ColumnQadir Khan

افغانستان سے امن اب بھی ’’ ایک خواب‘‘

پیامبر
قادر خان یوسف زئی
افغان طالبان15 اگست 2021میں34صوبائی دارالحکومتوں میں سے23پر قبضہ کر چکے تھے، دوحہ معاہدے کے بعد افغان طالبان تیزی سے پیش قدمی کر رہے تھے اور صورتحال واضح تھی کہ مکمل افغانستان جلد ان کے قبضے میں ہوگا، جب انہوں نے14اگست 2021کو مزار شریف پر قبضہ کیا اور ان کا رخ کابل کی جانب ہوچکا تھا تو دوسرے اضلاع کی طرف بھی تیزی سے پیش قدمی جاری تھی اور ہزاروں لوگوں نے کابل کا رخ کیا کہ شاید اس پر قبضے میں کچھ وقت لگے گا تاہم کابل ایک ریت کی دیوار ثابت ہوا اور جب کابل محل میں افغان طالبان داخل ہو رہے تھے تو اشرف غنی حواس باختہ ہوکر فرار ہوچکے تھے۔ اس سے قبل دوحہ قطر معاہدے کے مطابق قیدیوں کی رہائی کا ایک سلسلہ جاری تھا، دوحہ معاہدے کے تحت غنی انتظامیہ نے پانچ ہزار قیدیوں کو افغان طالبان کی دی گئی فہرست کے مطابق رہا کیا بعد ازاں دوسری فہرست میں مزید 400قیدیوں کو بھی رہا کیا گیا جن پر سنگین نوعیت کے الزامات بھی تھے ۔ پنج شیر وادی کے علاوہ افغان طالبان کو کسی دوسرے ضلع میں زیادہ مزاحمت کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا اور وہ علاقے بھی ان کے قبضے میں آگئے جو ان کے پہلے دور حکومت میں بھی نہیں آئے تھے۔
افغان طالبان نے 40برس کی جاری جنگ میں بلا شرکت غیرے پہلی بار مرکزی حکومت حکومت قائم کی اور ، نیشنل ریزسٹنس فرنٹ جیسے مخالف گروپوں سے خطرات کو کامیابی سے روکا۔ انتظامی تبدیلیاں کیں ، یہ ایک اہم امر ہے کہ جب افغان طالبان اضلاع پر قبضے کررہے تھے تو جیل توڑ کر قیدیوں کو بھی رہا کر دیتے تھے جس میں ان کے اتحادی بھی شامل تھے جو مسلح مزاحمت کے لئے افغانستان میں باہر سے آئے تھے ، امریکہ اور غنی انتظامیہ کے خلاف ان کی سرگرمیاں افغان طالبان کے لئے معاون تھی اور انہوں نے مسلح جنگجوئوں کی بھرپور کمک حاصل کی۔ افغان طالبان نے سیکیورٹی، حکمرانی اور انسانی حقوق کے حوالے سے بین الاقوامی وعدے پورے نہیں کیے، جس کی وجہ سے کسی بھی ملک نے ان کی حکومت کو بھی تسلیم نہیں کیا۔
پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے ، ریاستی اقدامات کی وجہ سے انتہا پسندوں کے خلاف متعدد فوجی آپریشن کئے گئے ، جس کے نتیجے میں شمال مغربی سرحدی علاقوں میں ریاست کی رٹ بھی قائم کی گئی ، انتہا پسند مسلسل آپریشن کا سامنا نہ کر سکے اور افغانستان میں روپوش ہوگئے ، جہاں انہوں نے عالمی انتہا پسند تنظیموں کے ساتھ اتحاد و الحاق کیا اور نیٹو افواج کے خلاف کارروائیوں میں افغان طالبان کا ساتھ دیا ، کابل کی فتح تک کالعدم تنظیموں نے اپنے قدم افغانستان کی سرزمین پر مضبوطی سے مضبوط کرلئے تھے۔ تاہم انہوں نے پاکستان کے خلاف کارروائیوں میں شدت لانا شروع کردی تھی ۔ پاکستان ، افغانستان میں ا افغان طالبان پر مکمل انحصار کئے ہوئے تھے لیکن ایسا ہو نہ ہوسکا ، کیو نکہ ان کے ٹی ٹی پی کمانڈروں کے ساتھ مضبوط تعلقات تھے جنہوں نے امریکی افواج کے خلاف ان کی مزاحمت کی حمایت کی تھی۔ ٹی ٹی پی کے خلاف طاقت کا استعمال افغان طالبان کے اندرونی اختلافات کا سبب بن سکتا تھا۔
سابق وزیراعظم عمران خان افغان طالبان کی فتح کے بعد افغان طالبان کی دی گئی ثالثی پیش کش پر راضی ہوگئے اور پھر پاکستانی حکومت اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) کے درمیان مذاکرات کے کئی دور افغان طالبان کی ثالثی میں ہوئے۔ اگست 2021 میں افغان طالبان کے افغانستان پر قبضے کے بعد پاکستانی حکومت کے حکام نے ستمبر2021میں کابل کا دورہ کیا۔ مذاکرات کے نتیجے میں وزیر اعظم عمران خان، صدر عارف علوی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ٹی ٹی پی جنگجوئوں کے لیے عام معافی کی پیشکش بھی کی۔ رسمی مذاکرات کا عمل نومبر 2021میں شروع ہو چکا تھا ، افغان طالبان نے کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستان کے ساتھ مذاکرات پر آمادہ کیا۔ ٹی ٹی پی نے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان کیا۔ ان مذاکرات میں افغان طالبان کے وزیر داخلہ سراج الدین حقانی ثالث کا کردار ادا کرتے رہے۔ افغان طالبان نے ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں کئی اہم طریقوں سے ثالثی کا کردار ادا کیا، اور اس میں خفیہ اور عوامی مذاکرات دونوں طرح کی سہولت افغان طالبان نے فراہم کی، انہوں نے کابل میں ٹی ٹی پی اور پاکستانی حکام کے درمیان خفیہ مذاکرات کی ثالثی کی، جس کے بعد ٹی ٹی پی اور پاکستانی قبائلی رہنماں کے درمیان عوامی ملاقاتیں بھی ہوئیں۔
اسٹریٹجک پوزیشننگ کے طور پر افغان طالبان کے ثالثی کا طریقہ پیچیدہ اور اسٹریٹجک تھا، انہوں نے ٹی ٹی پی کو صرف دباتے ہوئے نہیں بلکہ مذاکرات کی حوصلہ افزائی کی، اور اپنے ثالثی کے کردار کو علاقاءی سلامتی پر اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیا۔ پاکستان نے مشرقی افغانستان میں فضائی حملوں اور افغان طالبان قیادت کی نقل و حرکت اور سرحدی تجارت کو محدود کرنے کا دبائو ڈالا۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے مذاکرات پر جزوی طور پر اس لیے رضامندی ظاہر کی تاکہ افغان طالبان کے سیاسی مسائل کم ہوں، کیونکہ افغان طالبان نے عالمی برادری سے معاہدہ اور وعدہ کیا تھا کہ وہ دوسرے ممالک کے لیے خطرات پیدا ہونے کی اجازت نہیں دیں گے۔ افغان طالبان کی مداخلت نے پاکستان کے مذاکرات کے حوالے سے موقف پر نمایاں اثر ڈالا، پاکستان نے دو سال تک محتاط سفارتی طریقہ اختیار کیا، طالبان اور ٹی ٹی پی کے تعلقات پر براہ راست تنقید سے گریز کیا حالانکہ افغان طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کو پناہ دینے اور مادی مدد فراہم کرنے کے شواہد موجود تھے۔
کالعدم ٹی ٹی پی کے مطالبات میں 2018میں فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام کو واپس لینا، سابقہ فاٹا علاقوں سے پاکستانی فوجی دستوں کی کمی اور افغان طالبان طرز کی شریعت کا نفاذ شامل تھا ، اضافی مطالبات میں پاکستانی جیلوں سے 102ٹی ٹی پی کمانڈرز اور جنگجوئوں کی رہائی، جن میں دو اہم شدت پسند کمانڈرز ( مسلم خان اور محمود خان) کے لیے صدارتی معافی، کسی تیسرے ملک میں سیاسی دفتر کھولنے کی اجازت، مالاکنڈ ڈویژن میں ٹی ٹی پی ارکان اور سرگرمیوں کے لیے آزادانہ نقل و حرکت شامل تھے۔ جب پاکستان نے ان مطالبات کو پورا نہیں کیا، تو مذاکرات ناکام ہوگئے کیونکہ پاکستانی حکام بھی مذاکرات کے معاملے پر تقسیم تھے اور حکومت افغانستان میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کا دوسرا ہم سلسلہ پی ڈی ایم حکومت میں مئی2022 شروع ہوا۔، مذاکرات کے مطالبات ناقابل قبول تھے اور بالاآخر یہ بھی ناکام ہوئے۔ صورتحال کے بگڑنے پر پاکستان نے یہ تسلیم کرتا ہے کہ افغانستان سے امن اب ’’ ایک خواب‘‘ بن چکا ہے۔ فتنہ الخوارج سے بار بار مذاکراتی دور ہوئے لیکن افغان طالبان اسے اپنی پالیسی کی وجہ سے قابل عمل نہ بنا  سکے۔

جواب دیں

Back to top button