ColumnRoshan Lal

مہنگی بجلی، سستی شہرت اور تختیاں

تحریر :روشن لعل
مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف نے اپنی بیٹی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے ہمراہ کی گئی پریس کانفرنس کے دوران پہلے تو یہ کہا کہ انہیں مہنگائی اوربجلی کے زائد بلوں پر عوام کے کرب کااحساس ہے اور اس کے بعد خود کو نااہل کیے جانے کی لمبی کہانی بیان کرتے ہوئے اپنی سابقہ حکمرانی کا ایسے ذکر کیا جیسے ان کے دور میں یہاں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں۔ اس کے بعد انہوں نے یہ اعلان کیا کہ پنجاب حکومت نے اگست اور ستمبر کے بلوں میں عوام کو فوری ریلیف دینے کا فیصلہ کیا ہی ۔ اس فیصلے کے مطابق پنجاب میں500یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو بلوں میں 14روپے فی یونٹ کی رعایت دی جائے گی۔ اطلاعات کے مطابق، پنجاب حکومت بجٹ میں مختلف شعبوں کے لیے مختص کیے گئے فنڈز میں سے 45ارب روپے نکال کر پنجاب کے عوام کو بجلی بلوں میں عارضی رعایت فراہم کرے گی۔
میاں نوازشریف اور مریم نواز کی مذکورہ اعلان کے بعد ان کے حامیوں نے اس اقدام کو عوام دوست اور ملک کی دیگر صوبائی حکومتوں کے مقابلہ میں فراخدلانہ فیصلہ قرار دیا ۔ دوسری طرف ان کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہی کہ کیپیسٹی چارجز کے سبب مہنگی ترین بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کی لوٹ مار کے خلاف مہم شدت اختیار کرنے کے بعد جب کمپنیوں سے ناعاقبت اندیش معاہدے کرنے والی مسلم لیگ ن کے خلاف عوامی رائے ہموار ہونے لگی تو اس ی پنجاب حکومت نے صوبے کے پبلک سیکٹر ڈویلمپنٹ پروگرام سے 45ارب روپے نکال کر لوگوں کو دو مہینے کے لیے رعایتی بجلی فراہم کرنے کا اعلان کر کے ان کی آنکھوں میںدھول جھونکنے کی کوشش کی ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ وطن عزیز میں اگر کسی سیاسی جماعت کے حامی اس کی قیادت کی عقیدت میں اندھے ہوتے ہیں تو مخالفین بھی آنکھیں بند کر اپنی مخالفت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں تجزیہ نگاروں پر یہ لازم ہو جاتا ہے کہ وہ حقائق جاننے کے خواہشمند لوگوں کے سامنے بلا جھجھک اور بلا مبالغہ ایسی باتیں لے کر آئیں جنہیں حامی اور مخالف جان بوجھ کر پس پردہ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر سرسری طور پر پنجاب حکومت کی طرف سے صوبے کے لوگوں کو دو مہینوں کے لیے رعایتی بجلی کی فراہمی کے معاملے کو دیکھا جائے تو یہی کہنا واجب لگتا ہے کہ ایک صوبائی حکومت نے مہنگی بجلی استعمال کرنے والے لوگوں کو کسی دوسرے صوبے کا حق مارے بغیر اپنے فنڈز پر انحصار کرتے ہوئے چاہے دو ماہ کے لیے رعایتی بجلی کی فراہمی کا بندوست کیا ہے تو اس پر کسی سیاسی مخالف یا دوسرے صوبے کی حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اس معاملے کو اگر گہرائی میں جا کر پنجاب حکومت کے مالیاتی امور ، اس صوبے کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کے مسائل اور مجموعی طور پر حکومت کی گورننس کے حوالے سے دیکھا جائے تو ایسی باتیں سامنے آتی ہیں جن پر ابھی تک نہ مریم نواز کے حامی و مخالفین نے اور نہ ہی رعایتی بجلی کی فراہمی کے اقدام کا تجزیہ کرنے والے مبصروں نے غور کیا ہے۔
اگر خاص طور پر تجزیہ نگاروں کی بات کی جائے تو ان لوگوں نے پنجاب حکومت کی طرف سے 14روپے فی یونٹ رعایت دینے کے معاملے کا تجزیہ کرتے ہوئے جن باتوں کو نظر انداز کیا ہے ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ 45 ارب روپے کوئی چھوٹی رقم نہیں ہوتی ، جون 2024ء میں اعلان کردہ پنجاب کے بجٹ میں کہیں بھی اتنی بڑی رقم اس مد میں مختص کیے جانے کا ذکر نہیں ہے جس مد میں اب اسے خرچ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ بجٹ سازی ، ایک خاص عمل کے تحت کی جاتی ہے جس کے مطابق تمام تر سرکاری اداروں سے آئندہ مالی سال کے لیے ان کے ورک پلان طلب کیے جاتے ہیں اور طلب کردہ ورک پلان جب وصول ہوتے ہیں تو ان میں ایک ایک ضروری کام کی تفصیل ، اس کام کے جواز کی نشاندہی اور اس جواز کے تحت فنڈز کی فراہمی کی درخواست کی گئی ہوتی ۔ جن بنیادوں پر رواں سال کے لیے پنجاب کا بجٹ تیار ہوا، اس میں اس 45ارب روپے کے خرچ کا کہیں جواز موجود نہیں ہے، جس کا اعلان میاں نوازشریف اور مریم نواز نے اپنی مذکورہ پریس کانفرنس میں کیا۔ صاف ظاہر ہے کہ جس 45ارب روپے کے خرچ کا کہیں جواز موجود نہیں ہے اسے ان مختص فنڈز میں سے نکالا جائے گا جن کا جواز ظاہر کرنے کے لیے بجٹ دستاویزات کئی مہینے تک تیار کی جاتی رہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس طرح سے 45 ارب روپے بجٹ سے نکالنے کا مشورہ پاکستان میں اسحاق ڈار کے علاوہ کوئی اور نہیں دے سکتا کیونکہ ماضی میں بھی وہ مبینہ طور پر صحت اور تعلیم جیسے شعبوں کے لیے مختص فنڈز میں کٹوتیاں کر کے ایسے منصوبوں کے لیے رقم فراہم کرتے رہے جن کی بدولت شریف خاندان سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کو اپنے نام کی تختیاں لگا کر سستی شہرت حاصل کرنے کے مواقع مل سکیں۔
شریف خاندان سے تعلق رکھنے والے حکمرانوں کے متعلق یہ بات مشہور ہے کہ ، ضروری یا غیر ضروری کی پرواہکیے بغیر، ایسے منصوبے شروع کرنا ان کی ترجیح ہوتی ہے جس پر جلد از جلد ان کے نام کی تختی لگ سکے۔ تختی لگانے کے شوق میں ان لوگوں نے بیرونی قرضے لے کر پنجاب میں ایسے منصوبے شروع کیے جن کے بغیر بھی گزارہ ممکن تھا۔ واضح رہے کہ پنجاب کا 2022۔23کا بجٹ 3226بلین روپے کا تھا جبکہ اس کا کل واجب الادا قرض جون 2023ء میں 1707.5 بلین روپے تھا ۔ اس قرض کی رقم میں سے 2.26بلین روپے وفاق سے لیے گئے تھے جبکہ بیرونی ایجنسیوں سے لیے گئے قرض کی کل رقم 1704.9بلین روپے تھی۔ مارچ 2022ء میں پنجاب کے قرض کا حجم 1650.2بلین روپے تھا جو جون 2023ء میں 1707.5بلین روپے ہو گیا ۔ ملک کے دوسرے صوبے بھی پنجاب کی طرح ہی مقروض ہیں مگر وہاں کے حکمرانوں کو شریف خاندان کی طرح اپنے نام کی تختیاں لگوانے کا زیادہ شوق نہیں ہے۔
پنجاب کو دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ خوشحال کہا جاتا ہے ، اسی خوشحال صوبے میں خزانہ خالی ہونے کا رونا رو کر سرکاری ملازموں کی پینشن اور لیو انکیشمنٹ رولز میں ایسی ترامیم کیں جن کی وجہ سے انہیں ریٹائرمنٹ کے وقت اور اس کے بعد پینشن کی مد میں ملنے والے واجبات میں نمایاں کمی ہو چکی ہے۔ واضح رہے کہ ر وفاق اور دیگر صوبوں کے سرکاری ملازموں کو لیو انکیشمنٹ اور پنشن کا جو حق حسب سابق حاصل ہے اس سے صرف پنجاب کے سرکاری ملازموں کو محروم کیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز اگر عوام کے معاشی مفادات کے تحفظ کے لیے دیگر صوبوں کا مقابلہ کرنا چاہتی ہیں تو پھر انہیں 45ارب روپے بجلی بلوں میں عارضی رعایت پر خرچ کرنے کی بجائے اپنے صوبے کے سرکاری ملازموں کو دیگر صوبوں کے سرکاری ملازموں کی طرح پینشن اور لیو انکیشمنٹ کا حق دے کر سرخرو ہونا چاہیے، ورنہ جو کام کرنے کا انہوں نے اعلان کیا ہے اسے اپنے نام کی تختی لگا کر سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش کے علاوہ کچھ اور نہیں سمجھا جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button