Column

وزیر تعلیم پنجاب کا انقلابی قدم

وزیر تعلیم پنجاب کا انقلابی قدم
تحریر : رفیع صحرائی
وزیر تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات نے واضح اعلان کیا ہے کہ اس سال امتحانی مارکنگ میں ہونے والی لاپرواہی برداشت نہیں کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ’’ اب سے پیپر صرف ری کائونٹ نہیں بلکہ مکمل ری چیک ہوں گے۔ جو ٹیچر لاپرواہی سے مارکنگ کرے گا اس ٹیچر کے خلاف پیڈا ایکٹ کے تحت کارروائی ہوگی اور نوکری سے نکالا جائے گا‘‘۔ وزیر تعلیم نے کہا کہ گزشتہ سال کی ناقص اور غیر ذمہ دارانہ مارکنگ نے طلبہ اور والدین دونوں کو سخت مایوس کیا اس لیے اس بار کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ جو استاد اپنی ذمہ داری نہیں نبھائے گا، اسے محکمہ تعلیم میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہر ٹیچر اپنے فرض کو ایمانداری سے پورا کرے، ورنہ انجام سنگین ہوگا‘‘۔
رانا سکندر حیات کی یہ خوبی ہے کہ ہر لمحہ متحرک اور تعلیمی مسائل کو حل کرنے میں کوشاں رہتے ہیں۔ پیپر مارکنگ کے معاملے میں وہ بہت حساس ہیں۔ گزشتہ سال مارچ میں انہوں نے پیپر مارکنگ میں اصلاحات لانے کے لیے مشینی مارکنگ کا ارادہ کیا تھا جو بوجوہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ میں نے سالِ رواں میں ہی 12 اپریل کو اپنے کالم کے ذریعے ان کی توجہ پیپرز ری چیکنگ کے فرسودہ اور ظالمانہ نظام کی طرف دلاتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ پرانے طریقہ کار کو تبدیل کر کے طلبہ کو ان کا جائز حق دینے کے اقدامات کیے جائیں۔ میں نے وہ کالم انہیں ارسال بھی کیا تھا۔ مجھے نہیں پتا انہوں نے وہ کالم پڑھا یا نہیں لیکن میرا مطالبہ بہرحال پورا ہو گیا ہے۔ وزیرِ تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات کے لیے دل سے دعائیں نکل رہی ہیں کہ انہوں نے ہر سال ظلم اور زیادتی کا شکار ہونے والے ہزاروں طلبہ کی داد رسی کی ہے۔
امتحانی عمل میں طلباء کا داخلہ وصول کرنے، سوالیہ پیپرز کی سیٹنگ، چھپوائی، رازداری، امتحانی مراکز کا قیام، امتحانی عملے کی ڈیوٹی، امتحانی عمل کی چیکنگ کے لیے موبائل ٹیموں کی تشکیل، پیپرز کی بنکوں میں ترسیل، امتحانی عمل، پیپرز کی بورڈز آفس میں بحفاظت واپسی، مارکنگ کے لیے پیپرز کی انٹر بورڈز ترسیل، بورڈز کی طرف سے پیپرز کی کلسٹر سنٹرز میں ترسیل، مارکنگ کے لیے عملہ کی تعیناتی، مارکنگ کا عمل مکمل کروانا، رزلٹ کی تیاری، نتائج کا اعلان اور رزلٹ کارڈز کی ترسیل سمیت تمام مراحل انتہائی ذمہ داری اور یکساں اہمیت کے حامل ہیں لیکن مارکنگ کا عمل اس لحاظ سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے کہ ممتحن حضرات ہمارے امتحانی سسٹم میں طلبہ کے مقدر کے مالک بنا دیے گئے ہیں۔
مجھے خود میٹرک کے پیپرز کی مارکنگ کا متعدد بار موقع مل چکا ہے۔ میں نے عملی مشاہدہ کیا ہے کہ مارکنگ سینٹر میں زیادہ سے زیادہ پیپرز مارک کرنے کے لیے ممتحن حضرات میں جنونی مقابلہ شروع ہوتا ہے۔ آج کل ایک پیپر کی مارکنگ کا معاوضہ 40روپے یا شاید اس سے بھی کچھ اوپر ملتا ہے۔ ممتحن حضرات کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ ایک دن میں بہت زیادہ پیپرز چیک کر لیے جائیں۔ اس لیے وہ جلدبازی میں بغیر جواب کو پڑھے ہی ایوریج نمبر سب کو دیتے جاتے ہیں۔ ان کی طرف سے زیادہ تر دس میں سے چھ یا سات نمبر دئیے جاتے ہیں۔ کسی نے زیادہ لکھا ہو تو آٹھ نمبر بھی اسے مل جاتے ہیں۔ اس عمل سے ذہین اور محنتی طلبہ کی حق تلفی ہوتی ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ مختصر جوابی سوالات کے دو، دو کی بجائے جلد بازی میں ایک ایک نمبر دے دیا جاتا ہے۔
اسسٹنٹ، ایس اوز اور ہیڈ ایگزامینرز بھی پیپرز کے اندر اور باہر سوالات کے نمبرز میچ کرنے اور میزان چیک کرنے کی بجائے محض ٹِک لگا کر دستخط کرتے جاتے ہیں۔ ہر ایک کو جلدی کی پڑی ہوتی ہے۔
میرے ایک دوست ایسے بھی تھے یار لوگوں نے ان کا نام تھریشر رکھا ہوا تھا۔ جس طرح تھریشر میں گندم کی فصل کی گانٹھ ڈال کر دوسری طرف سے چند لمحوں میں گندم نکال لی جاتی ہے یہی حال وہ جوابی کاپیوں کے بنڈل کے ساتھ کیا کرتے تھے۔ پورا بنڈل چند منٹ میں چیک کر لیا کرتے تھے۔ وہ مارکنگ کے دوران کسی سے مصافحہ تک نہیں کرتے تھے کہ جتنا وقت مصافحہ کرنی میں’’ ضائع‘‘ ہو گا اتنی دیر میں وہ ایک پیپر چیک کر لیں گے۔ ایسے بندے سے آپ انصاف کی کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟۔
طلبہ کے لیے مسئلہ یہ رہا ہے کہ ممتحن نے کسی سوال کے جو نمبر لگا دئیے وہ پتھر پر لکیر بن جاتے ہیں۔ اگر کسی طالب علم کو اپنے دئیے گئے کسی پیپر کی مارکنگ پر تحفظات ہوں تو وہ مقررہ فیس جمع کروا کر پیپر ری چیک کروا سکتا ہے۔ پیپر کی ری چیکنگ کے لیے طالب علم کو تعلیمی بورڈ کے آفس میں بلوا کر اسے جوابی کاپی دکھا کر تصدیق کی جاتی ہے کہ یہ اسی کا پیپر ہے۔ اس کے بعد طالب علم کے سامنے جوابی کاپی پر سوالات کے دئیے گئے نمبرز کی ری کائونٹنگ کی جاتی ہے۔ اگر اس میں کسی سوال کے نمبر مجموعی نمبروں میں شامل ہونے سے رہ گئے ہوں، کسی سوال کے نمبر نہ لگے ہوں یا ٹوٹل غلط کیا گیا ہو تو طالب علم کو اس کا فائدہ یا حق دے دیا جاتا ہے اور اس کے نمبر بڑھ جاتے ہیں۔
اگر طالب علم کی طرف سے کوئی سوال مکمل حل کیا گیا ہو مگر ممتحن نے اس سوال کے دس میں سے چار یا پانچ نمبر لگائے ہوں جبکہ وہ دس میں سے نو یا دس نمبروں کا حق دار تھا تو ایسی صورت میں طالب علم کو کوئی فائدہ نہیں دیا جاتا۔ ممتحن کے دئیے گئے نمبرز حتمی تصور کیے جاتے ہیں۔ طلبہ روتے رہ جاتے ہیں مگر انہیں ان کا جائز حق نہیں ملتا۔ آج کل مسابقت اور مقابلہ بازی کا دور ہے۔ میٹرک کے بعد کسی اچھے ادارے میں داخلے کے لیے ہائی میرٹ کے معیار پر پورا اترنا پڑتا ہے۔ ممتحن کی غفلت کی سزا بچے کو بھگتنا پڑتی ہے۔ کسی چارہ گر کے پاس اس کا علاج نہیں ہوتا۔ وزیرِ تعلیم پنجاب رانا سکندر حیات تعلیمی شعبے میں ایک ریفارمر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ انہوں نے ممتحن کی جانب سے ایوارڈ کیے گئے نمبرز کو پتھر کی لکیر کے درجے سے نجات دلوا کر طلبہ کو ان کا حق دلوانے کا عملی قدم اٹھایا ہے۔ طالب علم کو اس کے حق سے محروم کرنے والے ممتحن کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے کا فیصلہ بھی بالکل درست ہے ۔ چند روپے کے لالچ میں کسی طالب علم کے پورے تعلیمی کیریئر اور مستقبل کو دائو پر لگانے والا کسی رعایت کا مستحق نہیں ہو سکتا۔
ویل ڈن رانا سکندر حیات!
دیگر صوبوں اور وفاق میں بھی اس اصلاح کی سخت ضرورت ہے۔ ممتحن حضرات سے بھی گزارش ہے کہ براہِ کرم اپنی ذمہ داری پوری کیجئے۔ بچوں کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ ان کے مستقبل کا خیال کیجئے۔

جواب دیں

Back to top button