ColumnQadir Khan

موسمیاتی ردو بدل اور زراعت .. قادر خان یوسف زئی

قادر خان یوسف زئی

 

موسمیاتی بحران نے دنیا کے بیشتر ممالک کوبری طرح متاثر کیا ہے۔ بالخصوص جنوبی ایشیائی ممالک موسمیاتی ردو بدل سے پریشان کن حالات کا سامنا کررہے ہیں ۔ماحولیاتی بحران میں بارشوں اور سیلاب نے دنیا کو ایک نئی آزمائش کے خطرات سے آگاہ کرنا شروع کردیا ہے۔پاکستان میں زراعت کا شعبہ ملکی معیشت میں 25فیصد جبکہ لیبر فورس کا 40 یا 45فیصد حصہ رکھتا ہے ۔ حالیہ سیلاب کے بعد جہاں انہیں معاشی حالات کے چیلنجز درپیش ہوں گے تو دوسری جانب عوام کو غذائی قلت اور مہنگائی کا سامنا بھی کرنا ہوگا ۔ سیلاب نے لاکھوں ایکڑ اراضی میں کھڑی فصلوں کو تباہ کردیاہے۔ گندم ، گنا اور کپاس کی فصل تو پہلے ہی شدید مشکلات کے بعد اُگائی جا رہی تھی اور ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے درآمد کرانا پڑتی تھی۔وفاقی و زیر خزانہ مفتاح اسماعیل عندیہ دے چکے کہ سبزیاں اور زرعی اجناس بھی بیرون ملک سے منگوانی ہوں گی ۔بیشتر تاجر برادری کی جانب سے بھارت سے عام سبزیوں کی تجارت دوبارہ شروع کرنے کی ضرورت کو اُجاگر کیا جارہا ہے۔ دیکھنا ہے کہ انسانی زندگیاں بچانے اور مہنگائی کے نئے سونامی کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومت کس راستے کا انتخاب کرتی ہے کیونکہ سابق حکومت بھارت کے ساتھ تمام تجارتی تعلقات بند کرچکی تھی، اگر موجودہ حکومت یہ سخت فیصلہ بھی کرتی ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارتی راہدری کو دوبارہ کھولا جائے تو کیا حزب اختلاف اسے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے کے استعمال کرے گی یا نہیں، اس حوالے سے دونوں جانب سے تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے۔

خیال رہے کہ بھارت خود بھی شدید موسمیاتی تبدیلی کا شکار ہے ۔ دونوں ممالک کے کچھ حصوں میں درجہ حرارت قریباً 50سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے ، جس سے دونوں ممالک میں درجنوں اموات ہوتی ہیں اور طلباء، محنت کشوں اور کسانوں کی روزمرہ زندگی اور معاش میں خلل پڑتا ہے۔ زراعت کے شعبے میں بھارتی کسانوں کو کافی مشکلات کا سامنا ہے اور خود کشی کے بڑھتے واقعات نے دنیا کی توجہ اس جانب مبذول کرائی ہے کہ کسان بدترین حالات کا شکار ہیں۔ افسوس ناک صورت حال یہ بھی رہی ہے کہ دونوں ممالک کے کسانوں کو اپنی حکومتوں سے شکایات ہیں تو دوسری جانب بڑھتے درجہ حرارت و قدرتی آفات نے ان کسانوں کو سخت متاثر کیا ہے جن کے پاس گرمی سے بچائوبہت کم یا کوئی اور پناہ نہیں اور جن کی فصلیں چلچلاتی دھوپ میں سوکھ جاتی ہیں یا پھر رہی سہی کسر سیلاب پوری کردیتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (یو این ای پی) کے موسمیاتی تبدیلی کے موافقت کی فنانس ماہر سمالی کھوسلہ کے مطابق ’’انتہائی گرمی کا زراعت پر سنگین اثر پڑ رہا ہے‘‘۔آب و ہوا سے متعلقہ گرمی کا دباؤ خشک سالی اور آبپاشی کے لیے پانی کی قلت کو بڑھا دے گا۔ اس سے کسان متاثر ہوں گے اور متاثرہ ممالک میں غذائی تحفظ کے لیے اضافی مسائل پیدا ہوں گے۔یہ خطہ پہلے ہی غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ دنیا کے دوسرے سب سے بڑے گندم پیدا کرنے والے ملک بھارت نے غذائی قلت کو روکنے کے لیے گندم کی برآمدات پر پابندی لگا ئی۔ اس فیصلے کی وجہ سے گندم کی سپلائی میں کمی آئی اور دنیا بھر میں قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ موسمیاتی بحران کی وجہ سے گرمی کی طویل لہرنے پودے لگانے اور کٹائی کے موسم کو منفی طور پر بھی متاثر کیا۔ اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام (UNEP) کے پائیدار فوڈ سسٹم کے ماہر جیمز لومیکس کے مطابق، یہ ابتدائی گرمیوں اور تاخیر سے مون سون کا باعث بنا ۔تاخیرسے پودے لگانے کے موسم کی وجہ سے گرمی پڑنے سے گندم کی فصل اثر انداز ہونے کے نتیجے میں پیداوار کم ہوئی۔لومیکس نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی عالمی خوراک کے نظام پر مزید دباؤ ڈالے گی۔سب سے اہم امر جو ہم کر سکتے ہیں وہ زراعت کے لیے موسمیاتی تبدیلیوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ ہم ان فصلوں کو متنوع بنا کر قدر کامیابی حاصل کرسکتے ہیں اور موسمیاتی ردو بدل کو مد نظر رکھتے ہوئے بیجوں کی مزید لچکدار اقسام کا انتخاب کر سکتے ہیں۔
سائنس دانوں نے طویل عرصے سے خبردار کیا ہے کہ انسانی آب و ہوا کی تبدیلی تباہ کن لہروں اور اثرات کا باعث بنے گی جو ہم جنوبی ایشیا میں دیکھ رہے ہیں۔

موسمیاتی رد و بدل سے زراعت پر سنگین اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ آب و ہوا سے متعلقہ دباؤ خشک سالی کو بڑھا رہا ہے اور مون سون کے تبدیل ہوتے رجحان نے آبپاشی کے لیے متعین مدت کو بھی غیر یقینی بنادیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی پر ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ، خشک سالی اور سیلاب پہلے ہی پودوں اور جانوروں میں لچک کی حد سے تجاوز کر رہے ہیں۔ موسم کے یہ انتہائی واقعات ایک ہی وقت میں رونما ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ایک سنگین صورت حال پیدا ہوتی ہے جس کو سنبھالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ماحولیاتی ردو بدل کو ایک چیلنج کے طور پر قبول نہیں کیا جارہا ، یو این ای پی کے توانائی اور موسمیاتی ڈویژن کے سربراہ مارک راڈکا کے مطابق گرم سیارے کا مطلب ہے ریفریجریشن، خاص طور پر ایئر کنڈیشننگ کی زیادہ مانگ بڑھتی ہوئی طلب کے ساتھ، توانائی کا پورا نظام زیادہ نازک ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے بجلی کی بندش اور حادثات ہوتے ہیں جو لوگوں کو ڈیزل جنریٹر پر جانے پر مجبور کرتے ہیں، جو گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ کرتے ہیں اور موسمیاتی بحران اور فضائی آلودگی کو بڑھاتے ہیں۔

جنوبی ایشیا کو جھلسا دینے والی ہیٹ ویو اور موسمیاتی رد و بدل دنیا کے دیگر حصوں سے شدید متاثر ہونے میں شدید نقصان میں مزید اضافہ صرف کچھ برس کی بات ہے۔ ماہرین موسمیات پہلے ہی آب و ہوا میں تبدیلی کی پیش گوئی کرچکے ہیں۔ کسان کو حکومت کی معاونت سے نئے رجحان کو دیکھنا اور اپنانا ہوگا ۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو دنیا کے دیگر خوراک پیدا کرنے والے خطوں میں موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے موسمیاتی رد وبدل میں اضافے کا مطلب ہے کہ پہلے سے ہی کمزور عالمی خوراک کے نظام پر مزید دباؤ بڑھ جائے گا۔ تاہم، توانائی کے شعبے کی طرح، زرعی شعبہ موسمیاتی بحران میں فعال نہیں ہے۔ موجودہ زرعی نظام حقیقی معنوں میں زمینی حقائق کے مطابق نہیں، اس لیے کہ ہمارے کھانے کی پیداوار اور استعمال کے طریقے کو تبدیل کرکے لچک پیدا کرنے کے طاقتور طریقے استعمال کرنے کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔ تاہم قدرت کا یہ ایک نظام ہے کہ زرعی شعبہ خود ایک ایسی چیز میں بدل سکتا ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں کو کم کرے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button