پاکستان کی جیلیں اور معاملات

پاکستان کی جیلیں اور معاملات
تحریر ، روہیل اکبر
بلوچستان میں جیلوں کی حالت کے حوالے سے ایک خبر پڑھی تو بہت افسوس ہوا جبکہ اس کے مقابلہ میں پنجاب کی جیلیں تو کئی درجے بہتر ہیں جہاں پینے کا صاف پانی،24گھنٹے صحت کی سہولت، جیل سے گھر ٹیلی فون کی سہولت اور قیدیوں کو بیوی بچوں کے ساتھ گھر جیسی سہولت جیل وہ جگہ ہے جہاں قید رہ کر انسان اپنے اندر بہت سی تبدیلیاں پیدا کرسکتا ہے اپنی منفی سوچ کو مثبت بنا سکتا ہے کم پڑھے لکھے اعلی تعلیم حاصل کر سکتے ہیں بے کار افراد ہنر مند بن سکتے ہیں مذہب سے دوری والا شخص اسلام کے بنیادی عقائد سے واقفیت حاصل کر سکتا ہے جبکہ ایسی مثالیں بھی موجود ہیں کہ جیل کے اندر رہتے ہوئے قیدیوں نے قران مجید کو بھی حفظ کرلیا دوسرے لفظوں میں جیل کو ہم اصلاح گھر بھی کہہ سکتے ہیں جیل جانا کوئی اچھی بات بھی نہیں لیکن ہمارے سیاستدانوں کے لیے جیل جانا بھی کسی ڈگری سے کم نہیں جو باہر آکر جب اقتدار میں آتے ہیں تو پھر بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ میں نے اتنا عرصہ جیل کاٹی اور جو سیاستدان جیل میں نہ گیا ہو اسے باقی کے سیاستدان طعنہ دیتے ہیں کہ اس نے کونسی جیل کاٹی ہے جہاں ہمارے سیاستدانوں کا یہ معیار ہوگا تو پھر ہماری جیلوں کا ماحول اور معیار کیسے درست ہو سکے گا پنجاب کی جیلیں باقی صوبوں سے اس لیے بھی منفرد ہیں کیونکہ یہاں میاں فاروق نذیر جیسا قابل، محنتی اور جیل والوں سے پیار کرنے والا شخص موجود ہے میاں صاحب تیسری بار پنجاب کی جیلوں کے آئی جی بنے ہیں اس بار انکی کوشش ہے کہ وہ ادھورے کام بھی مکمل کر جائیں جو انکے پچھلے دور میں ہوتے ہوتے رہ گئے تھے اب وہ دن رات ان کاموں کی تکمیل میں مصروف ہیں جیلوں میں صاف پانی کی فراہمی اور قیدیوں کا اکائونٹ انہی کا تحفہ ہے ان سے پہلے مرزا شاہد سلیم بیگ بھی آئی جی رہ چکے ہیں انہوں نی بھی اپنے دور میں جیلوں میں بند قیدیوں اور حوالاتیوں سمیت جیل ملازمین کے لیے بے انتہا کام کیے جیل ملازمین کی تنخواہوں سے لیکر ایک عام حوالاتیوں تک سہولیات کا جال بچھا یا پنجاب بنک سے معاہدہ کرکے لوٹ مار کا سلسلہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا جسے بعد قیدی اپنی رہائی کے بعد بینک سے اپنے پیسے واپس نکلوا سکتا ہے انکے اور بھی بہت سے کارنامے ہیں جن کا ذکر پھر کبھی لیکن یہ حقیقت ہے کہ پنجاب کی جیلیں آج اگر باقی صوبوں سے منفرد ہیں تو انہی دونوں افراد کی وجہ سے ہیں بات شروع کی تھی بلوچستان میں جیلوں کی حالت کے حوالہ سے جہاں بلوچستان کی12جیلوں میں سب سے بڑی اور تاریخی سینٹرل جیل مچ سمیت 7جیلوں میں قیدیوں کے علاج کے لیے ڈاکٹروں کی سہولت ہی میسر نہیں ہے، صرف ڈسٹرکٹ جیل کوئٹہ میں ڈاکٹر اور لیڈی ڈاکٹر اور سنٹرل جیل گڈانی میں ڈاکٹر تعینات ہیں، اس پکڑ دھکڑ کے دور میں جہاں پورے پاکستان کی جیلیں اپنی تعداد سے تین گنا افراد اپنے اندر سمائے ہوئے ہیں وہاں پر ڈاکٹروں اور ادویات کا نہ ہونا باعث شرم ہے، اوپر سے صوبائی حکومت بلوچستان نے محکمہ جیل کے لیے ادویات کی مد میں دئیے جانے والے فنڈ کو 60لاکھ سے کم کرکے 30لاکھ کر دیا ہے اور ابھی تک صرف دس لاکھ روپے جاری کیے گئے۔ بلوچستان جیلوں کے آئی جی شجاع کافی بھی محنتی اور ایماندار افسر ہیں جو ہر وقت جیلوں میں اصلاح کے حوالہ سے کوئی نہ کوئی کام جاری رکھتے ہیں ابھی بھی انہوں نے جیلوں میں ادویات کی مد میں ڈیڑھ کروڑ روپے فراہم کرنے کی سمری محکمہ داخلہ کو بھجوا رکھی جبکہ چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ مچھ جیل میں ڈاکٹروں کی عدم تعیناتی پر برہمی کا اظہار بھی کر چکے ہیں لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہورہی اگر ہم پاکستان کی جیلوں کا دنیاسے مقابلہ کریں تو پاکستان دنیا میں 23ویں سب سے بڑی جیلوں کی آبادی والا ملک ہے جن میں سزائے موت کے حوالہ سے ہماری جیلیں 5ویں نمبر پر ہیں تقریباً 64.5فیصد قیدی مقدمے کی سماعت کے منتظر ہیں 98.6 فیصد قیدی مرد ہیں، 1.7فیصد نابالغ ہیں اور 1.2فیصد قیدی غیر ملکی شہری ہیں پاکستان جیلوں میں آج سے کچھ عرصہ قبل تک 56499قیدیوں کی سرکاری گنجائش تھی لیکن اس میں 80ہزار سے تجاوز کر چکے ہیں پاکستان میں جیلوں کی مختلف قسمیں ہیں جن میں سینٹرل جیل، ڈسٹرکٹ جیل، خواتین کی جیلیں، بورسٹل اسکول، اوپن جیلیں، خصوصی جیلیں اور سب جیلیں ہیں اور تقریبا 99فیصد جیلیں آپریشنل ہیں۔ پاکستان کو جیل خانہ جات کا نظام انگریزوں سے نوآبادیاتی وراثت کے طور پر ملا سزا کے بعد سزا کی جگہ کے طور پر جیل 1ویں صدی کا تصور ہے، جس کا مقصد تھا کہ قید سے قیدیوں کو توبہ کرنے میں مدد ملے گی اور اس توبہ کے نتیجے میں اصلاح ہوگی۔ نو آبادیاتی حکومت نے اسی سال 7اپریل کو 1818کے ضابطہ IIIکے ذریعے منظور کیا تھا، ریاستی قیدیوں کی قید کے لیے کسی ایسے فرد کو ذاتی پابندی کے تحت رکھنے کا طریقہ کار اختیار کیا گیا تھا، جس کے خلاف عدالتی کارروائی جاری ہو 1894 کا ایکٹ نمبر IX 22مارچ کو گورنر جنرل آف انڈیا نے کونسل میں پاس کیا مذکورہ قانون
1874کے بمبئی ایکٹ IIکے بعد آیا جو تقریباً آٹھ سیکشن یعنی سیکشن 9سے 16کی دفعات کے تحت ایوان صدر کی سول جیلوں پر لاگو ہوتا تھا جیل ایکٹ یکم جولائی 1894کو نافذ ہوا جس میں بارہ ابواب شامل تھے جیلوں کی دیکھ بھال کے انتظامات، جیل کے عملے کے فرائض، نظم و ضبط، قیدیوں کے حقوق اور فرائض کی تفصیلات شامل ہیں11مارچ1897 کو گورنر جنرل کی منظوری حاصل کرنے کے بعد اصلاحی اسکولوں سے متعلق قانون میں ترمیم کرنے اور نوجوان مجرم سے نمٹنے کے لیے مزید انتظامات کرنے کے لیے منظور کیا گیا اس قانون کے نفاذ کے بعد ریفارمیٹری سکولز ایکٹ 1876 کو دہرایا گیا پنجاب جیل خانہ جات کا محکمہ 1854میں صوبہ پنجاب کی مختلف مرکزی، ضلعی اور خصوصی جیلوں میں قید قیدیوں کی حراست، دیکھ بھال اور کنٹرول کے لیے قائم کیا گیا اور ڈاکٹر سی ہیتھ وے کو جیلوں کا پہلا انسپکٹر جنرل ( آئی جی) مقرر کیا گیا تھا 1900کا ایکٹ III، قیدیوں کا ایکٹ 2فروری 1900کو گورنر جنرل کی منظوری سے فوراً نافذ ہو گیا جس کے بعد عدالت کے حکم سے قید قیدیوں سے متعلق باہر نکلنے والے قوانین کو مضبوط کیا، یہ برٹش بلوچستان، سنتال پرگنہ اور سپتی کے پرگنہ سمیت پورے برٹش انڈیا تک پھیلا ہوا تھا اس ایکٹ میں نو حصے شامل تھے اور ترپن سیکشن میں قیدیوں کے داخلے، اخراج، چھٹی، عدالت میں حاضری اور ملازمت سے متعلق رہنمائی تھی آزادی کے وقت پنجاب کو انیس (19)جیلیں وراثت میں ملی تھیں جبکہ آزادی کے بعد اب تک صوبے میں مزید تیئس (23)جیلیں بن چکی ہیں اس وقت صوبے میں چالیس (43)جیلیں کام کر رہی ہیں دنیا نے حالیہ دہائیوں میں جیلوں کی آبادی میں بے مثال اضافہ دیکھا ہے اور آج 11ملین سے زیادہ لوگ جیلوں میں ہیں جن میں سے تقریباً ایک تہائی مقدمے سے پہلے حراست میں ہیں یا حتمی سزا کے منتظر ہیں جبکہ قیدیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اسکے مقابلہ میں جیل کے نظام کے وسائل میں بہت کم اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں نہ صرف پاکستان کی جیلیں بلکہ دنیا بھر کی جیلیں بحران کا شکار ہیں زیادہ تر ممالک اپنے جیلوں کے نظام کو اپنی سرکاری گنجائش سے زیادہ چلا رہے ہیں جس کی وجہ سے بھیڑ، تنگ اور خطرناک حالات ہیں جیلوں میں بند قیدیوں کی سہولیات کے حوالہ سے اگر بات کی جائے تو پنجاب کی جیلیں اس وقت باقی تمام صوبوں کی جیلوں سے بہتر نظر آتی ہیں پاکستان کی خطرناک جیلوں کا اگر ذکر ہو تو سنٹرل جیل مچھ اور سنٹرل جیل ساہیوال قابل ذکر ہیں ان دونوں جیلوں کی تفصیل اگلے کسی کالم میں دونگا۔





