بریسٹ کینسر، علاج ممکن ہے

بریسٹ کینسر، علاج ممکن ہے
روشن لعل
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن ( WHO) کی طرف سے اکتوبر کو دنیا بھر میں چھاتی کے کینسر (Breast cancer)سے آگاہی کا مہینہ قرار دیا گیا ہے۔ اسی لیے ہر برس اکتوبر کا مہینہ دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی بریسٹ کینسر سے آگاہی مہم کے طور پر منایا جارہا ہے۔ اس مہینے کے شروع میں حکومت کی طرف سے بریسٹ کینسر سے آگاہی مہم کا آغاز تو کر دیا گیا مگر ملک کے طول و عرض میں میڈیا اور لوگوں کے دیگر معاملات میں الجھے ہونے کی وجہ سے بریسٹ کینسر سے آگاہی کی مہم عوام کی مناسب توجہ حاصل نہ کر سکی۔ ملک کے سیاسی ، سماجی اور معاشی حالات جیسے بھی ہوں ، بریسٹ کینسر جیسے حساس مسئلے کو دیگر معاملات کی وجہ سے نظر انداز کرنا کسی طور مناسب نہیں ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر پاکستان میں ہر 9میں سے 1خاتون بریسٹ کینسر کے خطرے کی زد میں ہو سکتی ہے، جب ایسا ہے تو پھر اس قسم کے کینسر پر آنکھیں بند رکھنے کو مجرمانہ غفلت کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔
بریسٹ کینسر کو خالص عورتوں کی بیماری کہا جاتا ہے کیونکہ اس کا شکار ہونے والوں میں 98فیصد سے زیادہ تعداد عورتوں کی ہے۔ دنیا میں ہر برس دس لاکھ سے زیادہ عورتیں بریسٹ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوتی ہیں۔ جب ماہرین سے یہ پوچھا جائے کہ کن خواتین کے اس کینسر کی زد میں ہونے کا زیادہ امکان ہے تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ کینسر ہر عورت کو لاحق ہو مگر اس کے باوجود کسی بھی عورت کا اس کی زد میں آنے کا امکان موجود ہے۔ بریسٹ کینسر کی معاملے میں ہمیں کس قدر حساس ہونا چاہیے اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے اس حوالے سے سال2022ء کی جو رپورٹ جاری کی اس میں بتایا گیا کہ یہ موذی مرض دنیا بھر میں تقریباً 670000اموات کا باعث بنا۔ دنیا کے 185ممالک میں سے 157میں خواتین کو لاحق ہونے والی جان لیوا بیماریوں میں چھاتی کے کینسر کی شرح سب سے زیادہ تھی لیکن دیگر ممالک کی عورتیں بھی اس مرض سے مکمل طور پر محفوظ نہیں تھیں۔ دنیا کے جن خطوں میں چھاتی کے کینسر کی وجہ سے سب سے زیادہ اموات ہوئیں وہ جنوب وسطی ایشیا اور مشرقی ایشیا ہیں۔ جنوب وسطی ایشیا میں اموات کی تعداد 135348اور مشرقی ایشیا میں 480019رہی ۔ جہاں تک مختلف ملکوں میں بریسٹ کینسر سے ہونے والی اموات کا تعلق ہے تو بھارت میں سب سے زیادہ 98337، اس کے بعد چین میں74986 اور تیسرے نمبر پر امریکہ میں 42900اموات ہوئیں۔ ماہرین کے مطابق افریقی اور ایشائی خواتین کی نسبت یورپ اور امریکہ کی خواتین کے چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہونے کا خطرہ 40فیصد سے زیادہ ہے مگر اس کے باوجود ترقی یافتہ امریکہ اور یورپی ممالک میں 1980ء کی دہائی کی نسبت اموات کی شرح میں 40فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ ان اعداد و شمار سے یہ بات درست ثابت ہوتی ہے کہ اگر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ہدایات پر عمل کیا جائے تو بروقت تشخیص اور مناسب دیکھ بھال سے بریسٹ کینسر سے ہونے والی اموات کی تعداد کو بڑی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں اس کینسر میں مبتلا زیادہ تر عورتیں اس وقت علاج کی طرف رجوع کرتی ہیں جب ان کا مرض تیسرے یا چوتھے درجے تک پہنچ کر تقریباً لاعلاج ہو چکا ہوتا ہے۔
بریسٹ کینسر کو ویسے تو عورتوں کا مرض تصور کیا جاتا ہے مگر یہ مسئلہ صرف عورتوں کا نہیں بلکہ انسانوں کا ہے۔ یہ مسئلہ ہر اس گھر کا ہے جہاں عورت موجود ہے کیونکہ جہاں عورت موجود ہے وہاں بریسٹ کینسر کے ظاہر ہونے کا امکان بھی موجود ہے۔ اس لیے بریسٹ کینسر کیسے اور کیوں نمودار ہو سکتا اور اس کی ابتدائی علامات کیا ہیں اس سے آگاہی صرف عورتوں کے لیے ہی نہیں گھر میں موجود مردوں کے لیے بھی ضروری ہے۔ پاکستان میں بریسٹ کینسر کی ابتدائی علامات اور علاج کی تفصیلات سے مردوں کا آگاہ ہونا اس لیے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ یہاں عام گھروں میں عورت اپنے ذاتی معاملات طے کرنے اور حتیٰ کہ علاج کے لیے بھی آزاد اور خود مختار نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہاں ستی ساوتری بنے رہنے کی روایت کے زیر اثر اکثر عورتیں گھر کے دوسرے افراد کی نسبت اپنے مسائل اور تکلیفوں کی طرف کم دھیان دیتی ہیں۔ علاوہ ازیں، پاکستان کی عورتیں ہوں یا مرد ،کسی مہلک بیماری میں مبتلا ہونے کے شک کے بعد اس کے تشخیصی ٹیسٹوں سے بھاگنا تقریباً سب کی نفسیات کا حصہ ہے۔ اس رویے کی وجہ لوگوں کی معاشی مجبوریاں بھی ہیں۔ اس صورتحال میں گھر کے مردوں میں سے خاص طور پر باپ اور خاوند کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات سے آگاہ رہیں کہ کسی خاتون میں بریسٹ کینسر کی ابتدائی علامات کیا ہوسکتی ہیں اور اگر خدانخواستہ یہ علامات ظاہر ہوجائیں تو مریض خاتون کو حوصلہ دیتے ہوئے فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا کتنا ضروری ہے۔ بریسٹ کینسر کی ابتدائی علامات کیا ہوسکتی ہیں، اس کے متعلق عام فہم معلومات ویسے تو یہاں مختلف شکلوں میں کسی نہ کسی حد تک دستیاب ہیں مگر اس سلسلے میں مزید آگاہی کے لیے ضروری ہے کہ حکومتیں تشہیری مہم کے لیے اخبارات اور ٹی وی چینلوں کو زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ اس وقت دنیا میں بریسٹ کینسر کا جس قدر پھیلائو دیکھنے میں آرہا ہے اس کے پیش نظر ضروری ہے کہ عورتیں ذاتی طور کسی خاتون معالج سے رجوع کر کے اس مرض کی ابتدائی علامات کے متعلق آگاہی حاصل کریں۔جو عورتیں اس معاملے میں آگاہ ہیں ان کا فرض ہے کہ اپنے گھر، خاندان اور حلقہ احباب میں شامل خواتین کے ساتھ اس حوالے سے گفتگو کریں اور اپنی معلومات ان تک پہنچائیں۔
اس وقت دنیا میں ’’ سوزن جی کومن فار دی کیور‘‘(Susan G. Komen for the Cure)نامی تنظیم بریسٹ کینسر کے خلاف سب سے موثر اور متحرک کردار ادا کر رہی ہے۔ یہ تنظیم نینسی گڈ مین کومن نامی خاتون نے 1982 ء میں اپنی بہن سوزن گڈمین کومن کے نام پر قائم کی جو 33برس کی عمر میں بریسٹ کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد1980ء میں 36سال کی عمر میں انتقال کر گئی تھی۔ نینسی گڈ مین کو جب یہ معلوم ہوا کہ بریسٹ کینسر کی ابتدائی علامات ظاہر ہونے کے بعد مناسب احتیاط اور علاج کی صورت میں مریض کی زندگی بچائی جاسکتی ہے تو اس نے اپنی بہن کی موت کا دکھ زیادہ محسوس کرنا شروع کر دیا۔ دکھ کی اس کیفیت سے باہر نکلنے کے لیے اس نے خود سے وعدہ کیا کہ چاہے اس کی بہن کی زندگی تو ممکن ہونے کے باوجود نہ بچ سکی مگر وہ اس مرض سے تحفظ کے لیے نہ صرف دوسری عورتوں کی رہنمائی کرنے کے ساتھ بریسٹ کینسر کے خاتمے کی ہر ممکن کوشش بھی کرے گی۔ اس کے بعد سوزن نے بریسٹ کینسر کے خاتمے کو اپنی زندگی کا مقصد بناتے ہوئے اپنی بہن کے نام پر بنائی گئی تنظیم کے ذریعے جدوجہد کا آغاز کر دیا۔ اس تنظیم کے ذریعے دنیا میں آگاہی پھیلائی گئی ہے کہ بروقت تشخیص اور علاج کے ذریعے بریسٹ کینسر کا علاج ممکن ہے۔





