Column

جرات و بہادری، اصلاح و حریت کا استعارہ سلطان ٹیپو

تحریر امتیاز یٰسین
ہندوستان پر برطانوی تسلط کے خاتمہ، مذہب، ملت اور آزادی کی خاطر تا دمِ آخر سر بکف رہنے والے فتح علی ٹیپو سلطان جرات و بہادری، غیرت و حمیت، شجاعت وصلابت، حلیم و حیائ، محبت و شفقت اور رحم و کرم کے ایسے لازوال عہد کا نام ہے جسے تاریخ صرفِ نظر کر سکی نہ کھبی فراموش کر پائے گی۔1707ء میں اورنگ زیب کی وفات کے بعد ہندوستان پر مغلیہ خاندان اور فرمانرواؤں کی حکومتی گرفت کمزور ہونے لگی۔1744ء تا1764ء تک فرانسیسیوں سے انگریزوں کی کرناٹک کے میدان میں جاری محاذ آرائیوں میں کامیابیوں سے مشرقی ہندوستان میں انگریزوں کی طاقت بڑھنے لگی۔ ہندوستان میں مغلیہ اور اسلامی سلطنت کا سورج غروب ہونے کے بعد برطانوی سامراج اپنے مکمل اقتدار کے غلبہ اور حکومت کی راہ میں اگر کسی کو مزاحم سمجھتے تو وہ جنوبی ہندوستان میں تین قوتیں نظام، مرہٹے اور سلطان حیدر علی ( والد ٹیپو سلطان) تھے۔ حیدر علی جذبہ ایمانی اور جرات و فراست سے انگریزوں کی عملداری اور ریشہ دوانیاں ختم کرنا چاہتے تھے اس لئے برطانوی سامراج انہیں اپنا زبر دست حریف تصور کرتے تھے۔ عظیم سپہ سالار و جرنیل حیدر علی کو اپنے ہاں اولاد نرینہ کی کمی کا احساس انہیں ایک ولی کامل حضرت مستان ٹیپو کی درگاہ تک لے آیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فقیر کی دعا کو شرفَ قبولیت بخشتے ہوئے امتِ مسلمہ کی رہنمائی اور اسلام کی ترویج و اسلام کے لئے حیدر علی کے ہاں منگلور ( دہلی) کے مقا م پر20نومبر1750کو چاند سے بیٹے سے نوازا۔ جنہیں دنیا آج شیر میسور کے نام سے جانتی ہے۔ عظیم باپ نے بیٹے کی تعلیم و تربیت پر بھر پور توجہ دی اور انہی تربیت کا خاصہ تھا کہ سلطان عملی زندگی میں عالم با عمل، زیرک و دور اندیش، بہادر، سیاسی و عسکری قیادت کے طور پر سامنے آئے۔ آپ علم و ادب اور ثقافت کے دلدادہ تھے۔ آپ کی قابلیت و اہلیت جانچتے ہوئے حیدر علی نے آپ کو صرف سترہ سال کی عمر ہی میں ریاست کے سفارتی و فوجی امور کا اختیار سونپ دیا تھا۔ وہ ریاست کے اندرونی بدخواہوں ( نظام، مرہٹے) اور بیرونی مخالفوں انگریزوں کے مقابلے میں اپنے باپ کی دستِ راست سمجھے جاتے تھے، انہوں نے ریاست میسور کے ساتھ انگریزوں کی جنگ 1767ء تا1769ء کم عمری میں دفاعی و عسکری امور کی قیادت کی اور بہادری کے جوہر دکھاتے ہوئے کارہائے نمایاں سر انجام دئیے۔ جنگی میدان میں انگریزی افواج کو رگیدتے اور ناکوں چنے چبواتے ہوئے انہیں مدراس کے قلعہ تک پہنچا کر ذلت انگیز شکست سے دوچار کر دیا۔ انہوں نے عالمی طاقتوں میں ریاست میسور کو جنوبی بھارت کی ایک ناقابلِ تسخیر قوت اور خود کو طاقتور و کامیاب ریاست کے حکمران کے طور پر منوایا۔ سلطان ٹیپو اپنے باپ کی وفات کے بعد چوبیس دسمبر1782ء کو میسور کی حکمرانی پر مسند نشیں ہوئے۔ اقتدار سنبھالتے ہی انہوں نے بہت سی تعمیری، اصلاحی، معاشی، دفاعی اصلاحات کیںا ور معاملات درست کئے۔ انہوں نے اپنی سلطنت کو مملکتِ خدا داد کا نام دیا۔ انہوں نے مطلق العنان شخصی حکومت کی بجائے عوامی مشاورتی حکومت کا قیام عمل میں لایا۔ آپ نے سوچا کہ برِصغیر کے لوگوں کا پہلا مسئلہ ملک سے برطانوی اخراج ہے۔ اس لئے انہوں نے اسلحہ سازی، فوجی نظم و نسق اور دفاعی اصلاحات میں تاریخ ساز کام کیا۔ وہ مرد، مجاہد اور مردِ میداں تھا۔ فنوں سپہ گری کے ماہر، حسنِ وتدبر، وجاہت و رعب اور جنگی مہارت کے تذکرے آپ کے دشمن بھی کرتے۔ با ہمت و حوصلہ مند مسلمان تھے۔ آپ بھارت میں پہلے طغرق فوجی راکٹ سازی کے موجد مانے جاتے ہیں، سرنگا پٹم کی عظیم تاریخی مسجدِ اعلیٰ کی تعمیر کا سہرا آپ کے سر ہے۔ ان کی کامیاب اور سحر انگیز مہمات میں لوگوں کو معجزات کا گماں ہونے لگتا۔ شرعی عدالتوں کا قیام اور غیر اخلاقی و غیر شرعی، معیوب رسومات کا خاتمہ اور منشیات کو ممنوع قرار دیا۔ ٹیپو سلطان نے اپنے باپ کی طرح برِ صغیر کے عوام کو غیر ملکی تسلط سے نجات دلانے کے لئے سنجیدہ و عملی اقدامات کئے۔ انگریزی سامراج کو ٹف ٹائم دیا۔ اور مضبوط مزاحم برقرار رکھی۔ میسور کے آخری معرکے میں آپ کے جرنیلوں ننگِ وطن، ننگِ دیں میر جعفر، میر صادق کی غداری سے جب آپ کے قلعہ سرنگا پٹم کے دروازے کھول دئیے گئے اور اسلحہ بارود کو آگ لگا دی گئی ۔ اپنے ساتھیوں کی کمزور ہوتی مزاحمت دیکھی تو چشم، فلک نے دیکھا کہ ریاست کا حکمران خود تلوار لیکر اپنے وفادار ساتھیوں کے ساتھ جنگ کے کارزار میں مکار دشمن کے خلاف نبرد آزما ہے۔ شکست کے واضح آثار میں فرانسیسی افسر نے آپ کو جان بچا کر بھاگ جانے کا مشورہ دیا۔ مگر آپ کے خون میں یہ شامل تھا نہ غیرت کو گوارا۔ اس نے شکست تسلیم کر کے سرنڈر کرنے کی ہزیمت، بزدلی دکھانے او بزدلی کے داغ کی بجائے اخلاقی طور پر ایک فاتح کی حیثیت سے جان دینے کو ترجیح دی۔ اس موقع پر آپ نے شہرہ آفاق اور تاریخی جملہ کہا ’’ گیدڑ کی صد سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘۔ آپ انگریزی فوج کے خلاف اپنے ساتھیوں کے ساتھ لڑتے رہنے کے دوران 4مئی1799ء کو جامِ شہادت نوش کر گئے۔ آپ ساتھیوں کے ساتھ زخمی حالت میں میدان جنگ میں پڑے تھے تو ایک انگریزی سپاہی نے قریب آ کر طنزیہ جملہ کہا تو آپ نے تلوار کا وار کر کے اسے ڈھیر کر دیا پھر آپ کی شہادت کے کئی منٹ بعد تک برطانوی افواج کو آپ کے قریب آنے کی ہمت نہ ہوئی۔ مرنے کے بعد آپ کی تلوار آپ کے ہاتھوں میں مضبوطی سے جکھڑی ہوئی تھی۔ ان کی یہ تلوار آج بھی لندن کے برٹش میوزیم میں موجود اس کی بہادری کی علامت ہے جس پر شیر کا عکس کندہ ہے۔ شہادت کے وقت سلطان کی عمر پچاس سال تھی۔ اس مردِ میدان نے اپنی زندگی کے پینتیس سال ہندوستان کو غلامی کی زنجیروں جھکڑنے والے غیر ملکی طاغوتی قوتوں اور برطانوی سامراج کے خلاف بر سرَ پیکار رہنے میں گزاری۔ اپنے عہد کے ناساز حالات میں ٹیپو کی اصلاحات اور کارناموں سے ان کا موازنہ مشرق میں صلاح الدین ایوبی اور مغرب میں نپولین بونا پارٹ سے کیا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔14اگست 1947ء میں پاکستان کا قیام در اصل ٹیپو سلطان کی کاوشوں و مقاصد کا ہی تسلسل ہے جن کی شہادت نے انگریزوں کو پیغام دیا تھا میرے بعد تم زیادہ دیر یہاں قدم جما نہ سکو گے۔ آج اس مرد ِمجاہدکا دو سو چوہترواں یومِ ولادت ہے۔

جواب دیں

Back to top button