سانحہ ماچھکہ، 13پولیس اہلکار شہید
کچے کے ڈاکوئوں کے جرائم کی داستانیں اکثر میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے آتی ہیں۔ پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے پنجاب اور سندھ میں دریائی پٹی پر سرگرم کچے کے ڈاکو سنگین چیلنج ہیں، باوجود کوششوں کے ان کا خاتمہ نہیں کیا جاسکا ہے۔ ان کی وحشیانہ کارروائیوں اور درندگی کے قصے زبان ہر خاص و عام رہتے ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں کچے کے ڈاکو اغوا، بھتہ خوری اور قتل سمیت اپنی پُرتشدد سرگرمیوں کے حوالے سے خاصے معروف ہیں۔ کچے کے ڈاکو شہریوں اور سیکیورٹی اہلکاروں کو اغوا کرتے ہیں، جسمانی تشدد کی ویڈیوز بناتے ہیں اور لاکھوں روپے تاوان طلب کرتے ہیں۔ ایسے معاملات میں جہاں انہیں تاوان ادا نہیں کیا جاتا، یہ یرغمالیوں کو بے دردی سے قتل کر دیتے ہیں۔ خواتین کی آواز کا استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو اپنے جھانسے میں پھنسانے کا حربہ بھی اختیار کرتے ہیں۔ کئی لوگ ان کے اس جال میں پھنس کر اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زندگیاں عذاب میں ڈالنے کا باعث بن چکے ہیں۔ پولیس بارہا ان کے خلاف کوششیں کر چکی ہیں، کچھ کامیابیاں ملیں، لیکن ان کا مکمل خاتمہ نہیں ہوسکا ہے۔ یہ جدید ترین اسلحے سے لیس ہونے کے ساتھ دور جدید کی تمام تر آسائشات اور ٹیکنالوجیز سے ہم آہنگ بھی گردانے جاتے ہیں۔ ڈاکوئوں نے بہت سے شہریوں کو نشانہ بنایا ہے۔ ان کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں کے باوجود، وہ مذموم سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ڈاکوئوں کو سالانہ ایک ارب روپے تاوان ملتا ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے رحیم یار خان میں انتہائی وحشیانہ کارروائی کرتے ہوئے 13پولیس اہلکاروں کو شہید کر دیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق رحیم یار خان کے کچے کے علاقے میں پولیس کی 2گاڑیوں پر ڈاکوئوں کے حملے میں 13اہلکار شہید ہوگئے۔ پولیس کے مطابق ڈاکوئوں نے کچے کے علاقے ماچھکہ میں پولیس کی 2گاڑیوں پر حملہ کیا۔ دونوں پولیس موبائلز بارش کے پانی میں پھنس گئی تھیں۔ ڈاکوئوں نے راکٹ لانچروں سے پولیس پر حملہ کر دیا۔ گھوٹکی پولیس کے مطابق ڈاکوئوں کے حملے میں 13پولیس اہلکار شہید اور 7زخمی ہوگئے ۔ حملے کے بعد رحیم یار خان پولیس نے بھاری نفری علاقے میں طلب کرلی گئی۔ ذرائع کے مطابق رحیم یار خان میں کچے کے علاقے ماچھکہ کیمپ 2پر ڈاکوئوں نے نفری تبدیل کرنے والی پولیس موبائلوں کو راکٹ لانچروں سے نشانہ بنایا، حملے میں 13اہلکار موقع پر شہید جبکہ7زخمی ہوگئے۔ نجی ٹی وی کے مطابق ڈاکوئوں نے چھٹی سے واپس آنے والی پولیس پارٹی کی گاڑی خراب ہونے پر گھیرائو کرکے حملہ کیا، زخمیوں اور لاشوں کو ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ راکٹ لانچر کے حملے میں پولیس موبائلیں تباہ ہوگئیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کی ہدایت ملتے ہی سیکرٹری داخلہ کچے کے علاقے روانہ ہوگئے، وہ حملہ آوروں کے خلاف کریک ڈائون کی نگرانی کریں گے۔ آئی جی پنجاب، ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی بھی ہوم سیکرٹری کے ہمراہ ہیں۔ جبکہ ترجمان محکمہ داخلہ نے کہا ہے کہ پولیس پر حملہ کرنے والوں کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق محمد عثمان، محمد عمران، زاہد، محمد راشد، وسیم سعید، نذر عباس، اجی رام، محمد اسماعیل، نبیل شہزاد سمیت 24اہلکار ڈیوٹی سے واپس آرہے تھے کہ فتح پور کے قریب ڈاکوئوں کے دو گروپوں نے پولیس موبائل پر جدید اسلحے سے حملہ کیا۔ جس کے نتیجے میں 13اہلکار شہید ہوگئے۔ یہ انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے۔ اس کی جتنی مذمت کی جائے، کم ہے۔ اس پر پوری قوم اشک بار اور شہدا کے لواحقین کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ قوم ان شہدا کو کبھی فراموش نہیں کر سکے گی۔ کچے کے ڈاکو دہشتگردوں سے کسی طور کم سنگین جرائم میں ملوث نہیں۔ وقت آگیا ہے کہ اب سندھ اور پنجاب میں کچے کے ڈاکوئوں کا مکمل صفایا کیا جائے۔ کچے کے ڈاکوئوں کے خاتمے کے حوالے سے سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے۔ ان کے خلاف آپریشنز کو ہر صورت پایہ تکمیل تک پہنچانے کا عزم کیا جائے اور اس پر ہر حال میں عمل پیرا ہوا جائے۔ ان کے سہولت کاروں کا پتا لگایا جائے اور انہیں بھی نشان عبرت بنایا جائے۔ سندھ اور پنجاب میں کچے کے ڈاکوئوں کا مکمل قلع قمع کرنے کے لیے موثر حکمت عملی طے کی جائے۔ تحقیقات کی جائے، سراغ لگایا جائے، ان کے سہولت کاروں کو کسی طور بخشا نہ جائے۔ کمانڈوز کی خدمات لی جائیں۔ کچے کے ڈاکوئوں کے خلاف سخت کریک ڈائون کا آغاز کیا جائے اور اسے اُس وقت تک تسلسل کے ساتھ جاری رکھا جائے، جب تک ان کا مکمل خاتمہ نہیں ہوجاتا۔ کچے کے ڈاکوئوں کے ناسور کا صفایا کرنا ازحد ضروری ہے، اس کے بغیر اور کوئی چارہ بھی نہیں۔ اس ناسور کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا جائے۔
ڈینگی وائرس کے جاری وار
پاکستان میں صحت کی صورتحال کبھی بھی تسلی بخش نہیں رہی۔ یہاں وبائیں اور امراض تیزی سے پھیلتے اور لوگوں کی بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ ڈینگی وائرس نے 2010۔11میں بڑی تباہ کاریاں مچائی تھیں۔ عوام میں شدید خوف و ہراس پیدا کر ڈالا تھا۔ اس وائرس کے باعث ملک بھر میں اُس دوران انتہائی بڑے پیمانے پر اموات ہوئی تھیں۔ بے پناہ لوگ اس وائرس کی زد میں آئے تھے۔ عوام میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ لوگ آس پاس مچھروں کی موجودگی سے عجیب ڈر و خوف کا شکار رہتے تھے۔ بعد ازاں ملک کے تمام صوبوں کی حکومتوں نے راست اقدامات یقینی بنائے، ڈینگی وائرس کا راستہ روکنے کے لیے موثر کوششیں کیں، جن کے مثبت اثرات سامنے آئے اور آئندہ برسوں میں اس کے نقصانات میں بتدریج کمی آتی رہی۔ اب بھی ملک کے طول و عرض میں لوگ اس کا شکار ہوتے ہیں، لیکن مناسب دیکھ بھال اور علاج کی سہولتوں کے طفیل صحت یاب ہوجاتے ہیں۔ موجودہ موسم ڈینگی وائرس کا مرض تیزی سے پھیلانے میں مددگار بنتا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں لوگ اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔ اسی حوالے سے پنجاب سے رپورٹ آئی ہے، جہاں کئی لوگ اس کی زد میں آچکے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پنجاب میں 24گھنٹے کے دوران ڈینگی کے 6کیس سامنے آگئے۔ ترجمان محکمہ صحت کے مطابق ایک ہفتے میں 29جبکہ رواں سال اب تک ڈینگی کے 288کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ لاہور میں ڈینگی کے 3، راولپنڈی میں 2اور شیخوپورہ میں ایک کیس رپورٹ ہوا۔ ڈینگی کی روک تھام کے لیے سنجیدہ کوششیں ناگزیر ہیں۔ ضروری ہے کہ تمام علاقوں میں مچھر کُش اسپرے کا باقاعدگی سے اہتمام کیا جائے۔ کہا جاتا ہے کہ احتیاط افسوس سے بہتر ہے۔ شہری احتیاط کے ذریعے اس وائرس سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ صاف پانی کھلے برتنوں میں رکھنے سے گریز کریں، پانی کی ٹنکی کو ڈھانپ کے رکھیں، کھلا ہرگز نہ چھوڑیں کہ انہی مقامات پر ڈینگی مچھر جنم لیتے ہیں۔ اسی طرح مکمل آستین کے کپڑے پہنیں۔ بچوں کو بھی پورے کپڑے پہنائے جائیں۔ بچوں کو ہاتھ پیروں پر مچھروں سے بچانے والے لوشنز لگائے جائیں۔ احتیاط کا دامن ہر صورت تھاما رکھا جائے۔