Column

عافیہ کی اندھیری رات کب ختم ہوگی

عافیہ کی اندھیری رات کب ختم ہوگی
تحریر : ڈاکٹر فوزیہ صدیقی

اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ بیٹیاں قوم کی عزت ہوتی ہیں، اسی طرح پاکستانی قوم کی بھی ایک بیٹی مسلسل 23برس سے مظالم کا سامنا کر رہی ہے، قوم کی اس بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی جدائی پوری صدیقی فیملی کے لئے ایک بہت بڑی آزمائش ہے، جس وقت عافیہ کی گمشدگی کی اطلاع ملی، یہ کسی دھماکے سے کم نہیں تھی، طویل عرصے بعد اس کی افغانستان میں موجودگی اور پھر اسے جھوٹے مقدمے میں سزا سنائے جانے کے پے درپے صدموں نے بلا شبہ پورے خاندان کو ہلا کر رکھ دیا ، لیکن آنے والے دنوں میں پاکستانی قوم نے یہ ثابت کیا کہ ہمارا غم ان کا غم ہے، ہمیں معاشرے کے ہر طبقے سے بھرپور ڈھارس ملی اور ایک خوفزدہ مایوس خاندان اس قابل ہوا کہ اپنی بیٹی کی رہائی کے لئے جدوجہد کر سکے، عافیہ نہ سیاستدان تھی نہ سیلبرٹی لیکن اس کی رہائی کی جدوجہد میں صحافیوں، سیاسی رہنماؤں، وکلا ، طلبہ، عدلیہ ہر جانب سے تعاون ملا ، اور صرف اس لئے ملا کہ بیٹیاں قوم کی عزت ہوتی ہیں، اور اس جدوجہد سے عافیہ کے دو بچے مل گئے، جدوجہد مزید آگے بڑھی لیکن اس جدوجہد میں ہمارے بائیس برس گزر گئے، عافیہ نے اب تک چوالیس عیدیں قید میں گزاریں، اس سارے معاملے کو ہم امریکی عدالتی نظام کی خرابی قرار دیتے ہیں، اس اعتبار سے ’’ 23ستمبر ۔ امریکی عدالتی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ اس روز عافیہ کو جرم بے گناہی میں 8سال قید کی سزا سنا دی گئی‘‘ اور یہاں سے پاکستانی حکمرانوں اور عدالتی نظام کا امتحان شروع ہوا، اس امتحان میں حکمران، عدلیہ اور ہمارے طاقتور طبقات کس حد تک کامیاب ہوئے اور کتنے ناکام ہوئے، اس کا فیصلہ تاریخ کریگی، جو بے رحم ہوتی ہے۔
لیکن پھر بھی میں قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی رہائی اور وطن واپسی کی جدوجہد میں ساتھ دینے والوں کے لئے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں اور ان کے اہلخانہ پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا رہے۔
213ستمبر، 2010ء امریکا ہی نہیں دنیا کی عدالتی تاریخ کا وہ بھیانک دن ہے جب انصاف کے تمام تقاضوں کو پامال کرتے ہوئے ایک امریکی متعصب جج رچرڈ برمن نے حکومت پاکستان کے مقرر کر دہ وکلاء کی سازش کے تحت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86برس کی سزا سنائی تھی۔ جج نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا کہ ڈاکٹر عافیہ جو کہ پاکستانی شہری ہے ،اس کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ عافیہ پر الزام لگایا کہ اس نے 6امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور بندوق اٹھائی، ان پر گولیاں چلائی۔ جو الزام لگایا گیا تھا اس کے نتیجے میں کسی امریکی فوجی کو نقصان نہیں پہنچا تھا جبکہ ڈاکٹر عافیہ ان فوجیوں کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہو گئی تھیں۔ جج نے اپنے فیصلے میں یہ بات لکھی کہ باوجود اس کے کہ عافیہ کے خلاف کسی قسم کے ثبوت موجود نہیں ہیں لیکن پاکستانی حکومت کے وکلاء نے جو دلائل دئیے ہیں اس کی روشنی میں عافیہ کو 86برس کی سزا دی جا رہی ہے۔وہ کیا دلائل تھے یہ الگ کہانی ہے ، لیکن ابھی تو عافیہ کی رہائی اولین مسئلہ ہے۔ سزا کے بعد عافیہ نے عدالت میں کہا تھا کہ میں نے اپنا فیصلہ اللہ کی عدالت پر چھوڑ دیا ہے، میں سب کو معاف کرتی ہوں۔
عافیہ تو معاف کرکے اللہ کی عدالت میں مقدمہ درج کروا کر بہترین پوزیشن میں ہے، جوابدہی تو ہمیں کرنی ہے جو باہر ہیں اور بظاہر آزاد ہیں ۔ عدالتی فیصلے کے بعد امریکی سول سوسائٹی نے بھی کہا کہ آج امریکی عدالت میں امریکی انصاف کا قتل ہو گیا ہے۔ ادھر پاکستان میں بھی کچھ عناصر ڈاکٹر عافیہ کی واپسی سے خوف زدہ ہیں، جبکہ ڈاکٹر عافیہ کی فیملی ایک دو نہیں کئی مرتبہ یہ بات کہہ چکی ہے کہ ہم کسی سے انتقام نہیں لیں گے، عافیہ کو باعزت طریقے سے وطن واپس لے آئو تاکہ مسلمانوں کی تاریخ پر ’’ بیٹی فروشی‘‘ کا لگنے والے شرمناک دھبہ مٹایا جا سکے ۔ مشہور امریکی ریسرچ اسکالر اسٹیفن لینڈ مین نے عافیہ کی سزا پر یہ بیان دیا تھا کہ ’’ عافیہ کو صرف مسلمان ہونے کی سزا دی گئی ہے‘‘۔ متعصب امریکی وکیل و تجزیہ نگار اسٹیون ڈائونز جس نے ہمیشہ عافیہ کی مخالفت میں تحریریں لکھی تھیں امریکی عدالت کی نا انصافی اور عافیہ کی جرم بے گناہی کی سزا دیکھ کر چیخ اٹھا تھا۔ "I went to witness the sentencing of a Daughter of a dead nation but i came out paying my highest tribute to mother of humanity-DR.AAFIA SIDDIQIUI” ( میں ایک مردہ قوم کی ایک بیٹی کی سزا کا مشاہدہ کرنے ( امریکی عدالت) چلا گیا تھا، لیکن میں انسانیت کی ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو اپنا سب سے زیادہ خراج تحسین پیش کرکے باہر آیا ہوں)۔
لیکن تازہ صورتحال یہ ہے کہ عافیہ کی صحت انتہائی خراب ہے۔ عافیہ کے ساتھ ایف ایم سی کارسویل جیل میں مسلسل بدسلوکی جس میں ذہنی و جسمانی تشدد اور جنسی ہراسگی شامل ہے، جس کی تمام تفصیل پاکستانی حکام ، اور عدالتوں کے علم میں ہے۔
حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے احکامات کی بدولت کچھ برف پگھلی تھی۔ 2دہائی کے بعد میری اپنی بہن سے جیل میں ملاقات عدالتی احکامات ہی کا نتیجہ تھی۔ مگر پھر اچانک وزارت خارجہ کی طرف سے اپنے سابقہ موقف سے انحراف کرتے ہوئے غیر حقیقت پسندانہ موقف اپنایا گیا کہ حکومت نے عافیہ کے لیے سب کچھ کر دیا ہے اس لیے کیس کو خارج کیا جائے۔ اس حکومتی موقف پر دنیا حیران ہے، عدالتی احکامات کی بار بار عدم تعمیل پر جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے حکومت اور وفاقی کابینہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیا۔ جس کے بعد روایتی محکمہ جاتی طریقہ اپناتے ہوئے عافیہ کا کیس جسٹس سردار اعجاز اسحاق کی عدالت سے جسٹس راجا انعام امین منہاس کی عدالت میں منتقل کر دیا گیا۔ پہلی سماعت پر محترم جج صاحب نے عافیہ کا کیس چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس سردار محمد سرفراز ڈوگر کو واپس بھیج کر لارجر بینچ بنانے کی استدعا کردی۔
جس پر جسٹس ارباب محمد طاہر کی سربراہی میں جسٹس خادم حسین سومرو، جسٹس محمد اعظم خان اور جسٹس راجا انعام امین منہاس پر مشتمل چار رکنی بینچ تشکیل دے کر 10ستمبر کو سماعت مقرر کی گئی مگر ایک محترم جج صاحب کی غیر حاضری کے باعث سماعت بغیر کسی کارروائی کے ملتوی ہو گئی۔ یہ کارروائی تو ملتوی ہوگئی۔
میں یہاں یہ تو نہیں کہوں گی کہ
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
پھر بھی عدلیہ سے امید ہے کہ انصاف کرکے اپنا وقار بلند کریگی، ورنہ لگتا تو یہی ہے کہ شاید کچھ مزید تاریخیں پڑ جائیں کچھ اور حیلے ہوجائیں لیکن اللہ کی جس عدالت میں عافیہ نے مقدمہ دائر کر دیا ہے، وہاں کوئی بنچ نہیں بدل سکے گا کوئی دبائو کام نہیں آئے گا اور فیصلہ بھی مبنی بر انصاف ہوگا، اب ہم سب اپنی اپنی جگہ اپنے جواب کی تیاری کر لیں کہ ہم نے ایک مظلوم کی رہائی کے لئیے کیا حصہ ڈالا۔ اور رکاوٹ ڈالنے والے اپنا جواب تلاش کر لیں۔ ہم، عافیہ موومنٹ اور پاکستانی عوام تو اپنی عزت کی بحالی کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ یہ جدوجہد
اب برطانیہ، ملائیشیا اور دیگر ممالک تک پھیل گئی ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی

جواب دیں

Back to top button