Column

تن کے اجلے، من کے کالے

رفیع صحرائی
پاکستان کی ایک پرانی پنجابی فلم چڑھدا سورج کا ایک گیت جسے نسیم بیگم نے گایا تھا آج رہ رہ کر یاد آ رہا ہے۔
سجن سوہنا نہ ملے نا سہی
ملے تے غیرت والا نی
بھاویں ہووے رنگ دا کالا نی
( محبوب خوب صورت نہ ملے تو پروا نہیں، لیکن وہ غیرت مند ہونا چاہیے، بے شک رنگ کا کالا ہو)
بلا شبہ غیرت مند ہونا ایک ایسی خوبی ہے جو انسانی عیبوں کو چھپا لیتی ہے۔ علامہ اقبال کیا خوب فرما گئے ہیں۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
دنیا میں وہی قومیں عزت اور وقار کے ساتھ زندہ رہتی ہیں جن میں غیرت ہوتی ہے۔ کیونکہ غیرت انہیں کسی کے آگے جھکنے نہیں دیتی۔ وہ سر اٹھا کر جیتی ہیں۔ وہ قومیں اپنے مسئلے خود حل کرتی ہیں، کسی نبی، پیغمبر یا مسیحا کا انتظار نہیں کرتیں۔ قوموں کو غیرت ان کی لیڈر شپ عطا کرتی ہے۔ غیور لیڈرشپ کبھی وسائل کا رونا نہیں روتی بلکہ اس کی توجہ مسائل کو حل کرنے پر ہوتی ہے۔ لیڈر وہ ہوتا ہے جو قوم کو سبز باغ دکھانے کی بجائے پودے لگا کر ان کی آبیاری کرتا ہے اور ان پودوں کو سبز باغ بنا کر دکھا دیتا ہے۔
ہمارے پڑوس میں افغانستان ہی کو دیکھ لیجیے۔ سپر پاورز روس اور امریکہ نے یکے بعد دیگرے اس ملک کو کھنڈر بنا دیا۔ خوش قسمتی سے اس ملک کو غیور لیڈرشپ مل گئی جس نے اپنا رہن سہن عام آدمی جیسا رکھا، پروٹوکول کو مسترد کر دیا۔ ملک کی تعمیر و ترقی پر کمر کس لی اور آج یہ عالم ہے کہ دو سال کے قلیل عرصے میں اس کی معیشت اپنے پائوں پر کھڑی ہو گئی ہے۔ اس کی واحد وجہ قانون کی حکمرانی اور انصاف کی بروقت فراہمی ہے جس نے عوام کو اپنی حکومت پر اعتماد دلایا ہے۔
بنگلہ دیش 1971ء میں ہم سے علیحدہ ہوا اور آج اس نے ہمیں بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ہمارا ہمسایہ بھارت ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا۔ وہ چاند پر پہنچ گیا ہے اور ہم اپنے پرچم پر چاند کی تصویر بنا کر اسی پر اکتفا کئے بیٹھے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمیں قائد اعظمؒ کے بعد گزشتہ 75سالوں میں ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے سوہنے اور خوب صورت سجن تو بہت ملے ہیں مگر کوئی کالے رنگ کا غیرت مند سجن نہ مل سکا جو ہمیں ایک قوم بنا سکتا۔ ہمیں قوم کہنا بھی قوم کی توہین ہے کہ ہم ایک ایسا بکھرا ہوا ہجوم بن چکے ہیں جو مختلف ٹولیوں میں بٹا ہوا ہے۔ کہیں مذہب اور کہیں سیاست کے نام پر ہمیں نفرتوں کی بھینٹ چڑھایا گیا اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ ہم لوگ نفرتوں میں خود کفیل اور محبتوں سے عاری ایک وحشی معاشرہ بن چکے ہیں۔ قوم ہی نہ رہی تو قومی غیرت کہاں سے آئے۔ قوم کو بے پناہ مہنگائی کی چکی میں باریک پیسنے اور کفایت شعاری کا درس دینے والی شہباز شریف حکومت جاتے جاتے الوداعی کھانے کی صورت میں قومی خزانے کو سات کروڑ کا ٹیکہ لگا گئی۔ عوام کے لیے خزانہ خالی اور ملکی ڈیفالٹ کے خطرے کا بھاشن جبکہ اشرافیہ کی عیاشیوں میں دن دگنی رات چوگنی ترقی دیکھنے کو مل رہی ہے۔
سجن سوہنا نہ ملے نہ سہی
ملے تے غیرت والا نی
بھاویں ہووے رنگ دا کالا نی
آئیے! قومی غیرت کا ایک واقعہ پڑھتے جائیے۔
بنگلہ دیش کا سب سے طویل پل بننا تھا۔ ورلڈ بینک نے 1.2ارب ڈالر کا وعدہ کیا تھا مگر پھر الزام لگا دیا گیا کہ بنگلہ دیشی کرپٹ ہیں اور قرضہ کینسل کر دیا۔
حسینہ واجد کی حکومت نے اپنے ذرائع سے پیسہ اکٹھا کر کے چھ کلومیٹر سے زیادہ طویل پل دریائے پدما پر بنا دیا۔ یہ 6.51کلومیٹر ( 4.04 میل) طویل پل تقریباً 3.6بلین امریکی ڈالر کے برابر لاگت سے تعمیر کیا گیا۔ اتوار کی صبح 6بجے سے عام ٹریفک کے لیے کھولے جانے کے بعد سے پدما پل پر پہلے آٹھ گھنٹے میں کل 8219050روپے جمع کئے گئے۔ اگلے آٹھ گھنٹے میں پل کے زجیرہ پوائنٹ پر 3529500روپے اور ماوا پوائنٹ سے 4689550روپے جمع ہوئے۔ ایک ہی وقت میں، 15200گاڑیاں دونوں سروں سے گزریں اور آج صرف یہ ایک منصوبہ ہی بنگلہ دیشی معیشت میں سالانہ 1.3فیصد منافع کا حامل ہے۔
گزشتہ سال اس کا افتتاح ہونے کے بعد جب حسینہ واجد کی ورلڈ بینک کے سربراہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے پدما پل کی ایک فریم شدہ تصویر اسے تحفے میں پیش کی۔ شاید یہی حقیقی آزادی کی ایک جھلک تھی۔ قومیں اسی طرح بنتی ہیں۔ در در کشکول لے کر بھیک مانگنے سے ترقی نہیں ہوتی۔
ہم ’’ دشمن‘‘ ہندوستان سے تو نہیں سیکھ پا رہے ہیں کم از کم اپنے پرانے حصے اور ’’ بھائی‘‘ بنگلہ دیش سے تو سبق حاصل کر سکتے ہیں جو کبھی میرے ملک کا حصہ تھا۔ 1971ء میں وہ ہم سے علیحدہ ہوا اور آج 50سال بعد بنگلہ دیش ہم سے کتنا آگے نکل گیا اور ہم 76سال بعد بھی ایک سے دوسری دلدل میں پھنستے اور دھنستے چلے جا رہے ہیں۔
20برس پہلے پاکستانی روپے کے پونے دو ٹکے ملتے تھے۔ آج پاکستانی روپیہ آدھے ٹکے سے بھی کم ہے۔
بنگلہ دیش کے خزانے میں 38بلین ڈالر اور ہمارے خزانے میں 9بلین ڈالر ہیں۔
بنگلہ دیش کو جب ورلڈ بنک نے للکارا تو اس نے 4بلین ڈالر لگا کر پل بنا کر دکھا دیا اور ہم آج اس بات پر خوشی سے پھولے نہیں سما رہے کہ آئی ایم ایف سے تین بلین ڈالر کی ڈیل ہو گئی ہے۔
سجن سوہنا نہ ملے نہ سہی
ملے تے غیرت والا نی
بھاویں ہووے رنگ دا کالا نی

جواب دیں

Back to top button