Column

استادِ محترم کو میرا سلام کہنا

استادِ محترم کو میرا سلام کہنا
تحریر : رفیع صحرائی
دنیا کے بیشتر ممالک میں 5اکتوبر کو یومِ اساتذہ مناجا جاتا ہے۔ استاد معمارِ قوم اور رہبرِ انسانیت ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد اس عظیم پیشے سے وابستہ افراد کو خراج تحسین پیش کرنا ہے جس نسلِ نوع کی کردار سازی، ذہن سازی اور معاشرتی ترقی میں ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ استاد محض ایک مضمون پڑھانے والا فرد نہیں بلکہ ایک ایزی روشنی ہے جو ذہنوں کو منور کرتی ہے، دلوں کو گرماتی اور انسانوں کو انسانیت سکھاتی ہے۔
کسی بھی طالب علم کی زندگی میں استاد کا ایک اہم مقام ہوتا ہے۔ جہاں ماں باپ بچوں کی جسمانی نشوونما میں حصہ لیتے ہیں وہیں استاد ان کی ذہنی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔
یونیسکو نے 1994ء میں 5اکتوبر کو ’’ ورلڈ ٹیچر ڈے‘‘ منانے کا آغاز کیا تھا، تب سے یہ دن عالمی یومِ اساتذہ کے طور پر دنیا کے اکثر ممالک میں منایا جا رہا ہے۔ سیمینارز اور تقریبات کے ذریعے دنیا بھر میں اساتذہ کو سلامِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے، ان کی اہمیت و افادیت اور ہر سطح پر ان کے کردار کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں مشرف دَور میں میڈیا نے ٹیچر ڈے کے ایشو کو ہائی لائٹ کیا اور اساتذہ کو درپیش مشکلات و مسائل بالخصوص مناسب رہائش، ٹرانسپورٹیشن، پروفیشنل ڈویلپمنٹ اور ماڈرن ٹیچنگ ٹیکنیکس کے متعلق آگاہی جیسے اہم معاملات ڈسکس ہوئے تو 5اکتوبر کو ’’ سلام ٹیچر ڈے‘‘ کے عنوان سے یہ دن منایا جانے لگا۔
بلاشبہ ’’ سلام ٹیچر ڈے‘‘ منانا معاشرہ کی تعمیر و ترقی کے لیے استاد کی خدمات کا اعتراف ہے کیونکہ استاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ استاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہر و محبت اور دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ استاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گمراہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔
اسلام نے دنیا کو علم کی روشنی عطا کی، استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے۔
نبیِ کریمؐ نے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا’’ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے‘‘۔ ( ابنِ ماجہ: 229)
اسلام نے معلم کو روحانی والد قرار دے کر ایک قابلِ قدر ہستی اور محترم و معظم شخصیت کی حیثیت عطا کی ہے۔ معلم کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس عالمِ رنگ و بُو میں معلمِ اوّل خود ربِ کائنات ہیں، چنانچہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: ’’ اور آدم کو اللّٰہ کریم نے سب چیزوں کے اسما ء کا علم عطا کیا‘‘۔ ( البقرہ:31)
قرآن کریم میں تقریباً ہر نبیٌ کے لیے ’’ و یعلمہ الکتاب و الحکمتہ‘‘، کا جملہ استعمال کیا گیا ہے یعنی ’’ وہ نبیٌ اپنی قوم کو علم و حکمت سکھاتے ہیں‘‘۔
استاد کے بغیر کوئی بھی قوم گمراہی کا شکار ہو جاتی ہے، اسی لیے جو قبیلہ بھی اسلام قبول کرتا پیارے نبیؐ وہاں ایک استاد مقرر کر دیتے تھے کہ قوم اندھیرے سے روشنی کی طرف آ جائے۔
استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے۔ معلم کو اللّٰہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے۔
مخبرِ صادقؐ نے استاد کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ ’’ لوگوں کو بھلائی سکھانے والے پر اللّٰہ، اس کے فرشتے، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں‘‘۔ ( ترمذی: 2675)
اساتذہ کے لیے نبیِ کریمؐ نے دعا فرمائی کہ ’’ اللّٰہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی، اسے یاد رکھا اور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچایا‘‘۔ ( ابو دائود: 366)
نبیِ کریمؐ کے بعد خلفائے راشدین اور تابعین و تبع تابعین نے بھی استاد کی تعظیم و تکریم کی مثال قائم کی۔
خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ معلمین کو درس و تدریس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ انتظامی امور اور عہدوں پر فائز کرتے تھے۔ حضرت علی المرتضیٰؓ کا قول ہے کہ ’’ جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔ ( تعلیم المتعلم:21)
حضرت مغیرہ کہتے ہیں کہ ’’ ہم استاد سے اتنا ڈرتے اور اتنا ان کا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں‘‘۔ حضرت یحییٰ بن معین بہت بڑے محدث تھے، امام بخاریؒ ان کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’ محدثین کا وہ اتنا احترام کرتے تھے اتنا احترام کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا‘‘۔
امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ ’’ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا‘‘۔ ( تعلیم المتعلم: 22)
یہ ہماری بدبختی ہے کہ ہمارے معاشرے میں استاد کی عزت سے کسی کرپٹ اور رشوت خور سرکاری افسر، ٹیکس چور سرمایہ دار بدعنوان سیاستدان کا احترام زیادہ ہے۔ یہ آفاقی سچائی ہے کہ جس سماج نے استاد کی اہمیت کو جانا اور شعوری طور پر استاد کو اس کا حق دیا اس نے کامیابی کی منزلیں عبور کیں اور جس معاشرے نے استاد کی تحقیر و تذلیل کی ذلت اور رسوائی اس کا مقدر بن گئی۔
کتابوں کے ہوتے ہوئے بھی انہیں سمجھنے کے لیے ایک استاد کی رہنمائی کتنی ضروری ہے اس کے لیے یہ مثال کافی ہے۔ ایک طالبعلم نے اپنے استاد صاحب سے عرض کی ’’ استادِ محترم آپ کے پیریڈ میں ہم بات اچھی طرح سمجھ جاتے ہیں، آپ کی باتوں کا لطف بھی اٹھاتے ہیں اور اس لیے آپ کے پیریڈ کا انتظار بھی رہتا ہے۔ لیکن جب ہم کتاب پڑھتے ہیں تو ہمیں وہ لطف حاصل نہیں ہوتا جو آپ کے پیریڈ میں حاصل ہوتا ہے‘‘۔ استاد صاحب نے فرمایا’’ شہد کی مکھی شہد کیسے بناتی ہے؟‘‘۔ ایک طالب علم نے جواب دیا ’’ پھولوں کے رس سے‘‘۔ استاد صاحب نے پوچھا ’’ اگر تم پھولوں کو یونہی کھا لو تو ان کا ذائقہ کیسا ہو گا؟‘‘۔ طالب علم نے جواب دیا ’’ کڑوا ہوگا‘‘َ استاد صاحب نے فرمایا’’ اے میرے بیٹے درس و تدریس کا شعبہ بھی شہد کی مکھی کے کام کی طرح ہے۔ استاد شہد کی مکھی کی طرح لاکھوں پھولوں ( کتب، تجربات، مشاہدات) کا دورہ کرتا ہے اور پھر اپنے طلبہ کے سامنے ان پھولوں کے رس کا نچوڑ میٹھے شہد ( خلاصے) کی صورت میں لا کر رکھتا ہے‘‘۔
اللّٰہ تعالیٰ ہر اس شخص کی حفاظت فرمائے جو انبیائٌ کے اس کام سے تعلق رکھتا ہے۔
ہمارے ہر استاد اور استانی کے لیے سلامتی ہو۔
ایک استاد کو 40منٹ کے لیکچر کے لیے ادا کی گئی تنخواہ، اوپر کی کہانی کے بارے میں بہت کچھ کہتی ہے۔ استاد کے ایک ایک جملے کے پیچھے اس کی کئی سالوں کی محنت ہوتی ہے۔
معاشرہ یہ سمجھتا ہے کہ استاد نے تو بولنا ہی ہے۔ بس اتنا ہی ملنا چاہیے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آج دنیا میں جتنے لوگ باوقار عہدوں پر فائز ہیں، ان میں سے اکثر کسی نہ کسی استادکی وجہ سے اس مقام تک پہنچے ہیں۔
اگر آپ بھی استاد کی تنخواہ کو مفت سمجھتے ہیں تو ایک وقت میں 40منٹ کا موثر اور بامعنی لیکچر دیں۔ آپ کو فوری طور پر احساس ہو جائے گا کہ آپ کتنے قابل ہیں!
اگر کسی قوم کو عروج دینا ہو تو سب سے پہلے اس کے نظامِ تعلیم اور اساتذہ کے معیارِ زندگی کو بہتر کرنا ضروری ہے۔ استاد ہی وہ قوت ہے جو سیاستدان، سائنسدان، ڈاکٹر، انجنیئر اور دیگر ماہرین پیدا کرتا ہے۔ ایک بااخلاق، تعلیم یافتہ اور باہنر قوم کی پشت پر استاد ہی کھڑا ہوتا ہے۔ یومِ اساتذہ محض ایک دن نہیں بلکہ استاد کے کردار اور خدمات کو تسلیم کرنے کا دن ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف 5اکتوبر کے دن استاد کو عزت دیں، بلکہ پورا سال اس کی رہنمائی کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔
حکومت کو بھی چاہیے کہ اساتذہ کو بہتر سہولیات، تربیت کے بہتر مواقع اور عزت دے تاکہ وہ دل جمعی سے اپنے مقدس فریضے کو سر انجام دے سکیں۔
آخر میں تمام اساتذہ صاحبان کی نذر
اے دوستو ملیں تو بس اک پیام کہنا
استادِ محترم کو میرا سلام کہنا
کتنی محبتوں سے پہلا سبق پڑھایا
میں کچھ نہ جانتا تھا سب کچھ مجھے سکھایا
ان پڑھ تھا اور جاہل، قابل مجھے بنایا
دنیائے علم و دانش کا راستا دکھایا
مجھ کو دلایا کتنا اچھا مقام کہنا
استادِ محترم کو میرا سلام کہنا
رفیع صحرائی

جواب دیں

Back to top button