بتا تیری رضا کیا ہے ؟

صفدر علی حیدری
علامہ اقبالؒ کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے ؟
اگر ہم اس کا جواب میں صرف ایک لفظ میں دینا چاہیں تو وہ ’’ خودی‘‘ ہو سکتا ہے، اس لیے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انھوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے ۔ اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے ۔
انسان کیا ہے؟
کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟
اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیا ہے؟
اس طرح کے اور جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا ہے ۔ اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے ۔
اقبالؒ نے ان سوالوں کے جواب میں دلائل و برہان سے کام لیا ہے۔ اور اسے ایک مستقل فلسفہ حیات میں ڈھال دیا ہے ۔یہی فلسفہ حیات ہے جو بعض عناصرِ خاص سے ترکیب پا کر اقبال کے یہاں مغرب و مشرق کے حکمائے جدید سے بالکل الگ ہو گیا ہے اس کا نام فلسفہ خودی ہے اور اقبالؒ اسی کے مفسر و پیغامبر ہیں ۔ اس فلسفے میں خدابینی و خودبینی لازم و ملزوم ہیں ۔ خود بینی، خدابینی میں سے خارج نہیں بلکہ معاون ہے۔ خودی کا احساس ذات خداوندی کا ادراک اور ذات ِ خداوندی کا ادراک خودی کے احساس کا اثبات و اقرار ہے۔ خدا کو فاش تر دیکھنے کے لیے خود کو فاش تر دیکھنا از بس ضروری ہے۔
اگر خواہی خُدارا فاش دیدن
خودی رافاش تر دیدن بیا موز
اگر خودی کے تصور کو سمجھ لیا جائے تو اقبالؒ کی شاعری کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے ۔ اقبالیات کے ہر نقاد نے خودی پر کسی نہ کسی شکل میں اظہار خیال کیا ہے۔ ڈاکٹر سعید عبد اللہ لکھتے ہیں، ’’ خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے۔ خودی عشق کے مترادف ہے۔ خودی ذوق تسخیر کا نام ہے۔ خودی سے مراد خود آگاہی ہے۔ خودی ذوق طلب ہے۔ خودی ایمان کے مترادف ہے۔ خودی سرچشمہ جدت و ندرت ہے۔ خودی یقین کی گہرائی ہے۔ خودی سوز حیات کا سرچشمہ ہے اور ذوق تخلیق کا ماخذ ہے‘‘۔
خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے درج ذیل معانی رکھتا ہے
انانیت ، خود پرستی ، خود مختاری ، خود سری ، خود رائی ، خود غرضی ، نخوت ، تکبر ، اپنے اوپر بھرپور بھروسا کرتے ہوئے سب کچھ حاصل کر لینا ۔ ’’ خودی‘‘ کا لفظ اقبالؒ کے پیغام یا فلسفہ حیات میں تکبر و غرور یا اردو فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا ۔ خودی اقبالؒ کے نزدیک نام ہے احساسِ غیرت مندی کا ، جذبہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا ، اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا ، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا ، مظاہراتِ فطرت سے برسر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کی بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اقبالؒ کے نقطہ نظر سے ’’ خودی‘‘ زندگی کا آغاز، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد و ملت کی ترقی و تنزل۔ خودی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے ۔ خودی کا تحفظ، زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام، زندگی کا استحکام ہے۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے ۔
خودی کیا ہے راز دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیدارئی کائنات
کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لاالہ الا اللہ کا اصل راز خودی ہے، توحید، خودی کی تلوارکو آب دار بناتی ہے اور خودی، توحید کی محافظ ہے۔
خودی کا سرِ نہاں لاالہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لاالہ الا اللہ
ڈاکٹر افتخار صدیقی فرماتے ہیں ’’ نظریہ خودی، حضرت علامہ اقبال ؒ کی فکر کا موضوع بنا رہا۔ جس کے تما م پہلوئوں پر انھوں نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔ اقبالؒ نے ابتداء ہی میں اس بات کو واضح کر دیا کہ خودی سے ان کی مراد غرور و نخوت ہرگز نہیں بلکہ اس سے عرفان ِ نفس اور خود شناسی مراد ہے‘‘۔
’’ اسرار خودی کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں لکھتے ہیں، ہاں لفظ ’’ خودی ‘‘ کے متعلق ناظرین کو آگاہ کر دینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی ’’ غرور‘‘ استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر اُردو میں مستعمل ہے اس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعینِ ذات ہے‘‘۔ تقریباً یہی مفہوم اقبال ؒ کے اس شعر میں ادا ہوا ہے۔
خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں
اقبالؒ کے تصور ِ خودی میں صوفیانہ فکر کے بیشتر عناصر ملتے ہیں لیکن صوفیوں کی خودی کا تصور روحانی ہوتا ہے ان کی روحانی انا اس درجہ محکم ہے کہ وہ مادی خودی کو وجود ِ مطلق کا جز قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اقبالؒ خودی کے مادی لوازم کو نظر انداز نہیں کرتے اور اس مادی خودی کو بھی بر حق اگرچہ تغیر پزیر جانتے ہیں ، صوفی وجود اور خودی کو تسلیم کر لینے کے بعد فنائے خودی میں اپنی نجات سمجھتا ہے۔ اُس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس خودی کو بے خودی میں بدل دے تاکہ وہ اپنی اصل سے مل جائے۔ صوفی اسے ترکِ خود یا نفی خود کے نام سے یاد کرتے ہیں جب کہ اقبالؒ عارضی خودی کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں اور بے خودی تک پہنچنے کے لیے خودی کو ہی ذریعہ اور وسیلہ بناتے ہیں ۔
عبدالسلام لکھتے ہیں ’’ خودی کا تصور ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ کی اساس ہے اور اسی پر ان تمام فلسفیانہ خیالات کی بنیاد ہے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ یورپین فلسفہ بالخصوص نطشے سے ماخوذ ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تخیل کو ڈاکٹر صاحب نے مولانا روم سے اخذ کیا ہے‘‘۔
بقول خلیفہ عبد الحکیم ’’ رومی انفرادی بقا کا قائل ہے اور کہتا ہے کہ خدا میں انسان اس طرح محو نہیں ہو جاتا جس طرح کہ قطرہ سمندر میں محو ہو جاتا ہے ۔ بلکہ ایسا ہوتا ہے جیسے کہ سورج کی روشنی میں چراغ جل رہا ہے جیسے لوہا آگ میں پڑ کر آگ ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی انفرادیت باقی رہتی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ خودی کے لیے بھی یہی نظریہ مناسب تھا اس لیے انھوں نے اس کو مولانا روم سے اخذ کیا ہے‘‘۔
اس سے یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب کے فلسفے کی اپنی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اُن کے فلسفہ خودی کے تمام اساسی مضامین درحقیقت قرآن سے ماخوذ ہیں ۔
اقبالؒ کے نزدیک خودی اپنی تکمیل اور استحکام کے لیے غیر خودی سے ٹکراتی ہے جس نسبت سے کوئی شے خودی میں مستحکم اور غیر خود پر غالب ہے اُسی نسبت سے اُس کا درجہ مدارج حیات میں نفیس ہوتا ہے۔ مخلوقات میں انسان اس لیے برتر ہے کہ اس کی ذات میں خودی ہے اور اس خودی سے فطرت ِ انسانی مشاہدہ کی پابند ہے۔
اقبالؒ کہتا ہے کہ خودی کی منزل زمان و مکاں کی تسخیر پر ختم نہیں ہوتی شاعر کا چشمِ تخیل انسان کی جدوجہد و عمل کے لیے نئے نئے میدان دکھاتا ہے ۔
خودی کو آگے بڑھانے میں ایک چیز بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اقبال نے اسے کبھی آرزو اور کبھی عشق کا نام دیا ہے ۔ ارتقائے خودی میں عشق سب سے بڑا محرک ثابت ہوتا ہے۔
عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دم بدم
اقبالؒ نے عشق کے کئی مدارج بیان کیے ہیں ۔
چناں چہ کہیں عشق جمالی صورت اختیار کر لیتا ہے اور کہیں جلالی رنگ میں جھلک دکھاتا ہے ۔
عشق کے مضراب سے نغمہ تارِ حیات
عشق سے نورِ حیات عشق سے نارِ حیات
ڈاکٹر عابد حسین لکھتے ہیں ’’ اس راہ میں ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ رہنما عشق ہے۔ عشق اُس مرد ِکامل کی محبت کو کہتے ہیں جو معرفت نفس کے مدارج سے گذر کر خودی کی معراج پر پہنچ چکا ہے‘‘۔
مردِ خدا کاعمل، عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصلِ حیات، موت ہے اس پر حرام
طلب و ہدایت کے لیے کسی مرد ِ کامل کے آگے سرِ نیاز جھکانا تو خودی کو مستحکم کرتا ہے۔ لیکن مال و دولت و منصب کے لیے دست نگر ہونا اس ضعیف بناتا ہے۔ گدائی صرف اِ سی کا نام نہیں کہ مفلس دولت مند کا طفیلی بن جائے بلکہ دولت جمع کرنے کا ہر وہ طریقہ جس میں انسان محنت نہ کرے بلکہ دوسروں کی محنت سے فائدہ اُٹھائے اقبالؒ کے نزدیک گداگری ہے ۔ حتیٰ کہ بادشاہ جو غریبوں کی کمائی پر بسر کرتا ہے سوال و گداگر ی کا مجرم ہے ۔
میکدے میں ایک دن ایک مرد زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا سلطان گدائے بے نوا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے مرد ِ غریب و بے نوا
گدائی اور فقر میں زمین و آسمان کا فرق ہے
گدائی مال کی حاجت میں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے جبکہ فقر مادی لذتوں سے بے نیاز کائنات کی تسخیر کرنا، فطرت پر حکمرانی اور مظلوموں کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلانا ہے۔
ایک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچھری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیت ِ اکسیری
اس سوال یہ ہے کہ خودی کو حاصل کیسے کیا جائے ۔ تو یہ بات واضح ہے کہ خودی سے تعمیری کام لینے کے لیے اس کی تربیت ضروری ہے ۔
بے قید و بے ترتیب خودی کی مثال شیطان ہے ۔ اقبالؒ بھی گوئٹے کی طرح اسے تخلیق کی عظیم الشان قوت سمجھتے ہیں جو صراط ِ مستقیم سے بھٹک گئی ہے۔ خودی کی منازل کے علاوہ تربیت خودی کے مراحل انتہائی اہم ہیں یہ مراحل تین ہیں ۔
اطاعت الٰہی: اقبال کے نزدیک خودی کا پہلا درجہ اطاعت ہے یعنی اللہ کے قانون ِ حیات کی پابندی کرنا۔
ضبط نفس: دوسرا درجہ ضبط نفس ہے انسان نفس کو جس کی سرکشی کی کوئی حد نہیں قابو میں لائے۔
نیابت الٰہی: ان دونوں مدارج سے گزرنے کے بعد انسان اس درجے پر فائز ہو جائے گا جسے انسانیت کا اوج کمال سمجھنا چاہیے ۔ یہ نیابت الٰہی کا درجہ ارتقائے خودی کا بلند ترین نصب العین ہے ۔
طالب خودی ’’مرد خدا‘‘ کی محبت اس قدر برتر اور سرشار ہوتی ہے اور کیف و سرور کی وجہ سے خدا کی اتنی محبت اس کے دل میں پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ خودی کے کل مراحل طے کرنے کے باوجود اپنے آپ کو نا تمام محسوس کرتا ہے اسی کشش کا نام عشق ِ حقیقی ہے ۔
عشق بھی ہو حجاب میں، حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیطِ بیکراں ، میں ہوں ذرا سی آب جو
یا مجھے ہم کنار کر یا مجھے بے کنار کر
قصہ مختصر، خودی کے حوالے سے اقبالؒ کا یہ شعر آفاقی حیثیت کا حامل ہے
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے







