ملکی حالات اور گیدڑ سنگھی

تحریر : سکیل امجد صادق
عوام میں گیدڑ سنگھی سے متعلق بے شمار غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ اس کو گیدڑ کی ناف سمجھتے ہیں۔ کچھ لوگ اسے صرف بالوں کا ایک گچھا سمجھتے ہیں۔ کچھ جوگی اس کو ایک ایسے گیدڑ کے سر پر نکلنے والا سینگ بتاتے ہیں جو کہ گلہری کے برابر ہوتا ہے اور پہاڑی علاقوں میں پایا جاتا ہے، جس کو تلاش کرنا بھی جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اس کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ جس کے پاس ہو اس کی قسمت بدل جائے گی۔ اس کو ہر طرح سے مالی مدد حاصل ہوگی۔ زیورات یا نقدی کے سیف میں گیدڑ سنگھی رکھی جائے تو وہ مزید بڑھیں گے۔ دولت اور کاروبار میں ترقی ہوگی، گمشدہ مال مل جایا کرے گا۔ غیب سے ہر طرح کی مدد اور خوشحالی حاصل ہوگی، دولت آنے کے ہر ذریعے میں کامیابی ہوگی۔ لاٹری، بانڈ، جوا، سٹہ، کاروبار میں کامیابی ہوگی۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ گیدڑ سنگھی کا تعلق ہندوستان سے ہے اور اسے ہندو تانتروں نے دریافت یا ایجاد کیا لیکن ہمیں ہندو مذہب یا تاریخ کی کسی کتاب میں گیدڑ سنگھی کا ذکر نہیں ملتا۔ چونکہ اسے سیندور میں رکھا جاتا ہے اس لئے اس کا تعلق ہندوئوں سے جوڑ دیا گیا۔
درحقیقت گیدڑ سنگھی کا ذکر ہمیں قدیم مصر میں ملتا ہے۔ قدیم مصر میں گیدڑ کو ایک انتہائی متبرک جانور سمجھا جاتا تھا۔ ان کے ایک دیوتا کا نام انوبس Anubisتھا جس کا سر گیدڑ جیسا اور باقی جسم انسان کا تھا۔ آپ نے اکثر قدیم مصر کے اہرام اور دوسرے قدیم عمارات کی دیواروں پر منقش شدہ تحاریر اور شبیہات میں اس دیوتا کی تصویر دیکھی ہوگی۔ اسی طرح قدیم مصریوں میں بلی کو بھی انتہائی مقدس جانور خیال کیا جاتا تھا۔ مصری لوگ گیدڑ سنگھی نکال کر حنوط کر لیتے تھے اور پھر ایک خاص مرتبان میں رکھ کر اپنے خزانے میں رکھتے تھے۔ اسی طرح یہ رسم چلتی ہوئی ہندوستان اور تمام دنیا تک بھی پہنچی۔ زمانہ قدیم سے لوگ گیدڑ سنگھیاں حنوط کر لیتے تھے۔ راجہ مہاراجہ اور بادشاہ اسے اپنے خزانوں کے درمیان رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب گیدڑ سو سال کا ہو جاتا ہے تو اس کے سر پر سینگ اگ آتا ہے یا یہ کہ یہ سینگ صرف گیدڑوں کے سردار گیدڑ کے سر میں پایا جاتا ہے۔ لوگ اس چیز کو بہت منتیں کر کے جوگیوں اور ملنگوں سے خریدتے ہیں اور خریدتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ زندہ حالت میں ہو اور پھر بڑے پیار اور عزت سے اسے سیندور اور خوشبوئوں والی ایک چھوٹی سی ڈبی میں رکھتے ہیں۔ سیندور وہی سرخ رنگ کا پوڈر نما سفوف ہے جسے ہندو پتی اپنی پتنی کی مانگ میں لگاتا ہے۔ سیندور ایک کیمیکل ہوتا ہے جو اسے کیڑے لگنے اور گلنے سڑنے سے محفوظ رکھتا ہے۔
لوگ اس گیدڑ سنگھی کا بہت خیال رکھتے ہیں اور پاک صاف ہو کر اس کے نزدیک جاتے اور اس کو ہاتھ میں پکڑتے ہیں کیونکہ جوگی صاحب نے انہیں بتایا ہوتا ہے کہ اگر ناپاک حالت میں اس کے قریب جائو گے تو یہ مر جائے گی یا اس وجہ سے آپ کا بہت بڑا نقصان ہو جائے گا۔ اصل میں گیدڑ سنگھی واقعی گیدڑ کے سر ( کھوپڑی) سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ بالکل جلد کے نیچے موجود ہوتی ہے اور اسے اس کے سر سے کاٹ کر علیحدہ کر لیا جاتا ہے۔ اسی لئے اس چیز کے گرد بال بھی موجود ہوتے ہیں۔ گیدڑ سنگھی کینسر زدہ (tumer)سیلز ہیں جو کہ گیدڑوں کے سر میں ایک بڑے دانے کی طرح ابھر آتا ہے جس میں تھوڑی سی سختی بھی آجاتی ہے۔ گیدڑ کے سر سے الگ ہونے کے باوجود اس کے بڑھنے کی 2وجوہات ہو سکتی ہیں۔ پہلی وجہ یہ کہ کینسر والے سیلز اس سنگھی میں موجود ہوتے ہیں جو کہ ایک دوسرے کو کھا کر بڑھتے رہتے ہیں جس سے محسوس ہوتا ہے کہ گیدڑ سنگھی بڑھ رہی ہے۔ اس کے بڑھنے کی دوسری وجہ آکسیجن کی غیر موجودگی میں بیکٹیریا کی گروتھ کا جاری رہنا یا ان کی تعداد کا بڑھتے رہنا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ سب کینسر زدہ سیلز کو سندور میں حنوط کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ چھہتر سالوں سے ملک کا جو حال ہوگیا ہے۔ اداروں کی جو حالت ہوگئی ہے؟ اخلاقی قدریں جس قدر زوال پذیر ہو گئی ہیں؟ سماجی اقدار کا جس قدر جنازہ نکل چکا ہے؟ انسانیت جس قدر دم توڑ چکی ہے؟ بے راہ روی، ناانصافی کا ناسور جس قدر گہرا ہو چکا ہے، ان تمام حالات کو بہتر کرنا کسی حکومت کے بس کا روگ نہیں رہا بس اس کیلئے کسی گیدڑ سنگھی کی ضرورت ہے۔





