قطر کی ثالثی: آخری امید کا گرتا ہوا آفتاب

قطر کی ثالثی: آخری امید کا گرتا ہوا آفتاب
تحریر : قادرخان یوسف زئی
خلیج فارس کی چھوٹی سی ریاست قطر، جو کبھی موتیوں کی تجارت کے لیے جانی جاتی تھی، آج قدرتی گیس کے وسیع ذخائر اور اپنی غیر معمولی سفارتی صلاحیتوں کی بدولت عالمی سیاست میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ اس کی کہانی محض وسائل کی دولت یا جغرافیائی اہمیت کی نہیں، بلکہ ایک ایسی حکمت عملی کی ہے جس نے ایک محدود آبادی اور رقبے کے حامل ملک کو عالمی امن کے لیے ناگزیر بنا دیا۔ قطر کی ثالثی کی روایت، جو برسوں کی محنت، صبر، اور تدبر سے پروان چڑھی لیکن9 ستمبر2025 ء کو اسرائیلی فضائیہ کے دوحہ پر حملے نے اس روایت کو سبوتاژ کیا۔ یہ حملہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں تھا، بلکہ اس نے عالمی امن کے نظام کے ایک اہم ستون کو ہلا کر رکھ دیا۔ دوحہ کے آسمانوں میں بلند ہوتا دھواں صرف عمارتوں کی تباہی کا گواہ نہیں، بلکہ اس امید کی کمزوری کا بھی عکاس ہے جو قطر نے برسوں سے عالمی برادری کے لیے جگائی تھی۔
قطر کی ثالثی کی روایت کوئی اتفاقیہ نہیں، بلکہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ ہے جو 1990ء کی دہائی میں اس وقت کے امیر شیخ حمد بن خلیفہ آل ثانی نے وضع کی۔ جب انہوں نے1995ء میں اقتدار سنبھالا، تو انہیں ادراک تھا کہ ایک چھوٹی سی ریاست کی بقا فوجی طاقت کے بجائے سفارتی اثر و رسوخ میں مضمر ہے۔ قطر کی آبادی آج بھی صرف تیس لاکھ کے قریب ہے، جس میں سے محض تین لاکھ مقامی شہری ہیں۔ لیکن اس کی عالمی اہمیت اس کے جغرافیائی حجم سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اس کی وجہ قطر کا وہ عزم ہے جس نے اسے ایک غیر جانبدار ثالث کے طور پر پیش کیا۔ قطر نے صنعاء حکومت اور شمالی باغیوں کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کی۔ لبنان میں دوحہ معاہدہ نے ایک طویل سیاسی بحران کا خاتمہ کیا۔ دارفور میں سوڈانی حکومت اور باغی گروپوں کے درمیان دوحہ معاہدے نے برسوں کی خونریزی کو روکا۔2009ء میں افغان طالبان کے ساتھ خفیہ رابطوں کا آغاز ایک انتہائی حساس عمل تھا۔ افغان طالبان کے نمائندوں نے واضح کیا کہ وہ کسی ایسے ملک میں دفتر نہیں کھولیں گے جو افغانستان میں فوجی طور پر ملوث ہو یا اس کا ہمسایہ ہو۔ قطر، جو نہ تو ہمسایہ تھا اور نہ ہی فوجی طور پر شامل، اس کے لیے ایک منطقی انتخاب بن گیا۔2013ء میں جب افغان طالبان کا سیاسی دفتر دوحہ میں کھلا، ایک نئے سفارتی عہد کا آغاز تھا۔ لیکن جب انہوں نے اپنے دفتر پر ’’ اسلامی امارت افغانستان‘‘ کا جھنڈا لگایا، تو کابل حکومت کی ناراضی کی باعث قطر نے فوری طور پر دفتر بند کر دیا۔ یہ فیصلہ اس امر کا عکاس تھا کہ قطر اپنی ثالثی میں غیر جانبداری اور تمام فریقین کی حساسیت کا احترام کرتا ہے۔
2018 ء میں جب امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کے طویل دور کے نتیجے میں29فروری2020ء کو دوحہ معاہدے نے امریکہ کی بیس سالہ جنگ کا خاتمہ کیا اس نے ثابت کیا کہ قطر ان گروپوں سے بات چیت کر سکتا ہے جن سے دوسرے ممالک کتراتے ہیں۔ اس عمل میں قطر کی غیر جانبداری، صبر، اور طویل المیعاد نقطہ نظر نے کلیدی کردار ادا کیا۔ قطر کی یہ صلاحیت اس کی منفرد جغرافیائی اور سیاسی پوزیشن سے جڑی ہے۔ ایک طرف یہ امریکہ کا قریبی اتحادی ہے، جہاں العدید ایئر بیس پر دس ہزار سے زائد امریکی فوجی تعینات ہیں۔ یہ بیس مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ دوسری طرف قطر ایران جیسے علاقائی طاقت کے ساتھ بھی تعلقات رکھتا ہے۔ اسی طرح اس نے حماس جیسے گروپوں کو سیاسی پناہ دی، لیکن یہ پناہ مغربی طاقتوں کی درخواست پر دی گئی تاکہ ضرورت پڑنے پر رابطہ ممکن ہو۔ یہ توازن قطر کی سفارتی کامیابی کا راز ہے۔
اکتوبر2023ء کے بعد جب اسرائیل حماس جنگ شروع ہوئی، تو قطر نے متعدد بار جنگ بندی کروائی۔ دسمبر2023ء میں سات روزہ جنگ بندی اور جنوری 2025ء میں ایک اور معاہدے نے درجنوں یرغمالیوں کی رہائی ممکن بنائی۔ یہ کامیابیاں قطر کی ثالثی کی عملی تاثیر کا ثبوت تھیں۔ لیکن اس کامیابی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑی۔ قطر کی ثالثی کو دو بڑے جھٹکوں کا سامنا کرنا پڑا۔ جون میں ایران کے العدید ایئر بیس پر میزائل حملوں نے قطر کی غیر جانبداری کو خطرے میں ڈالا۔ پھر 9ستمبر2025ء کو اسرائیل نے دوحہ کے کتارا علاقے میں حماس کے سینئر رہنمائوں پر حملہ کیا۔ پندرہ جنگی طیاروں نے دس بم گرائے، جس میں حماس کے چیف نگوسی ایٹر خلیل الحیا کے بیٹے سمیت چھ افراد کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ حملہ نہ صرف قطر کی خودمختاری کی خلاف ورزی تھا، بلکہ اس نے اس کی ثالثی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا۔ اسرائیل کا یہ اقدام اس لیے بھی غیر معمولی تھا کہ اس نے پہلی بار کسی خلیجی ملک میں براہ راست فوجی کارروائی کی۔ یہ ایک خطرناک مثال تھی، جس نے خلیج کی دیگر ریاستوں کو بھی پریشان کر دیا۔
قطر کی ثالثی کی کامیابی کی کئی وجوہ ہیں۔ سب سے پہلے، اس نے کبھی خود کو کسی ایک کیمپ تک محدود نہیں کیا۔ وہ امریکہ کا اتحادی ہے، لیکن ایران، حماس، اور طالبان سے بھی رابطے رکھتا ہے۔ دوسری وجہ اس کی مالی طاقت ہے، جو اسے مذاکرات کی میز پر ترقی اور تعمیر نو کے مواقع پیش کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ تیسری وجہ اس کا طویل المیعاد نقطہ نظر ہے، جو فوری نتائج کے بجائے پائیدار حل پر زور دیتا ہے۔ چوتھی وجہ اس کی اعلیٰ سطحی سیاسی شمولیت ہے، جہاں امیر اور وزیر اعظم خود عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔ لیکن اب یہ ساری خصوصیات خطرے میں ہیں۔ قطر کی ثالثی کا متبادل تلاش کرنا آسان نہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ایران خود تنازع کا حصہ ہے۔ مصر اپنے اندرونی مسائل میں الجھا ہوا ہے۔ ترکی ایک امکان ہو سکتا ہے، لیکن اس کی اپنی پالیسیاں اسے کئی گروپوں سے متصادم کرتی ہیں۔ ناروے اور سوئٹزرلینڈ جیسے روایتی ثالث ممالک مشرق وسطیٰ کے پیچیدہ مسائل میں قطر جتنا اثر نہیں رکھتے۔
قطر کی طاقت اس کی رسائی میں ہے، جو اس نے برسوں کی محنت سے بنائی۔ قطر کی ثالثی کا ایک اور اہم پہلو اس کی ’’ خاموش سفارت کاری‘‘ ہے۔ جب عوامی مذاکرات ناکام ہوتے ہیں، تو قطر خفیہ رابطوں کا ذریعہ بنتا ہے، جیسے سرد جنگ کے دوران سوئٹزر لینڈ نے کیا۔ لیکن اب جب قطر خود نشانے پر ہے، تو یہ کردار بھی خطرے میں ہے۔ 9ستمبر کے حملے کے بعد یورپی یونین، فرانس، برطانیہ اور امریکہ نے اس کی مذمت کی، لیکن مذمت کافی نہیں۔ اگر قطر کی ثالثی کو بچانا ہے، تو عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔







