مشینوں نے انسان سے محبت چھین لی!

عابد ہاشمی
ہمارا معاشرہ اضطراب کا شکار ہے۔ ہر طرف نفرتوں کے ڈیرے ہیں۔ ہمارے ملک اور معاشرہ کو اس وقت محبت، احترام اور انسانیت کی ضرورت ہے۔ محبت کیا ہے؟ واصف علی واصف نے محبت کی کیا خوب وضاحت کی ہے۔ آج کا انسان محبت سے دور ہوتا جارہا ہے۔ آج کا انسان ہر قدم پر ایک دوراہے سے دوچار ہے۔ آج کے انسان کے پاس وقت نہیں کہ وہ نکلنے اور ڈوبنے والے سورج کا منظر دیکھ سکے۔ وہ چاندنی راتوں کے حسن سے ناآشنا ہوکر رہ گیا ہے۔ آج کا انسان دُور کے سیٹلائٹ سے پیغام وصول کرنے میں مصروف ہے۔ وہ قریب سے گزرنے والے چہرے کے پیغام کو وصول نہیں کر سکتا۔ انسان محبت کی سائنس سمجھنا چاہتا ہے اور یہ ممکن نہیں۔ زندگی صرف نیوٹن ہی نہیں، زندگی ملٹن بھی ہے۔
جو ذات شکم مادر میں بچے کی صورت گری کرتی ہے وہی ذات خیال اور احساس کی صورت گر بھی ہے۔ پیدا فرمانے والے نے چہروں کو تاثر دینے والا بنایا اور قلوب کو تاثیر قبول کرنے والا۔ ہر چہرہ ایک رینج (RANG)میں تاثر رکھتا ہے اور اس کے باہر وہ تاثیر نہیں ہوتی۔ دائرہ تاثیر صدیوں اور زمانوں پر بھی محیط ہوسکتا ہے۔ یہ خالق کے اپنے کام ہیں۔ آنکھوں کو بینائی عطا فرمانے والا ہی نظاروں کو رعنائی عطا فرماتا ہے۔ وہ خود ہی دل پیدا فرماتا ہے، خود ہی دلبر پیدا فرماتا ہے اور خود ہی دلبر ی کا خالق ہے، بلکہ خود ہی سر دلبراں ہے۔
محبت کوشش یا محنت سے حاصل نہیں ہوتی، یہ عطا ہے، یہ نصیب ہے بلکہ یہ بڑے ہی نصیب کی بات ہے۔ زمین کے سفر میں اگر کوئی چیز آسمانی ہے تو وہ محبت ہی ہے۔ محبت کی تعریف مشکل ہے۔ اس پر کتابیں لکھی گئیں، افسانے رقم ہوئے، شعراء نے محبت کے قصیدے لکھے، مرثیے لکھے، محبت کی کیفیات کا ذکر ہوا، وضاحتیں ہوئیں لیکن محبت کی جامع تعریف نہ ہوسکی۔ واقعہ کچھ اور ہے، روایت کچھ اور ہے۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ایک چہرہ جب انسان کی نظر میں آتا ہے تو اس کا انداز بدل جاتا ہے۔ کائنات بدلی بدلی سی لگتی ہے، بلکہ ظاہر و باطن کا جہان بدل جاتا ہے۔ محبت سے آشنا ہونے والا انسان ہر طرف حُسن ہی حُسن دیکھتا ہے۔ اس کی زندگی نثر سے نکل کر شعر میں داخل ہو جاتی ہے۔ اندیشہ ہائے سُود و زیاں سے نکل کر انسان جلوہ جاناں میں گم ہو جاتا ہے۔ اس کی تنہائی میلہ ہوتی ہے۔ وہ ہنستا ہے بے سبب، روتا ہے بے جواز۔ محبت کی کائنات جلوہ محبوب کے سوا کچھ اور نہیں۔ محبت کرنے والے کس مٹی سے بنے ہوتے ہیں۔ یہ خلوص کے پیکر دُنیا میں رہ کر بھی دُنیا سے الگ ہوتے ہیں۔ دراصل محبت زندگی اور کائنات کی انوکھی تشریح ہے۔ یہ قرآن فطرت کی الگ تفسیر ہے۔ محب اور محبوب کا تقرب موسموں کو خوشگوار بنا دیتا ہے۔ محبوب کی جدائی سے بہاریں رُوٹھ جاتی ہیں۔ محبوب کا فراق بینائی چھین لیتا ہے اور محبوب کی قمیض کی خوشبو سے بینائی لوٹ آتی ہے۔ یہ بڑا راز ہے۔ یہ انوکھا عمل ہے۔
اس زندگی میں ایک اور زندگی ہے۔ اسی کائنات میں ایک اور کائنات ہے۔ محبت ہوتو انسان کو اپنے وجود میں کائنات کی وسعتوں اور رنگینیوں سے آشنائی ہوتی ہے۔ اسے خوشبوئوں سے تعارف نصیب ہوتا ہے۔ اسے آہٹیں سنائی دیتی ہیں۔ وہ دھڑکنوں سے آشنا ہوتا ہے۔ اسے نالہ نیم شب کا مفہوم سمجھ آتا ہے۔ محبت کرنے والا اپنی ہستی کے نئے معنی تلاش کرتا ہے۔ وہ باطنی سفر پر گامزن ہوتا ہے۔ زندگی کے تپتے ہوئے ریگزار میں گویا محبت ایک نخلستان سے کم نہیں۔ محبت کے سامنے ناممکن و محال کچھ بھی نہیں۔ محبت پھیلے تو پوری کائنات، سمٹے تو ایک قطرہ خوں۔
درحقیقت محبت آرزوئے قرب حُسن کا نام ہے۔ ہم ہمہ وقت جس کے قریب رہنا چاہتے ہیں وہی محبوب ہے۔ محبوب ہر حال میں حسین ہوتا ہے کیونکہ حسن تو دیکھنے والے کا اپنا انداز نظر ہے۔ ہم جس ذات کی بقا کیلئے اپنی ذات کی فنا تک بھی گوارا کرتے ہیں وہی محبوب ہے۔ محب کو محبوب میں کجی یا خامی نظر نہیں آتی۔ اگر نظر آئے بھی تو محسوس نہیں ہوتی۔ محسوس ہو بھی تو ناگوار نہیں گزرتی۔ محبوب کی ہر ادا دلبری ہے، یہاں تک کہ اس کا ستم بھی کرم ہے۔ اس کی وفا بھی پُرلطف اور جفا بھی پُرکشش۔ محبوب کی جفا کسی محب کو ترکِ وفا پر مجبور نہیں کرتی۔ دراصل وفا ہوتی ہی بے وفا کیلئے ہے۔ محبوب کی راہ میں انسان معذوری و مجبوری کا اظہار نہیں کرتا۔ محبوب کی پسند و ناپسند محب کی پسند و ناپسند بن کے رہ جاتی ہے۔ محبت کرنے والے جدائی کے علاوہ کسی اور قیامت کے قائل نہیں ہوتے۔
محبت اشتہائے نفس اور تسکین وجود کا نام نہیں۔ اہل ہوس کی سائیکی PSYCHEاور ہے اور اہل ِ دِل کا انداز فکر اور۔ محبت دو روحوں کی نہ ختم ہونیوالی باہمی پرواز ہے۔ محبت کیلئے کوئی خاص عمر مقرر نہیں۔ محبت زندگی کے کسی دَور میں بھی ہوسکتی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایک انسان کو پوری زندگی میں بھی محبت سے آشنا ہونے کا موقع نہ ملے۔ سوز دل پروانہ کسی مگس کے نصیب میں نہیں ہوتا۔
عقیدوں اور نظریات سے محبت نہیں ہوسکتی۔ محبت انسان سے ہوتی ہے۔ اگر پیغمبرؐ سے محبت نہ ہو تو خدا سے محبت یا اسلام سے محبت نہیں ہوسکتی۔ یہاں یہ سوال ہے پیدا ہوتا ہے کہ مجاز کیا ہے اور حقیقت کیا ہے؟ دراصل مجاز بذات ِ خود ایک حقیقت ہے اور یہ حقیقت اس وقت تک مجاز کہلاتی ہے جب تک رقیب ناگوار ہو۔ جس محبت میں رقیب قریب اور ہم سفر ہو وہ عشق حقیقی ہے۔ اپنا عشق اپنا محبوب اپنے تک ہی محدود رکھا جائے تو مجاز اور اگر اپنی محبت میں کائنات کو شریک کرنے کی خواہش ہو تو حقیقت۔ رانجھے کا عشق مجاز ہوسکتا ہے لیکن وارث شاہ کا عشق حقیقت ہے۔ عشق حقیقی عشق ِ حقیقی ہے۔ عشق ِآل نبی عشق ِ حقیقی ہے۔ عشق ِ رومی عشقِ حقیقی ہی کہلائے گا۔ اگر قطرہ شبنم واصل ِقلزم ہو اور آنسو بھی سمندر سے واصل ہو تو شبنم اور آنسو کا عشق بھی عشق ِقلزم یا عشق ِ حقیقی کہلائے گا۔ پیر ِکامل کا عشق عشق ِ نبی ہی کہلائے گا۔ حضور اکرمؐ کو نور ِخدا کہا جاتا ہے اور ولی چونکہ مظہر ِ عشق نبی ہوتا ہے، اسے مظہر نبی یا مظہر نور خدا کہا جاسکتا ہے۔
ہر انسان کے ساتھ محبت الگ تاثیر رکھتی ہے۔ جس طرح ہر انسان کا چہرہ الگ، مزاج الگ، دِل الگ، پسند ناپسند الگ، قسمت نصیب الگ، اسی طرح ہر انسان کا محبت کا رویہ الگ۔ کہیں محبت کے دم سے تخت حاصل کئے جا رہے ہیں، کہیں تخت چھوڑے جارہے ہیں۔ کہیں دولت کمائی جارہی ہے، کہیں دولت لٹائی جارہی ہے۔ محبت کرنے والے کبھی شہروں میں ویرانے پیدا کرتے ہیں، کبھی ویرانوں میں شہر آباد کر جاتے ہیں۔ دو انسانوں کی محبت یکساں نہیں ہوسکتی۔ اس لئے محبت کا بیان مشکل ہے۔ دراصل محبت ہی وہ آئینہ ہے جس سے انسان اپنی اصلی شکل، باطنی شکل، حقیقی شکل دیکھتا ہے۔ محبت ہی قدرت کا سب سے بڑا کرشمہ ہے۔ جس تن لاگے سوتن جانے۔ محبت ہی کے ذریعے انسان پر زندگی کے معنی منکشف ہوتے ہیں۔ کائنات کا حسن اسی آئینے میں نظر آتا ہے۔ مشینوں نے انسان سے محبت چھین لی۔ ہماری تنزلی کی بڑی وجہ نفرت ہے۔ ہمیں احترام انسانیت، محبت کی طرف آنا ہوگا۔ اسی میں بقا ہے۔





