Column

وسط ایشیائی ریاستوں کی پاکستانی بندرگاہوں تک رسائی

ضیاء الحق سرحدی
گزشتہ دنوں وزیر اعظم شہباز شریف نے کراچی پورٹ ٹرسٹ، پورٹ قاسم اتھارٹی اور نیشنل شپنگ کارپوریشن کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان وسط ایشیائی ریاستوں کیلئے سمندری تجارت کا سب سے موزوں راستہ فراہم کرتا ہے ان ریاستوں نے پاکستان کی بندرگاہوں کے استعمال میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے، جدید نظام اور بندرگاہوں تک آسان رسائی کی بدولت پاکستان اربوں ڈالر کا زرمبادلہ کما سکتا ہے، بندرگاہوں پر جدید سیکینز نصب کیے جائیں جبکہ پورٹ ٹرسٹ اور پورٹ قاسم پر کلیئرنس کا وقت کم کیا جائے، نجی شعبے کی ترقی، کاروبار میں آسانی اور سرمایہ کاروں کو سہولت حکومت کی اولین تر جیحات ہیں جبکہ فینگ لائینز کی ریگولیشن کیلئے ایک جامع لائحہ عمل بنا کر جلد پیش کیا جائے، کراچی پورٹ ٹرسٹ تک اور اس سے سامان کی بلاتعطل ترسیل کو یقینی بنانے کیلئے لیاری ایکسپرس وے کو کارگو ٹریفک کیلئے 24گھنٹے کھلا رکھا جائے ملیر ایکسپریس وے کو بندرگاہ سے جوڑا جائے، ریل کے ذریعے سامان کی ترسیل کی استعداد کو بڑھایا جائے، کراچی میں موجود بندرگاہوں کی ترقی سے ویلیو ایڈیشن کی صنعت سے برآمدات میں اضافہ کرینگے اور وزیر اعظم نے ہدایت کی کہ کراچی پورٹ تک اور اس سے ریل کے ذریعے سامان کی ترسیل کی استعداد کو بڑھایا جائے، پورٹ قاسم پر ایل این جی جہازوں کی فیس کو کم کر کے اسے بین الاقوامی سطح پر رائج ریٹس کے مطابق مقرر کیا جائے، شپنگ لائینز کی ریگولیشن کیلئے ایک جامع لائحہ عمل بنا کر جلد پیش کیا جائے۔ پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن اپنی لاگت کو کم کرنے اور اپنے آپر یشنز کو موثر بنانے کیلئے ایک جامع لائحہ عمل تشکیل دیکر پیش کرے۔ پاکستان کی معیشت مستحکم اور ترقی کی جانب گامزن ہے، برآمدی صنعت کی ترقی کیلئے برآمد کندگان کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ گزشتہ ماہ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا۔ ان سے ملاقات کے دوران وزیراعظم نے آذربائیجان کو بھی بیرونی تجارت کیلئے پاکستانی بندرگاہوں کے استعمال کی پیشکش کی۔ بلاشبہ پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک دو طرفہ بنیادوں پر مختلف شعبوں مثلاً توانائی، تجارت، سرمایہ کاری، دفاع، ثقافت، انسدادِ دہشت گردی، منشیات اور ہیومن ٹریفکنگ کے خلاف تعاون کو فروغ دینے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں اور اس کی سہولت کاری کیلئے ضروری انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کے کئی منصوبوں پر اتفاق بھی کر چکے ہیں۔ سوویت یونین کا شیرازہ بکھرنے کے بعد جب وسط ایشیائی ریاستوں نے آزادی کا اعلان کیا تو پاکستان کی طرف سے ان ریاستوں کیلئے بڑی گرمجوشی کا اظہار کیا گیا۔ یہ ایک لحاظ سے بے بنیاد بھی نہیں تھا کیونکہ ہندوستانی مسلمانوں کے اس خطے کے عوام کے ساتھ بڑے گہرے اور قدیم ثقافتی روابط رہے ہیں۔ قدیم شاہراہ ریشم، جس پر نہ صرف چین بلکہ ہندوستان کی تجارتی اشیا سے لدے پھندے قافلے بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر واقع بندرگاہوں پر اپنا سامان اُتارتے تھے، دراصل متعدد تجارتی راستوں کا مجموعہ تھی۔ ان میں سے ایک راستہ قراقرم ہائی وے کے ساتھ چین کے صوبہ سنکیانگ سے شروع ہو کر گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے گزرتا ہوا ایران کے راستے ترکی کے جنوب میں واقع مشرقی بحیرہ روم کے ساحل پر واقع بندرگاہوں پر اختتام پذیر ہوتا تھا۔ جہاں سے بڑی کشتیوں اور چھوٹے بحری جہازوں کے ذریعے یورپی ممالک کو تجارتی اشیا بھیجی جاتی تھیں۔ صوفیا کرام کے ذریعے ہندوستان میں دینِ اسلام بھی وسطی ایشیائی ممالک سے آیا تھا اور جب 12ویں صدی عیسوی میں چنگیز خان اور اس کے جانشینوں نے وسطی ایشیائی ممالک پر حملہ کرکے انہیں تباہ و برباد کیا تو ازبکستان، تاجکستان اور آذربائیجان پر مشتمل علاقوں سے خستہ حال باشندوں نے ہندوستان کے اُن علاقوں میں پناہ حاصل کی جو اَب پاکستان میں شامل ہیں۔ روس نے 1865ء میں ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند پر قبضہ کیا تھا۔ وسطی ایشیا پر قبضے کے بعد زارِ روس کی سرحدیں افغانستان سے مل گئی تھیں۔ اُس وقت نہ صرف ہندوستان بلکہ خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ کے خطوں پر برطانیہ کی عملداری قائم تھی جس نے افغانستان کی سرحدوں تک زارِ روس کی توسیع کو ہندوستان میں اپنے نو آبادیاتی راج کیلئے خطرے کا پیغام سمجھا۔ یوں یورپ اور ایشیا کے درمیان خشکی کے راستے رابطے کا یہ سب سے بڑا ذریعہ روس اور برطانوی نو آبادیاتی مفادات کے درمیان محاذ آرائی کا مرکز بن گیا۔ وسطی ایشیا کی ان نو آزاد ریاستوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے والوں میں پاکستان بھی شامل تھا مگر تین دہائیوں کی کوششوں کے باوجود پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے درمیان تجارت، باہمی سرمایہ کاری، معاشی تعاون، ثقافت، سیاحت اور عوامی سطح پر رابطوں میں قابلِ ذکر اضافہ نہیں ہوا۔ حالانکہ ان شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کیلئے پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان نہ صرف دو طرفہ بنیادوں پر متعدد معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں بلکہ معاشی تعاون تنظیم (ECO)اور شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ہونے کی حیثیت سے وہ اہم ملٹی لیٹرل فورمز کا بھی حصہ ہیں۔ اس کے باوجود وسطی ایشیائی ریاستوں کے ساتھ پاکستان کی سالانہ تجارت400سے 500ملین امریکی ڈالر کے درمیان ہے۔ پاکستان کی سب سے زیادہ تجارت تقریباً 91ملین امریکی ڈالر سالانہ قازقستان کے ساتھ ہے۔ وسطی ایشیا کی ان ریاستوں کے ساتھ پاکستان کی دو طرفہ تجارت 2010ء میں افغانستان کے ساتھ پاکستان کے ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت ہو رہی ہے مگر اس کا حجم گنجائش سے بہت کم ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ریل روڈ پر مشتمل ضروری انفراسٹرکچر کا نہ ہونا ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ازبکستان نے نومبر2018ء میں افغان ٹرانزٹ ریلوے کی تعمیر کی تجویز پیش کی تھی جس کے تحت ازبکستان کے شہر ترمیز کو افغانستان کے شہر مزار شریف اور کابل کے راستے پاکستان کے شہر پشاور کے ساتھ 600 کلو میٹر لمبی ریلوے لائن کے ذریعے ملانے کا منصوبہ ہے۔ مارچ 2021ء میں پاکستان، افغانستان اور ازبکستان نے ریلوے لائن کے اس منصوبے پر باقاعدہ دستخط کیے۔ معاہدے کے تحت اس منصوبے کو پانچ برس میں مکمل ہونا تھا، مگر تین سال گزرنے کے باوجود اس پر ابھی تک کام بھی شروع نہیں ہو سکا حالانکہ عالمی بینک اور دیگر عالمی مالیاتی ادارے اس منصوبے کی تعمیر میں مالی اور تکنیکی امداد فراہم کرنے پر آمادگی کا اظہار کر چکے ہیں۔ ماہرین کے مطابق وسطی ایشیائی ریاستیں پاک افغان ٹرانزٹ روٹ کے ذریعے اپنی تجارت کا حجم بڑھا کر سی پیک کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں کیونکہ افغان ٹرانزٹ ریلوے کی تعمیر کے بعد اسے سی پیک کے تحت پاکستان ریلوے کے ایک بڑے منصوبے ML1کے ساتھ ملانے کا ارادہ ہے۔ اس طرح وسطی ایشیائی ریاستوں کو افغان ٹرانزٹ ریلوے کے ذریعے نہ صرف کراچی بلکہ گوادر کی بندرگاہ تک بھی رسائی حاصل ہو جائے گی مگر اس کیلئے پاکستان کی بندرگاہوں خصوصاً گوادر میں ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر، سرمایہ کاری اور سکیورٹی میں اضافہ کرنا ضروری ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے غالباً اسی مقصد کیلئے کراچی کا دورہ کیا اور کراچی کی بندرگاہ پر سامان کو جہازوں پر لادنے اور اتارنے کیلئے جدید ترین سہولتیں مہیا کرنے کے علاوہ کسٹمز کلیئرنس اور سامان کی ڈِلیوری میں تاخیر کو ختم کرنے پر زور دیا۔ دیکھتے ہیں اس اقدام کے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button