پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا لائبریرین شپ کے فروغ میں کردار ( حصہ ششم)

پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کا لائبریرین شپ کے فروغ میں کردار ( حصہ ششم)
تحریر: شیر افضل ملک
لائبریرین شپ، جو کبھی محض ایک تکنیکی خدمت تصور کی جاتی تھی، آج ایک مکمل، منظم اور باوقار پیشے کے طور پر تسلیم کی جا چکی ہے۔ اس ارتقائی سفر میں اگر کسی عنصر نے فیصلہ کن کردار ادا کیا ہے تو وہ پیشہ ورانہ انجمنیں ہیں، جنہوں نے لائبریری تحریک کی بنیاد رکھی، اسے منظم کیا اور فکری و عملی جدوجہد کے ذریعے اسے بامِ عروج تک پہنچایا۔ پاکستان میں لائبریری تحریک، کتب خانوں کے قیام و استحکام، اور لائبریری پروفیشن کے فروغ میں پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن (PLA)کا کردار تاریخ میں سنہری الفاظ سے رقم ہونے کے لائق ہے۔1957ء میں اپنے قیام کے بعد سے یہ قومی تنظیم نہ صرف ملک بھر کے کتب خانوں کی نمائندہ قوت بنی، بلکہ ایک ایسی فکری تحریک کی صورت میں ابھری، جس کی گونج نہ صرف ایوانِ اقتدار تک پہنچی بلکہ اس کی تجاویز کو تعلیمی پالیسیوں، منصوبہ بندیوں، اور علمی ترقیات میں اہمیت دی گئی۔ ایسوسی ایشن نے جس شعور، اخلاص، اور تنقیدی فہم سے لائبریری سائنس، تعلیم و تربیت، پیشہ ورانہ بہبود، اور ادارہ جاتی بہتری کے لیے کام کیا، وہ قابلِ تقلید مثال ہے۔
نمایاں خدمات اور تاریخی اقدامات، پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کی پیشہ ورانہ جدوجہد کے چند نمایاں اور تاریخ ساز اقدامات درج ذیل ہیں:
1958ء میں منعقدہ اولین قومی کانفرنس، جس کی صدارت صدرِ مملکت جنرل اسکندر مرزا نے کی، اس پیشے کے لیے سنگِ میل ثابت ہوئی۔ اس سے لائبریرینز کو قومی سطح پر اعتماد اور شناخت حاصل ہوئی۔ایسوسی ایشن کی قائم کردہ نیشنل کمیٹی برائے کیٹلاگنگ پرنسپلز کے مرتب کردہ اصول 1961ء کی بین الاقوامی کیٹلاگنگ کانفرنس میں منظور کیے گئے، جو ایک بین الاقوامی اعتراف ہے۔ قومی سطح پر سیمینار، کانفرنسیں، ورکشاپس، توسیعی لیکچرز اور لائبریری ویک کے انعقاد سے لائبریری شعور پروان چڑھا اور عوامی سطح پر کتب خانوں کے قیام کی راہ ہموار ہوئی۔1949ء میں ڈائریکٹریٹ آف لائبریریز کا قیام؛ جس نے مرکزی سطح پر لائبریری ترقیات کو مربوط کیا1961ء میں کاپی رائٹ کمیٹی کی تشکیل اور 1962ء میں کاپی رائٹ ایکٹ کا نفاذ لائبریری حقوق کے تحفظ کی جانب ایک بنیادی پیش رفت تھی۔ قومی کتابیات کی اشاعت اور National Bibliographic Unitکا قیام علمی ورثے کی دستاویز بندی میں سنگِ بنیاد ثابت ہوا۔ پنجاب، سرحد ( خیبر پختونخوا)، اور اسلام آباد میں ڈائریکٹریٹ آف پبلک لائبریریز کا قیام۔ پاکستان نیشنل لائبریری کا اسلام آباد میں قیام، جو عالمی معیار کی قومی معلوماتی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے۔ملک کی مختلف جامعات میں لائبریری و انفارمیشن سائنس کے شعبہ جات کا قیام، جو ایسوسی ایشن کی کوششوں کا عملی ثبوت ہے۔
1981ء میں لائبریری ایڈوائزری کمیٹی اور 1982ئ میں ٹیکنیکل ورکنگ گروپ کا قیام۔
وزارت تعلیم کے تحت قومی نصاب کمیٹی کی تشکیل اور لائبریری سائنس کے انٹرمیڈیٹ و بی اے سطح کے نصاب کی تیاری۔
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کے تحت Standing Committee for Librariansکا قیام۔
ملک میں لائبریری قانون کے نفاذ کی بھرپور عملی جدوجہد، جو آج بھی پیشے کے تحفظ کی بنیادی شرط ہے۔ لائبریری معیارات اور قومی کیٹلاگنگ کوڈ کی تشکیل جن سے ادارہ جاتی ہم آہنگی ممکن ہوئی۔
لائبریرینز کے لیے اساتذہ کے مساوی گریڈز اور تنخواہوں کے اسکیل کا حصول، جو معاشی استحکام کی جانب اہم قدم تھا۔قومی لائبریری ہفتہ(Library Week) کی روایت، جس نے عوامی سطح پر لائبریری کلچر کو فروغ دیا۔ کراچی سٹی لائبریری کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، جو شہری سطح پر لائبریری خدمات کی علامت ہے۔ کالجز میں لائبریری سائنس کو بطور اختیاری مضمون متعارف کروانے کی مہم۔ ملک میں لائبریری آٹومیشن کی عملی کوشش، جس نے جدیدیت کی راہ ہموار کی۔
مندرجہ بالا خدمات اس حقیقت کی مظہر ہیں کہ پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن نے محض ایک نمائندہ تنظیم کا کردار ادا نہیں کیا بلکہ یہ ایک فکری تحریک، علمی رہنما، اور پیشہ ورانہ قوت کی علامت رہی ہے۔ اس کی کاوشوں نے لائبریرین شپ کو وہ مقام عطا کیا جہاں اسے نہ صرف قومی سطح پر تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ عالمی حلقوں میں بھی پاکستان کی لائبریری تحریک کو ایک فعال تحریک کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ تاہم، اس سب کے باوجود یہ امر ناگزیر ہے کہ ایسوسی ایشن کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے، اس کی تنظیمی ساخت، فکری رہنمائی، اور عملی اقدامات کو مزید موثر، پائیدار، اور مربوط بنایا جائے۔ صرف ماضی کی کامیابیاں کافی نہیں، بلکہ مستقبل کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک فعال، متحرک اور ادارہ جاتی بنیادوں پر قائم تنظیم کی ضرورت ہمیشہ برقرار رہے گی۔





