Column

یوم آزادی کے موقع پر اپنی فکری لغزشوں کا اعتراف

یوم آزادی کے موقع پر اپنی فکری لغزشوں کا اعتراف
تحریر : عمران احمد سلفی

پاکستان کو قائم ہوئے 78سال ہو گئے ہیں۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی 14اگست نہایت اہتمام کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔ 14اگست اس بھولے بسر ے ماضی کو یاد کرنے کا بہانہ ہے جسے ہم فراموش کئے ہوئے ہیں۔
مسلمانان برصغیر کو تو بس ایک یہی خواب دکھایا گیا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد مملکت خداداد میں اسلام کا عالمگیر نظام حیات ہر طرف نا فذالعمل نظر آئے گا اور ہم مسلمان انگریز اور ہندوئوں کی غلامی سے آزاد ہوجائیں گے۔ لیکن آج78سال گزر جانے کے باوجود اب بھی پاکستانی قوم عملاً انگریز کی غلام ہے۔ اسلامیان برصغیر نے پاکستان بڑی جدوجہد اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا۔ اس جدوجہد میں نوجوانوں نے اپنی شہ رگوں کا گرم لہو پیش کیا، خمیدہ کمر بوڑھوں نے اپنے بڑھاپے کے سہاروں کو اسلام کی آن پر قربان کر دیا اور عفت مآب دختران اسلام کی عصمتوں پر ڈاکے ڈالے گئے۔
قربانیوں کی لا زوال داستانیں رقم کرنے کے بعد بالآ خر 14اگست 1947ء کو انگریزوں سے آزادی نصیب ہوئی اور پاکستان وجود میں آیا۔ لیکن بد قسمتی سے حکمراں طبقہ کی روایتی فکری لغزشوں اور نا اہلیوں نے آزادی کے اس دن کو پہلے سے زیادہ بد ترین غلامی کا نقطہ آغاز بنا دیا۔
پاکستان جس نظرئیے کی بنیاد پر معرض وجود میں آیا اسے بالکل فراموش کیا جا چکا ہے۔ آج پاکستان کے مسلمان ایسی نادیدہ غلامی میں جکڑے جا چکے ہیں جس کا انہیں احساس بھی نہیں ہوا۔ جس طرح کسی بدعت کے کرنے والے کو توبہ کی توفیق نہیں ہوتی چونکہ اسکے نزدیک یہ عمل گناہ نہیں بلکہ کار ثواب ہو تا ہے بعینہ اس طرح غیر محسوس انداز میں غلامی کرنے والوں میں اس لعنت سے نجات حاصل کرنے کی جدوجہد کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ انکے نزدیک ہم غلام نہیں بلکہ آزاد ہیں۔ بانیان پاکستان کی وفات کے بعد ملک کی باگ ڈور جن ہاتھوں میں آئی ان نا عاقبت اندیش اور کرپٹ قیادتوں نے پاکستان کے وسائل کو جی بھر کے لوٹنے کے ساتھ ساتھ نظریہ ء پاکستان کی بھی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔ اقتدار کی مسند پر براجمان ہونے والوں نے اگر کوئی کام کیا تو صرف ملک میں نفاذ اسلام کی راہ میں رکاوٹیں ہی کھڑی کیں۔ حالانکہ پاکستان دنیا کی واحد ریاست تھی جو خالصتاً ایک نظریہ یعنی اسلام کے نام پر قائم کی گئی تھی۔
اسلام سے انحراف کی سزا قیام پاکستان کے 24سال بعد ہی اس انداز میں ملی کہ ملک دو لخت ہو گیا اور ہمارا مشرقی بازو جارحیت کے ذریعے علیحدہ کر دیا اور وہ بنگلہ دیش بن گیا۔ سقوط ڈھاکہ کے باوجود نئی سازشیں شروع ہونے لگیں اور مشرقی پاکستان کو بھول جانے کو کہا گیا تاکہ ہم بدلہ لینے کی بجائے ہندوئوں کی غلامی کو قبول کر لیں۔ کشمیر کا مسئلہ جو قیام پاکستان سے چلا آرہا ہے۔ 78برس گزرنے کے باوجود اس کا کوئی حل نہ نکالا گیا بلکہ مختلف حکومتیں اس مسئلے کو اپنے اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کرتی رہیں۔ کسی نے بھی اسکے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں نہیں کیں۔ حکومتوں کی نا اہلی اور غیر مخلصانہ دلچسپی کی بناء پر یہ مسئلہ مزید سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔ غیر ملکی آقائوں کی خوشنودی حاصل کرنا ہی زیادہ بگاڑ کا سبب ہے۔ آج 78سال گزر جانے کے باوجود ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح محض اٹھائیس فیصد ہے۔ انگریز ملک چھوڑ گئے لیکن انکا تیار کردہ نظام جوں کا توں موجود ہے کوئی بھی شعبہ ہو معمولی ترامیم کے ساتھ محض چہرے بدل گئے ہیں۔ انگریز کے چھوڑے ہوئے نظام تعلیم میں تو اب تک بھی کوئی مثبت تبدیلی نہیں آئی بلکہ انگریز کے دور میں تعلیمی نظام کا ایک معیار تھا۔ اس وقت کا میٹرک پاس بھی آج کے بی اے، ایم اے کرنے والے سے زیادہ قابلیت رکھتا تھا لیکن موجودہ تعلیمی نظام دینی اعتبار سے بالکل خالی تو ہے ہی مگر عصری اعتبار سے بھی جو ہر قابل پیدا کرنے میں ناکام ہے۔
تقسیم برصغیر کے وقت پاکستان کے حصے میں جو علاقے آئے وہ صنعتی لحاظ سے بالکل پسماندہ تھے اکا د کا ملیں اور چھوٹے کارخانے تھے۔ زیادہ تر معیشت کا انحصار زراعت پر تھا۔ اگر ابتدا سے حکمران زیادہ توجہ ملکی استحکام کی طرف دیتے تو یقینی طور پر صنعتی ترقی کی راہ ہموار کر تے کیونکہ جدید دور میں کوئی بھی ملک محض زراعت کے بل پر معاشی خوشحالی نہیں خرید سکتا۔ انگریز کا چھوڑا ہوا سیاسی نظام بگڑی ہوئی شکل میں آج بھی رائج ہے۔ کوئی نہیں سوچتا کہ آخر اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک پر مغربی نظام کس طرح لاگو کیا جا سکتا ہے؟۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک پر وڈیروں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے آبائو اجداد ذاتی مفادات کے لیے انگریز کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہے اور اپنے آقائوں سے وفاداریوں کے عوض بڑی بڑی جاگیریں وصول کرتے رہے، اور اب تو ہمارے حکمران بیوروکریٹ بن چکے ہیں، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ غیر ملکی کہتے ہیں کہ پاکستان کی حکومت سیاستدان نہیں بلکہ بیوروکریسی چلاتی ہے۔ ریاست کے اہم ترین ستون بد کر دار اور کرپٹ ہو چکے ہیں۔ بیوروکریسی، سیاستدان، صحافت اور دیگر مقتدر طبقات ایک طرف کرپٹ تو دوسری طرف بالا دست قوتوں کے ہاتھوں کھلونا بن چکے ہیں۔ معاشرہ کے 75%فیصد طبقات مکمل طورپر انگریزوں کے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں اور غلامی میں ہیں۔ یہاں تک کہ رہنے سہنے کھانے پینے پہنے اوڑھنے لکھنے لکھانے غرض ہر کام میں مغربی طریقے استعمال کرنے پر فخر کیا جا تا ہے۔ احساس کمتری کا یہ عالم ہے کہ اسلامی طرز معاشرت کو فرسودہ قرار دیا جا تا ہے۔
ذرائع ابلاغ کے ذریعہ مغرب کی ذہنی غلامی کی سازش جو کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچ رہی ہے۔ وہ کسی ذی شعور کی نظر سے اوجھل نہیں ہے۔ ان ذرائع سے امت مسلمہ کے لیے مہلک نظریات کھلے عام فحاشی عریانی کے ذریعے پھیلائے جا رہے ہیں۔ باطل قوتیں ذرائع ابلاغ کے ذریعے ہمار ے نوجوانوں کے اذہان کو مسخ کر رہی ہیں۔ ان کی فکری تخلیقی صلاحیتیں چھینی جا رہی ہیں۔ انہیں بے مقصد زندگی کا دلدادہ بنایا جا رہا ہے۔
فکری نظریاتی اخلاقی بگاڑ پورے معاشرے میں رگ و پے کی طرح سرایت کر چکا ہے۔ نئی نسل میں دین سے بیزاری بھی رہنی غلامی کا مظہر ہے۔ اس وقت بدعنوانیاں، رشوت، سفارش، جھوٹ، بددیانتی، دھوکے بازی معمولی باتیں ہیں۔ آخر ہمارا ملک کس طرح اب تک قائم ہے چونکہ قوموں کے زندہ رہنے والے اوصاف ہمارے اندر مفقود ہو چکے ہیں یہ تو صرف اللہ تعالیٰ کا کرم ہے اور نہ ہماری حالت تو ایسی ہے۔
یہ نصف صدی سے زیادہ کا قصہ ہے دو چار برس کی بات نہیں، اس کے باوجود ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان ہیں۔ ہم نے کرپشن میں عالمی ریکارڈ قائم کر دئیے ہیں اس کے باوجود ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں۔ ہم نے لسانی نسلی اور علاقائی بنیادوں پر جماعتیں قائم کیں اور نفرتوں کے بیج بوئے ہم اسلامی اخوت کے دعویدار اپنے بھائیوں کو مارتے رہے ہیں۔ اسلام کے نام پر حاصل کردہ ملک میں ہم 78برس سے اسلامی احکامات کا مذاق اڑا رہے ہیں۔ اللہ کے قوانین کی بجائے انگریزی قوانین نافذ ہیں۔ اسلامی نظام معیشت کی بجائے ہم سودی استحصالی نظام کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ حکمران عوام کی خدمت کے بجائے عوام کو لوٹنے میں ایک دوسرے سے آگے جانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہر شعبہ ء حیات میں قرآنی احکامات کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج ہم ایک بھکاری قوم بن کر رہ گئے ہیں، ہمارا اپنا کوئی نظام ہی نہیں ہے، ہر معاملہ میں دوسروں کی نقالی کر ے ہیں۔
خود سوچیں ان حالات میں ہمارا آزادی کا دعویٰ کہاں تک سچا ہے۔ فکری نظریاتی سیاسی معاشی ثقافتی غلامی کی نادیدہ موٹی موٹی زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم کیونکر جشن آزاد ی منائے؟، ہم ہر سال سیلاب سے دوچار ہوتے ہیں۔ ہزاروں لوگ بے گھر ہوجاتے ہیں، بے پناہ جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے۔
اگر ایک کامیاب مسلمان قوم بننا ہے تو ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹنا ہوگا۔ حکمرانوں، جرنیلوں، ججوں، سیاستدانوں، تمام اداروں سمیت پوری قوم کو اپنے جرائم کا اعتراف کرنا ہوگا۔ اللہ سے سچا عہد کرنا ہوگا، توبہ کرنی ہوگی اور اللہ اس کے رسولؐ کے حکم کے مطابق اپنی زندگی گزارنی ہوگی، جس میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہر صورت میں ہے، ان شاء اللہ۔

عمران احمد سلفی

جواب دیں

Back to top button