بلاول بھٹو ایک مرتبہ پھر ناراض ہو گئے

تحریر۔۔۔ رفیع صحرائی
خبر یہ ہے کہ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی جناب بلاول بھٹو زرداری حکومت سے سخت ناراض ہو گئے ہیں۔ ان کی ناراضی کی وجہ مبینہ طور پر حکومت کی وعدہ خلافی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت کی جانب سے جوڈیشل کمیٹی میں مساوی نمائندگی کے وعدے کو پورا نہ کرنے پر احتجاجاً گزشتہ ہفتے جوڈیشل کمیشن سے اپنا نام واپس لے لیا تھا۔ حکومت کی اہم اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے مسلم لیگ ن کی جانب سے اہم معاملات پر وعدہ خلافی اور مشاورت سے راہ فرار اختیار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ناراضی کا اظہار کر دیا۔ ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ حکومت نے جوڈیشل کمیٹی میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی مساوی نمائندگی کے وعدے کو پورا نہیں کیا۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ حکومت کے ساتھ پی پی پی کے مستقبل کا فیصلہ اب پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی۔ بلاول بھٹو زرداری جو اس وقت بغرضِ علاج وطن سے باہر ہیں وطن واپسی پر سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلائیں گے جس میں اہم فیصلے ہوں گے۔
واقفانِ حال جانتے ہیں کہ میثاقِ جمہوریت (2007)کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے درمیان متعدد نورا کشتیاں ہو چکی ہیں۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جہاں یہ نورا کشتیاں مذکورہ دونوں پارٹیوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہوئیں وہیں پر ملک کے لیے بھی یہ نیک شگون لے کر آئیں اور عوام بھی سکون سے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی برسرِ اقتدار آئی تو یہ میثاقِ جمہوریت ہی کا ثمر تھا کہ اس نے انتقامی سیاست کو دفن کر دیا اور ماضی کی سیاہ رات کو بھلا کر نئے عزم سے آغازِ سحر کی بنیاد رکھ دی۔ 2008سے 2013کا دور سیاسی لحاظ سے سنہری دور تھا۔ پورے پانچ سال میں کوئی ایک سیاسی مقدمہ بنا نہ کوئی سیاسی قیدی جیل میں گیا۔ گو پیپلز پارٹی کے ساتھ ساتھ اس کا کریڈٹ مسلم لیگ ن کو بھی جاتا ہے کہ میاں نواز شریف پانچ سال تک فرینڈلی اپوزیشن کے طعنے سنتے رہے مگر انہوں نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا اور ہر قسم کے ایڈونچر سے اجتناب کیا۔ دراصل آصف زرداری اور نواز شریف منجھے ہوئے سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت سوچ سمجھ کر سیاست کی بساط پر چالیں چلتے ہیں۔ دونوں نے ماضی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ وہ سمجھ گئے ہیں کہ آپس کی لڑائی نے ہمیشہ ان دونوں ( پارٹیوں) کا نقصان کیا ہے اور ان کی چپقلش سے ہر دفعہ تیسری قوت کو موقع ملا ہے۔ تاہم اپنے ورکرز کو مطمئن رکھنے کے لئے اختلاف اور مخالفت کے متعدد ڈرامے بھی رچائے جاتے رہے ہیں۔ 2013میں نواز شریف برسرِ اقتدار آئے تو آصف زرداری نے بھی اپنا طے شدہ کردار بخوبی نبھایا جو تیسری قوت کو پسند نہیں آیا۔ ملک سیاسی اور معاشی استحکام کی جانب چل پڑا تھا۔ دونوں پارٹیوں کی لیڈر شپ نے صوبوں کو زیادہ بااختیار بنا دیا تھا۔ طالع آزمائوں کو اپنا کردار محدود ہوتے ہوتے ختم ہونے کی فکر پڑ گئی تھی چنانچہ عمران خان کی صورت میں نیا سیاسی مہرہ آگے بڑھایا گیا اور ملک کو تیزی سے تنزلی کے راستے کی طرف گامزن کر دیا گیا۔ وہ تو عمران خان کی سیمابی طبیعت نے انہیں نچلا نہ بیٹھنے دیا اور وہ اپنے لانے والوں سے ہی ٹکرا گئے جس کے نتیجے میں آج کل پابندِ سلاسل ہیں ورنہ تو 1973کا آئین ردی کی ٹوکری میں پھینک کر 2035تک حکومت کرنے کی منصوبہ بندی کر لی گئی تھی۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے موقع سے فائدہ اٹھایا اور تحریکِ عدم اعتماد کو کامیاب کروا کر اپنے سیاسی مستقبل کو بچا لیا۔ گو دونوں پارٹیوں نے ہی بہت بڑا رسک لیا تھا۔ معیشت کی راہ میں بچھی ہوئی بارودی سرنگوں کا انہیں اندازہ تو تھا مگر سنگینی اور خطرناکی کا پتا نہ تھا۔ یہ سرنگیں صاف کرنے کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔
انتخابات 2024کی انتخابی مہم کے دوران لڑی گئی نورا کشتی میں بلاول بھٹو زرداری نے کامیاب اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے اپنی توپوں کا رخ عمران خان کی طرف سے ہٹا کر میاں نواز شریف کی طرف کئے رکھا۔ دونوں پارٹیوں کے درمیان یہ معاہدہ ہو چکا تھا کہ دونوں پارٹیوں میں سے مرکز میں زیادہ سیٹیں لینے والی پارٹی کو وزارتِ عظمیٰ اور دوسری پوزیشن حاصل کرنے والی پارٹی کو ملک کی صدارت ملے گی۔ یہ طے تھا کہ حکومت میں دونوں پارٹیاں اتحادی ہوں گی۔ جناب بلاول زرداری کی انتخابی مہم سیاسی مخالفت سے زیادہ سیاسی دشمنی لگ رہی تھی۔ انہوں نے نواز شریف پر ذاتی حملے بھی شروع کر رکھے تھے۔ ہم نے تب بھی عرض کیا تھا کہ یہ اختلاف صرف 8فروری 2024کی شام تک ہے۔ اور ایسا ہی ہوا۔
قارئین کو یاد ہو گا کہ گزشتہ سال انہی دنوں میں جناب بلاول بھٹو وزیرِ خارجہ ہوتے ہوئے بھی پی ڈی ایم کی حکومت کے خلاف ہو گئے تھے اور انہوں نے میاں شہباز شریف کی حکومت کو دھمکی دی تھی کہ وہ قومی اسمبلی سے سالانہ بجٹ پاس نہیں ہونے دیں گے۔ پھر جب سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے سندھ حکومت کو وفاقی حکومت سے بیس ارب روپے جاری ہو گئے تو بلاول زرداری اپنے وزیرِ اعظم کا دایاں بازو بن گئے۔
گزشتہ جون میں بجٹ پاس ہونے کے موقع پر ایک مرتبہ پھر بلاول ناراض ہو گئے تھے۔ بظاہر ان کا موقف یہ تھا کہ انہیں بجٹ کی تیاری کے موقع پر اعتماد میں نہیں لیا گیا لیکن اصل وجہ یہ تھی کہ وہ پنجاب میں پاور شیئرنگ چاہتے تھے۔ تب حکومت نے انہیں پنجاب میں حصہ دینے کا وعدہ کر کے منا لیا تھا لیکن حقیقت میں ایسا نہ ہو سکا۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف اڑ گئیں اور یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔ اب بھی جوڈیشل کمیٹی اصل مسئلہ نہیں ہے۔ بلاول پنجاب میں نئی صف بندی کرنا چاہتے ہیں اور اس مقصد کے لیے انہیں مسلم لیگ ن سے پاور شیئرنگ چاہیے۔ جواب میں مسلم لیگ ن سندھ میں وہی شیئرنگ چاہتی ہے جسے ماننے میں بلاول تذبذب کا شکار ہیں۔ دیکھیں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ یہ تو طے ہے کہ بلاول حکومت سی نکلنے کی غلطی کبھی نہیں کریں گے۔ 26ویں آئینی ترمیم کے بعد حکومت کی مشکلات میں بہت کمی ہو گئی ہے۔ آپ سمجھ تو گئے ہوں گے۔





