Column

بروقت انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری

حسنین بگٹی
بروقت انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ ایوان بالا سینیٹ نے ایک قرارداد منظور کی ہے، جس میں الیکشن کمیشن سے ملک بھر میں آئین کے آرٹیکل 224میں دئیے گئے وقت کے اندر انتخابات کے انعقاد کے لیے اقدامات کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ قرارداد جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے پیش کی، جس میں تمام ریاستی اداروں سے بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ آئینی مدت کے اندر انتخابات کے انعقاد کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں۔ وزرا یہ باور کرا چکے ہیں کہ کچھ آئینی وجوہات کے سبب الیکشن کے انعقاد میں دو سے تین ماہ تک کی تاخیر ہو سکتی ہے۔ ایوان بالا سے منظور کی گئی قرارداد میں نشاندہی کی گئی کہ عدالت عظمیٰ صراحت کے ساتھ قرار دے چکی ہے کہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل یا مدت پوری ہونے پر آئین کی دفعہ 224میں مذکور مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد ایک ایسا فریضہ ہے، جس سے روگردانی ممکن نہیں۔ قرارداد میں کہا گیا کہ کسی بھی شخص یا ادارے کے پاس صرف وہی اختیار ہے جو آئین یا قانون نے اسے دیا ہے اور اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد قائم ہونے والی نگران حکومت انتخابات کے انعقاد اور روزمرہ کے معمول کے فیصلوں کا اختیار رکھتی ہے۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ یہ معزز ایوان الیکشن کمیشن سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ آئین کی دفعہ 224میں مقررہ مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر تمام ضروری اقدامات کرے۔ اس کے علاوہ قرارداد میں کہا گیا کہ یہ معزز ایوان تمام ریاستی اداروں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ آئین کی دفعہ 224میں مقررہ مدت کے اندر انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کے لیے الیکشن کمیشن کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کا اپنا آئینی فریضہ احسن طریقے سے ادا کرے۔ یاد رہے کہ پہلی بار کوئی نگران حکومت غیر معینہ مدت کے لیے آئی ہے۔ انوار الحق کاکڑ کے وزیراعظم نامزد ہوتے ہی چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں کہ انتخابات مزید التوا کا شکار ہو جائیں گے۔ ملک کے آٹھویں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نفیس اور پڑھے لکھے سیاسی ورکر ہیں۔ یہ عہدہ ان کے لیے بہت سے چیلنج لے کر آیا ہے۔ اس وقت ملک کا سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے، اس لیے ان کے لیے چیلنج بھی کٹھن ہوں گے۔ الیکشن چھ ماہ سے زیادہ ملتوی نہیں ہو سکیں گے۔ الیکشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ نئی حکومت کا تشکیل پانا ایک بنیادی آئینی تقاضا ہے۔ 20ستمبر کو صدر پاکستان کے عہدے کی میعاد ختم ہو رہی ہے، اگر قومی اور صوبائی اسمبلیاں نہیں ہوں گی تو نئے صدر کا انتخاب کیسے ہو گا اور سب سے بڑھ کر مارچ 2024ء میں چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سمیت آدھے سینیٹر ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اگر عام انتخابات بروقت نہ ہوئے تو پھر سارا نظام تلپٹ ہو جائے گا، جو سراسر آئین کی پامالی کے مترادف ہو گا۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا چیلنج ان کی غیر جانبداری ہو گا۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کی شق 230میں صاف طور پر لکھا ہے کہ نگران وزیراعظم غیر جانبدار ہو گا۔ اختر مینگل یا اے این پی کے کچھ اعتراضات سامنے آئے ہیں مگر کسی بڑی جماعت یا سیاسی شخصیت نے نگران وزیر اعظم کی تعیناتی پر سوالات نہیں اٹھائے۔ نگران وزیراعظم سینیٹ اور اپنی پارٹی کی رکنیت سے مستعفی ہو چکے ہیں مگر اتنا کافی نہیں ہے۔ انہیں بہرحال غیر جانبداری ثابت بھی کرنا ہو گی۔ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بہتر مراسم رکھنا ہوں گے اسی میں جمہوریت کی جیت ہے۔ نگران حکومت کے سامنے بڑا چیلنج معیشت کی بحالی اور مہنگائی کا خاتمہ ہو گا۔ اس وقت معیشت ٹریک پر آ رہی ہے اور ہمیں ہر صورت آئی ایم ایف کی شرائط پر من و عن عمل کرنا ہے ۔ نومبر میں نیا جائزہ ہونا ہے، اس کے بعد ایک ارب ڈالر کی قسط موصول ہو جائے گی۔ اس کے بعد اگلا جائزہ فروری 2024ء میں ہو گا۔ اُس وقت بھی ملک میں نگران حکومت ہی ہو گی، اس لیے ضروری ہے کہ فیصلے وہ کیے جائیں جو وقت کی ضرورت اور ملکی مفاد میں ہوں۔ مہنگائی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ معاشی حالات سنجیدگی کا تقاضا کرتے ہیں۔ نگران وزیراعظم کو سیاسی استحکام کا چیلنج بھی درپیش ہے۔ ڈیڑھ سال سے ملک سیاسی طور پر شدید عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ کبھی سٹرکیں بند ہو جاتی تھیں اور کبھی ریلیاں نکالی جاتی تھیں، کبھی لانگ مارچ کیا جاتا تھا اور کبھی دھرنے کی دھمکیاں دی جاتی تھیں۔ ملک کی سیاسی فضا میں شدت پسندی کا راج تھا۔ اب نگران حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ سیاسی استحکام کے فروغ کے لیے کام کرے۔ تمام سیاسی جماعتوں سے تعلقات بہتر کرے۔
نگران وزیراعظم کو یہ ادراک کرنا ہو گا کہ ان کی حکومت دو یا تین نہیں بلکہ چھ سے سات ماہ کے لیے آئی ہے۔ ان کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، جسے انہیں ہر حال میں نبھانا ہے۔ نگران حکومت کو انتخابات کے بروقت اور منصفانہ انعقاد کا چیلنج بھی درپیش ہو گا۔ ملک کو اس وقت فری اینڈ فیئر الیکشن کی سخت ضرورت ہے۔ ایسا الیکشن جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ اسے الیکشن کمیشن کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا ہو گا۔ افسران کا تقرر و تبادلہ میرٹ پر ہونا چاہئے نہ کہ ذاتی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر۔ پی ٹی آئی کو بھی الیکشن میں بھر پور طریقے سے حصہ لینے کا موقع ملنا چاہیے تاکہ الیکشن کی ساکھ متاثر نہ ہو۔ اگر نگران حکومت بروقت اور منصفانہ الیکشن کرانے میں کامیاب ہو گئی تو لوگ اس حکومت کو دہائیوں تک یاد رکھیں گے اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی تو پھر ملک میں سیاست اور جمہوریت کا مستقبل مزید تاریک ہو جائے گا۔ دوسری جانب الیکشن کمیشن نے گزشتہ ہفتے ڈیجیٹل مردم شماری 2023کے شائع سرکاری نتائج کے مطابق نئی حلقہ بندیاں کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس حوالے سے صوبائی حکومتوں اور ادارہ شماریات سے معاونت طلب کی تھی، اس سلسلے میں ضروری احکامات جاری کر دئیے گئے تھے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری شیڈول کے مطابق حلقہ بندیاں حتمی طور پر 14دسمبر 2023کو شائع کی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن سے جاری شیڈول کے مطابق 17اگست 2023 تک ملک کے تمام نوٹس کی حدود منجمد کردی گئی ہیں جس کا الیکشن کمیشن نوٹیفکیشن جاری کر دے گا اور 21اگست تک اسلام آباد سمیت ہر صوبے کے لیے حلقہ بندیوں کی کمیٹیاں تشکیل دے دی جائیں گی۔ اس کے بعد 31اگست تک انتظامیہ امور نمٹانے کے بعد حلقہ بندیوں کی کمیٹیوں کو یکم سے چار ستمبر تک تربیت دی جائے گی اور 5سے 7اگست تک قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ڈسٹرکٹ کوٹہ کا تعین اور اسے شیئر کیا جائے گا۔ 8ستمبر سے 7اکتوبر تک کمیٹیاں ابتدائی حلقہ بندیاں کریں گی جس کے بعد 9اکتوبر کو حلقہ بندیوں کی ابتدائی رپورٹ شائع کی جائے گی۔ 10اکتوبر سے 8نومبر تک حلقہ بندیوں کے حوالے سے کسی بھی قسم کے اعتراضات کمیشن کے سامنے دائر کیے جا سکیں گے اور 10نومبر سے 9دسمبر تک کمیشن ان اعتراجات پر سماعت کرے گا جس کے بعد 14دسمبر 2023کو حتمی حلقہ بندیاں شائع کردی جائیں گی۔ الیکشن کمیشن کا خیال ہے کہ نئی حلقہ بندیوں کے بعد انتخابات ہوں گے، ادھر الیکشن کمیشن نے آئندہ عام انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں سے مشاورت بھی شروع کر دی ہے، اس سے قبل سیاسی جماعتوں سے انتخابی شیڈول، حلقہ بندیوں، انتخابی فہرست اور عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ سے متعلق مشاورت کے لیے خط لکھے گئے۔ خطوط پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری، مسلم لیگ ( ن) کے صدر شہباز شریف، پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فصل الرحمان کو لکھے گئے۔ خطوط میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 218 (3)کے مطابق انتخابات کا انعقاد کرے اور انتخابات یقینی بنانے کے لیے ضروری انتظامات کرے۔

جواب دیں

Back to top button