا وغیرہ وغیرہ۔ یہی وجہ ہے کہ
پاکستان میں شدت پسندی کی بقاء اور استحکام کے لئے بہت سے اسباب اپنے اثرات و نتائج کے ذریعے شدت پسندی کو سازگار ماحول فراہم کرتے رہتے ہیں۔ ایسے اسباب ویسے ہی ہمارے معاشرے میں کبھی کم نہیں ہوئے مثلاً ناانصافی، معاشی محرومیاں، بے روزگاری، طبقاتی معاشرہ، طاقت کا جبر، ذات پات کا نظام، مذہبی گروہ بندی کا وجود، دہشت گردوں کے خلاف عدالتوں سے موثر فیصلوں کا نہ آنا وغیرہ وغیرہ۔ اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں شدت پسندی کو ختم کرنے کی ہر کوشش کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ ہم ایک پُرامن عالمگیر معاشرے کا حصہ بن سکیں اور جدید دنیا کے شانہ بشانہ چل سکیں مگر یہ راستہ اتنا آسان نہیں اور اس کے لئے سب سے پہلے تو چند مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ ان فیصلوں میں نصاب کو بہتر بنانا، قومی بیانیے کی تبدیلی، اور خارجہ پالیسی کو مکمل طور پر ملکی و قومی مفاد کے زیرِ تحت تعمیر کرنا ہے۔ اگر یہ سب کچھ کیا جائے، تو امید کی جا سکتی ہے کہ شدت پسندوں کے خلاف جاری جنگ جیتی جا سکتی ہے۔ ورنہ یہ صرف دہشتگردی کے خلاف سرسری جنگ ہی ثابت ہو گی۔ یعنی جب تک سماج میں گہرائیوں تک موجود منفی ذہنیت کو جڑ سے نہیں اکھاڑا جاتا، تب تک منفی ذہنیت کے ساتھ ہتھیار اٹھائے ہوئے چند ہزار افراد کو شکست دے دینا مکمل فتح نہیں کہلا سکتا۔ ٹی ایل پی پر پابندی بھی موجودہ پابندی بھی ایک جزوی کام ہے جبکہ اصل کام یہ ہے کہ جس نعرے کو یہ لوگ شدت پسندی کو ہوا دینے کے لئے استعمال کر رہے ہیں اس نعرے پر ایک قومی سطح کا مکالمہ ضروری ہے تاکہ یہ نعرہ پوری قوم اپنا لے اور کسی ایک طبقہ فکر کی اس نعرے اور عقیدے پر اجارہ ختم ہو جائے۔

جواب دیں

Back to top button