تازہ ترینخبریںخواتین

غلطی کی معافی مانگتی ہوں، والدین بھی دل بڑا کرکے معاف کردیں

کراچی سے فرار ہوکر لاہور پہنچ کر ظہیر احمد سے پسند کی شادی کرنے والی دعا زہرہ نے والدین سے معافی مانگتے ہوئے ان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھی انہیں معاف کردیں۔

دعا زہرہ نے شوہر ظہیر احمد کے ہمراہ شادی اور عدالتی کارروائیوں کے بعد پہلے انٹرویو میں اگرچہ والدین سے معافی مانگی، تاہم وہ اس بات پر قائم رہیں کہ انہوں نے کچھ غلط کام نہیں کیا، انہوں نے دین اسلام کی روشنی میں شادی کی۔

یوٹیوبر کو دیے گئے انٹرویو میں دعا زہرہ نے پہلی بار بتایا کہ وہ کس طرح ایک انجان ٹیکسی ڈرائیور کی مدد سے کراچی سے لاہور پہنچیں۔

انہوں نے بتایا کہ انہیں بڑی عمر کے ایک ٹیکسی ڈرائیور کراچی سے لاہور لائے اور انہیں کرایہ بھی ان کے شوہر ظہیر احمد نے دیا۔

ان کے مطابق وہ پہلے سے ٹیکسی ڈرائیور کو نہیں جانتیں تھیں، ان کی منتوں کے بعد ٹیکسی ڈرائیور نے ان پر ترس کھا کر ان کی مدد کی اور خدا نے ان کی حفاظت کی، کیوں کہ وہ ایک اچھے کام کے لیے نکلیں تھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے اور ظہیر کے درمیان پب جی گیم کھیلنے کے درمیان تعلقات استوار ہوئے تھے، جس کے بعد انہوں نے دوسری ایپس پر بھی بات چیت کرنا شروع کردی تھی۔

دعا زہرہ کا کہنا تھا کہ انہوں نے والدہ کو کہا تھا کہ وہ صرف ظہیر سے ہی شادی کریں گی، جس پر ان کی والدہ ناراض ہوگئیں اور ان پر سختیاں کرنے لگیں جب کہ بعد ازاں والد نے بھی ان سے خفا ہوگئے اور انہیں جان سے مارنے کی دھمکی تک دی۔

دعا زہرہ کے مطابق ان کے والد ان کی شادی تایا کے لڑکے سے کرنا چاہتے تھے، جس کے بدلے ان کے والد ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں ایک پلاٹ حاصل کرنا چاہتا تھے۔

انہوں نے ان الزامات کو بھی مسترد کیا کہ انہیں ظہیر احمد یا ان کے گھر والے نشہ دیتے ہیں یا کسی طرح کے انجکشن انہیں لگاتے ہیں۔

ان کے مطابق ان کے سسرال والے بہت اچھے ہیں، ان سے متعلق پھیلائی گئی باتیں جھوٹی ہیں، ان کا تعلق کسی گینگ سے نہیں۔

انہوں نے واضح کیا کہ ظہیر احمد اور ان کے اہل خانہ لاہور کی پنجاب یونیورسٹی کی حدود میں رہائش پذیر تھے، اسی وجہ سے وہ پہلے یہاں پہنچیں تھیں اور ان کے گھر سے نکلنے کا علم نہ تو ظہیر کو تھا، نہ ہی ان کے اہل خانہ کو تھا۔

ایک سوال کے جواب میں دعا زہرہ نے الزام عائد کیا کہ والدین نے ان پر سختی کی کہ وہ عدالت میں جھوٹ بولیں اور جج کو کہیں کہ وہ والدین کے ہمراہ جانا چاہتی ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے والدین نے عدالت میں بھی جھوٹ بولا اور ان پر بھی جھوٹ بولنے کے لیے دباؤ ڈالا۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ایک بار پھر دعویٰ کیا کہ ان کے والدین نے 2005 میں ہی شادی کی تھی اور ان کی پیدائش 2006 میں ہوئی تھی اور ان کی عمر 17 سال ہے۔

انہوں نے والدین کے لیے پیغام دیتے ہوئے کہا کہ اگر ان کے والدین سمجھتے ہیں کہ دعا نے غلطی کی ہے تو انہیں وہ معاف کردیں اور وہ ان سے معافی مانگ رہی ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے والدین کو کہا کہ وہ بڑا دل کریں، انہیں اور ظہیر احمد کو قبول کریں۔

دعا زہرہ کا کہنا تھا کہ وہ مانتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ ان کے والدین تکلیف میں ہیں اور یہ کہ وہ خود بھی تکلیف میں ہیں۔

اسی انٹرویو میں ظہیر احمد نے کہا کہ ان کے اور دعا کے درمیان ساڑھے تین سال سے تعلقات تھے مگر وہ پہلی بار نکاح کے وقت ہی ملے تھے۔

ان کے مطابق انہیں دعا کے لاہور آنے کا پہلے کوئی علم نہیں تھا لیکن جب وہ ان کے گھر پہنچیں تو انہوں نے انہیں واپس بھیجنے کے بجائے ان سے نکاح کیا، انہیں تحفظ دیا اور باقی زندگی بھی انہیں تحفظ دیتے رہیں گے۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ انہوں نے حال ہی میں ایف اے سی کا امتحان پاس کیا ہے اور وہ آئی فون کے موبائل کی مرمت کرواکر انہیں فروخت کرنے کا کاروبار بھی کرتے ہیں، جس سے ان کی ماہانہ آمدن 80 ہزار روپے تک بھی ہوجاتی ہے۔

ظہیر احمد نے کہا کہ اگر جن لوگوں کو ان پر شک ہے تو وہ لاہور کے حفیظ سینٹر آکر ان کی موبائل فونز کی دکان دیکھیں۔

انہوں نے ان تمام افراد سے بھی معافی مانگی جنہیں ان کی وجہ سے تکلیف پہنچیں، تاہم انہوں نے دعا زہرہ کے والدین کو مخاطب ہوکر ان سے معذرت نہیں کی۔

دعا زہرہ اپریل کے وسط میں گھر سے لاپتہ ہوگئی تھیں، جنہیں ایک ہفتے بعد پنجاب میں بازیاب کرایا گیا تھا، اس وقت انہوں نے ظہیر احمد سے شادی کرلی تھی۔

بعد ازاں انہیں پنجاب اور نسندھ پولیس نے سندھ ہائی کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں بھی پیش کیا اور دعا زہرہ عمر کے تنازع کی وجہ سے میڈیکل بورڈ کے سامنے بھی پیش ہوئی تھیں اور رواں ماہ جون کے آغاز میں عدالتوں نے انہیں اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق دیا تھا۔

دعا زہرہ نے عدالتی احکامات کے روشنی میں ظہیر احمد کے ساتھ زندگی گزارنے کو ترجیح دی، تاہم ان کے والدین تاحال ان کے کم عمر ہونے کا بہانا بنا کر احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button