سلیکشن نہیں، الیکشن کروائیے

رفیع صحرائی
سندھ میں بلدیاتی ضمنی الیکشن کا نتیجہ آ گیا ہے۔ حسبِ توقع پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا ہے۔ باقی ضمنی انتخابات کی طرح اس مرتبہ بھی ٹرن آئوٹ انتہائی کم بلکہ مایوس کن رہا ہے۔
سندھ میں ہونے والے عام بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے سمجھ بوجھ رکھنے والے بڑے بڑے سیاسی مبصرین، صحافیوں اور سیاستدانوں کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ پی ٹی آئی ان انتخابات میں اس بری طرح پٹ جائے گی۔ جماعت اسلامی کے بارے میں بھی یہ گمان نہیں کیا جا رہا تھا کہ کراچی میں وہ اس قدر شاندار طریقے سے کم بیک کرے گی مگر ایسا ہو گیا۔ ایک وقت تھا کہ کراچی پر جماعت اسلامی کا غلبہ تھا الیکشن قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ہوتے یا بلدیاتی، جماعت اسلامی سنگل لارجسٹ پارٹی کے روپ میں سامنے آتی تھی۔ پھر ایک منصوبے کے تحت ایم کیو ایم کو کراچی میں لانچ کیا گیا اور اس قدر اسے مقبولیت دلائی گئی کہ اس کے سامنے باقی سب چراغ بجھ گئے۔ لانے والوں کا کام لا کر مسندِ اقتدار پر بٹھانا اور پہلی ٹرم میں ہر ممکن سہولت بہم پہنچانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد ’’ سلیکٹڈ‘‘ کا امتحان ہوتا ہے کہ وہ سلیکٹر کی توقعات پر کس حد تک پورا اترتا ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنی پالیسی ایسی بنائی کہ کراچی میں ہی نہیں بلکہ حیدر آباد اور سکھر میں بھی خود کو منوا لیا۔ الطاف حسین کو ایک موقع ملا اور اس نے اس موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ ایسا ہی ایک موقع چودھری برادران کو بھی ملا تھا جب مرکز اور پنجاب میں پرویز مشرف نے ان کی حکومت بنوائی تھی مگر چودھری برادران کی سیاست کا انداز ہمیشہ طفیلی رہا ہے اس لیے وہ کوئی بھی بولڈ فیصلہ کرنے سے قاصر رہے۔ انہوں نے خود کو پرویز مشرف کے ہاتھوں میں ربر سٹیمپ بنائے رکھا جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے ساتھ جڑنے والا ’’ بھان متی کا کنبہ‘‘ پرویز مشرف ہی کا وفادار رہا اور اگلے الیکشن میں چودھری برادران کی ق لیگ کا صفایا ہو گیا۔ یہ صفایا پرویز مشرف نے خود کروایا تھا۔ وہ پیپلز پارٹی کی مدد سے اپنی صدارت کو دوام دینا چاہتے تھے۔ پیپلز پارٹی نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد مسلم لیگ ن کی مدد سے پرویز مشرف کو ہی چلتا کر دیا۔
ایسا ہی ایک موقع 2018میں عمران خان کو بھی عطا کیا گیا جنہوں نے پہلے پہل تو اپنے لانے والے جنرل باجوہ کی تعریفوں کے پل باندھے رکھے۔ بدقسمتی سے عمران خان ڈلیور نہ کر سکے۔ 2028تک انہیں اقتدار میں رکھنے کا منصوبہ تھا لیکن وہ اپنی پالیسیوں اور بے پناہ مہنگائی کے سبب اس قدر غیر مقبول ہو گئے کہ ان کا پارٹی ورکر بھی مایوس ہو گیا۔ انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ اپنے لانے والوں کے خلاف بھی محاذ کھول لیا۔ عمران خان کی مرضی کے سیٹ اپ کے منصوبے کو اپ سیٹ کر دیا گیا چنانچہ عمران خان اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ’’ بے فیض‘‘ ہونے کے بعد سندھ کے بلدیاتی انتخابات عمران خان کا پہلا ٹیسٹ تھا۔ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کی صلح اور اسے ان انتخابات سے باہر رکھنے سے یہ بات واضح ہو رہی تھی کہ ایم کیو ایم کے ’’ گناہ‘‘ معاف ہو چکے ہیں اور مستقبل کے عام انتخابات میں سندھ سے پی ٹی آئی کو کامیابی ملنا بہت مشکل ہے۔
اگر بات سندھ کے بلدیاتی الیکشن میں ٹرن آئوٹ پر کی جائے تو یہ بہت مایوس کن تھا۔ دس سے بارہ فیصد ٹرن آئوٹ رہا جس کی وجہ سے الیکٹورل حلقے کے کل رجسٹرڈ ووٹوں کا صرف پانچ فیصد ووٹ لینے والے امیدوار بھی کامیاب ہو گئے۔ یہ کیسا لطیفہ ہے کہ کامیاب ہونے والے امیدوار کو جن 95فیصد لوگوں نے ووٹ نہیں دیا تھا وہ ان کا نمائندہ بھی بن گیا۔
یہ ہماری سیاست کا بہت بڑا المیہ ہے کہ کل ووٹوں کا پانچ سات فیصد اور کاسٹ کیے گئے ووٹوں کا تیس فیصد لینے والا بھی منتخب ہو جاتا ہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ عام انتخابات میں تین امیدوار پچاس پچاس ہزار سے زائد ووٹ حاصل کر لیتے ہیں اور ان میں سے ایک چند سو ووٹوں کے فرق سے جیت جاتا ہے جبکہ تین چار مزید امیدواران بھی پندرہ بیس ہزار ووٹ لے جاتے ہیں۔ یوں کاسٹ کئے گئے ووٹوں کا تیس فیصد لینے والا کامیاب ہو جاتا ہے جبکہ ستر فیصد ووٹروں نے اسے مسترد کیا ہوتا ہے۔ جن لوگوں نے ووٹ نہیں ڈالا ہوتا ایک طرح سے انہوں نے بھی خاموش احتجاج کے ذریعے اسے مسترد ہی کیا ہوتا ہے۔
یہ ہمارے مینڈیٹ کی توہین نہیں تو اور کیا ہی؟۔ وقت آ گیا ہے کہ انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ نوے فیصد سے کم ٹرن آئوٹ والے حلقے میں انتخاب کالعدم قرار دے کر دوبارہ الیکشن کروایا جائے۔ ووٹ کاسٹ نہ کرنے والے ووٹروں کو قانون سازی کر کے کم از کم تین ماہ قید کی سزا دی جائے تاکہ ووٹرز کو ووٹ جیسے اہم فریضے کی ادائیگی کی اہمیت کا احساس ہو سکے۔ کل کاسٹ کئے گئے ووٹوں کا کم از کم پچاس فیصد لینے والا امیدوار کامیاب قرار دیا جائے تا کہ اسے عوام کا صحیح اور منتخب نمائندہ کہا جا سکے۔ اگر کوئی امیدوار مطلوبہ تعداد میں ووٹ حاصل نہ کر سکے تو سب کو ناکامیاب قرار دے کر پہلی دو پوزیشنوں پر آنے والے امیدواروں کے درمیان دوبارہ الیکشن کروایا جائے۔ ایک تجویز یہ بھی قابلِ عمل ہے کہ بیلٹ پیپر پر جہاں تمام امیدواروں کے نام اور انتخابی نشان پرنٹ کیے جاتے ہیں وہاں پر آخر میں ایک خانہ ’’ مسترد‘‘ کا بھی ہونا چاہیے۔ اگر کوئی ووٹر الیکشن میں حصہ لینے والے کسی بھی امیدوار کو ووٹ نہیں دینا چاہتا تو وہ ’’ مسترد‘‘ والے خانے میں مہر لگا کر اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر سکے۔ مسترد کے ووٹ سب سے بڑھ جائیں تو اس حلقے میں تمام امیدواروں کو نا اہل قرار دے کر نئے امیدواروں کے ساتھ نیا الیکشن کروایا جائے۔ اس طریقے سے پارٹیوں میں پیرا شوٹرز کی بھی پارٹی کارکنوں کے ذریعے حوصلہ شکنی کی جا سکے گی۔ نیز ووٹ کاسٹ نہ کرنے والوں کا یہ جواز بھی ختم ہو جائے گا کہ وہ کسی امیدوار کو بھی ووٹ کا حق دار نہیں سمجھتے لہٰذا انہوں نے ووٹ نہیں ڈالا۔ وہ تمام امیدواروں کو مسترد کر کے اپنی رائے کا اظہار کر سکتے ہیں۔ موجودہ سسٹم میں بعض حلقوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ سب امیدوار ہی قریباً ایک جیسے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ووٹرز کو مجبوراً ان سب میں سے ’’ کم برے‘‘ کا انتخاب کرنا پڑتا ہے۔ مسترد کرنے کا اختیار ہونے کی صورت میں ووٹر اپنا حق رائے دہی موثر طور پر استعمال کر سکے گا۔





