مہمند اور قلات میں سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں 6دہشتگرد جہنم واصل
ملک کے خلاف ظاہر و پوشیدہ دشمن مذموم سازشیں کرتے رہتے ہیں، یہ سلسلہ قیام پاکستان سے جاری ہے۔ ہماری بہادر افواج دشمنوں اور ان کے کاسہ لیسوں کے تمام تر مذموم منصوبوں کو ہمیشہ ناکام بناتی رہی ہیں اور آئندہ بھی ان کے مذموم حربے اور ہتھکنڈے کسی طور کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ملک میں بدامنی کو بڑھاوا دینے کے لیے دشمنان اور ان کے زرخرید غلام لگے ہوئے ہیں، لیکن اس بار بھی ان کے ہاتھ نامُرادی ہی آئے گی۔ امن و امان کو سبوتاژ کرنے کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا اور جلد پاکستان فتنہ الخوارج سمیت تمام دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے میں سرخرو ہوگا۔ پچھلے ڈھائی سال سے پاکستان میں دہشت گردی کا فتنہ پھر سے سر اُٹھاتا نظر آرہا ہے۔ دہشت گردوں کی جانب سے مسلسل سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ کبھی سیکیورٹی چیک پوسٹوں پر حملے ہوتے ہیں، کبھی ان کے قافلوں اور کبھی اہم تنصیبات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان مذموم حملوں میں ہمارے سیکڑوں بہادر افسران اور جوان جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ ان کی قربانیاں ناقابل فراموش ہیں اور محب وطن قوم ان کو اور ان کے لواحقین کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ فتنہ الخوارج اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے روزانہ کی بنیاد پر ڈھیروں آپریشن کیے جارہے ہیں، جن میں بڑی کامیابیاں مل رہی ہیں۔ متعدد دہشت گردوں کو ہلاک اور گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان کی کمین گاہوں کو تباہ و برباد کیا جا چکا۔ ان کے سہولت کاروں اور معاونین کے خلاف بھی کارروائیاں عمل میں لائی جارہی ہیں۔ بہت سے علاقوں کو دہشت گردوں کے ناپاک وجود سے پاک کیا جا چکا ہے۔ گزشتہ روز بھی سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں 6دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے خیبر پختونخوا کے ضلع مہمند میں ایف سی ہیڈ کوارٹر پر فتنہ الخوارج کے حملے کی کوشش ناکام بنادی۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کے مطابق 6ستمبر کی صبح 4خوارج کے ایک گروپ نے مہمند میں ایف سی ہیڈکوارٹر پر حملے کی کوشش کی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق سیکیورٹی فورسز کی جانب سے کیمپ میں داخلے کی کوشش ناکام بنادی گئی اور چاروں خوارج خودکُش بمباروں کو کسی قسم کا نقصان پہنچانے سے پہلے ہی ہلاک کر دیا گیا، ہلاک حملہ آوروں کے قبضے سے خودکُش جیکٹس، ڈیٹونیٹر، اسلحہ اور بارودی مواد قبضے میں لے لیا گیا۔ پاک فوج کے تعلقات عامہ کے مطابق علاقے میں کسی اور خارجی کے خاتمے کے لیے کلیئرنس آپریشن بھی کیا گیا، سیکیورٹی فورسز ملک سے دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے چوکس اور پُرعزم ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان کے ضلع قلات میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 2دہشت گرد مارے گئے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر) کے مطابق سیکیورٹی فورسز نے 6اور 7ستمبر کی درمیانی شب دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاعات پر آپریشن کیا۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ کارروائی کے دوران فائرنگ کے تبادلی میں دو دہشت گرد ہلاک ہوگئے، جن سے اسلحہ اور گولا بارود برآمد کرلیا گیا۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ مارے گئے دہشت گرد معصوم شہریوں اور سیکیورٹی فورسز پر حملوں میں ملوث تھے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق علاقے میں دیگر ممکنہ دہشت گردوں کے پیش نظر کلیئرنس آپریشن جاری ہے، قوم کی حمایت سے سیکیورٹی فورسز امن دشمنوں کے عزائم ناکام بنانے کیلئے پُرعزم ہیں۔ کے پی اور بلوچستان میں 6دہشت گردوں کی ہلاکت سیکیورٹی فورسز کی بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔ مہمند میں ایف سی ہیڈ کوارٹر پر فتنہ الخوارج کے حملے کو ہماری بہادر فورسز نے انتہائی جانفشانی سے نا صرف ناکام بنایا، بلکہ 4خوارج کو بھی ہلاک کیا۔ ان کارروائیوں پر سیکیورٹی فورسز کی جتنی تعریف و توصیف کی جائے، کم ہے۔ محب وطن قوم سیکیورٹی فورسز کو سلام پیش کرتی ہے۔ عوام اُن کے شانہ بشانہ ہیں اور پُرامید ہیں کہ سیکیورٹی فورسز جلد تمام دہشت گردوں اور خوارج کا خاتمہ کرکے امن و امان کی صورت حال کو معمول پر لانے میں سرخرو ہوں گی۔ پاکستان پہلے بھی دہشت گردی کے عفریت سے تن تنہا نمٹ کر دُنیا کو انگشت بدنداں ہونے پر مجبور کرچکا ہے۔ اس کامیابی پر ناصرف دُنیا بھر میں پاکستان کی کوششوں کو سراہا گیا بلکہ قدر کی نگاہ سے بھی دیکھا گیا۔ کون نہیں جانتا کہ سانحہ نائن الیون کے بعد امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے بداثرات پاکستان پر بُری طرح مرتب ہوئے۔ وطن عزیز 15سال تک بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں رہا۔ ملک کے گوشے گوشے میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے تھے۔ بم دھماکوں، خودکُش حملوں کے سلسلے تھے۔ کسی کی زندگی محفوظ نہیں تھی۔ ان 15سال میں دہشت گردی کے واقعات میں 80ہزار سے زائد پاکستان کے بے گناہ عوام جاں بحق ہوئے، جن میں بڑی تعداد سیکیورٹی فورسز کے شہید افسران اور جوانوں کی بھی شامل تھی۔ سانحہ آرمی پبلک اسکول پشاور کے بعد دہشت گردی کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا۔ اس میں بڑی کامیابیاں ملیں۔ متعدد دہشت گرد مارے گئے، اُنہیں اُن کی کمین گاہوں میں گھس کر جہنم واصل کیا گیا، گرفتار کیا گیا اور جو بچ رہے، اُنہوں نے یہاں سے فرار میں اپنی بہتری سمجھی۔ ملک میں امن و امان کی صورت حال بہتر ہوئی۔ عوام نے سکون کا سانس لیا۔ اب پھر سے پچھلے ڈھائی سال سے دہشت گردی کے واقعات رونما ہورہے ہیں۔ قوم پُرامید ہے کہ جلد دہشت گردی سے اُسے مکمل نجات ملے گی۔ ہماری سیکیورٹی فورسز دہشت گردوں کے خلاف ضرور سرخرو ہوں گی۔
کے پی میں وبائوں کا زور، تدارک ناگزیر
وطن عزیز میں صحت کے حوالے سے صورت حال کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہی۔ یہاں وبائیں ہر کچھ وقفے کے بعد پھوٹتی اور بہت سے لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہیں، ان وبائوں کے نتیجے میں کئی زندگیوں کا ضیاع بھی ہوتا ہے۔ یہاں ملیریا، ڈینگی، خسرہ، ہیضہ و دیگر وبائیں مختلف علاقوں میں پنجے گاڑتی رہتی ہیں۔ پہلے ہی یہاں امراض کے پھیلائو کے حوالے سے صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے۔ ہر تیسرا، چوتھا شہری کسی نہ کسی عارضے سے دوچار ہے، کینسر، فالج، امراض قلب، گردے، ٹی بی، جگر اور دیگر بیماریوں نے عوام کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ ایسے ملک میں بیماریوں کی روک تھام کے حوالے سے کوششیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ زبانی جمع خرچ سے کام لیا جاتا ہے۔ عوام کی صحتوں کے ساتھ کھلواڑ کے لیے اتائی بھی ملک بھر میں اپنی بھرمار رکھتے ہیں۔ اس وقت وبائوں کے حوالے سے خیبر پختون خوا صوبے میں صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے، وہاں مختلف وبائوں کا زور دِکھائی دیتا ہے اور 70 ہزار سے زائد شہری ایک ہفتے کے دوران ان میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق خیبر پختونخوا میں وبائی امراض پھوٹ پڑے، جس کے متاثرین کی تعداد ایک ہفتے میں قریباً 70ہزار تک پہنچ چکی ہے۔ صوبائی محکمہ صحت کی جانب سے جاری کی گئی ہفتہ وار رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا کے متعدد اضلاع کے ہزاروں شہری مختلف وبائی امراض کا شکار ہورہے ہیں اور گزشتہ ہفتے صوبہ بھر سے صرف ہیضے کے 34ہزار 701کیس رپورٹ ہوئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ملیریا سے 8ہزار 19افراد متاثر ہوئے، اسی دورانیے میں مچھروں کے کاٹنے سے 8ہزار 320افراد مختلف بیماریوں کا شکار ہیں جب کہ ایک ہفتے میں صوبے کے مختلف اضلاع سے جلدی امراض کے 9ہزار 951کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ اسی طرح 5ہزار 802شہری سانس، 3ہزار 636شہری انفلوئنزا کا شکار ہیں۔ ایک ہزار 324افراد میں نمونیا، 761افراد میں ٹائیفائیڈ کی تشخیص ہوئی ہے۔ یہ خبر تشویش ناک ہونے کے ساتھ لمحہ فکریہ بھی ہے۔ ان وبائوں کے نتیجے میں انسانی زندگیوں کو سنگین خطرات لاحق ہیں۔ عوام کی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔ صوبائی حکومت کو وبائوں کا راستہ روکنے کے لیے راست اقدامات یقینی بنانے چاہئیں۔ اس حوالے سے زبانی جمع خرچ کے بجائے عملی بنیادوں پر اقدامات یقینی بنائے جائیں۔ وبائوں کے پھیلنے کی وجوہ تلاش کی جائیں، ان کا ہنگامی بنیادوں پر تدارک کیا جائے، لوگوں کو علاج معالجے کی مناسب سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ یقیناً درست سمت میں اُٹھائے گئے قدم مثبت نتائج کے حامل ثابت ہوں گے۔