سپیشل رپورٹ

برطانیہ کے ارکان پارلیمنٹ کا پی ٹی آئی کی صورتحال کو ’بین الاقوامی‘ سطح پر اجاگر کرنے کا مشورہ

برطانوی پارلیمنٹیرینز نے اشارہ دیا کہ وہ 2022 میں اقتدار سے نکالے جانے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو درپیش مبینہ دھمکیوں اور ہراساں کیے جانے پر پی ٹی آئی کے کیس کو ’بین الاقوامی سطح پر‘ اجاگر میں مدد کرنا چاہیں گے۔

کنزرویٹو کے لارڈ ڈینیئل ہنان کی جانب سے یہ ریمارکس منگل کو ہاؤس آف لارڈز میں منعقدہ ایک تقریب کے دوران سامنے آئے، جس میں ایک درجن سے زائد اراکین پارلیمنٹ کے سامنے پی ٹی آئی رہنماؤں نے انتخابی دھاندلی، قانون کی حکمرانی کی خرابی اور عمران خان کے قید کے ساتھ ساتھ گرفتاریوں اور اغوا کے ذریعے بڑھتی ہوئی سنسر شپ بارے میں آگاہ کیا۔

لارڈ ڈینیئل ہنان اور برطانوی پاکستانی لیبر ایم پی ناز شاہ کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والی اس تقریب میں ٹوری کی سابق ہوم سیکریٹری پریتی پٹیل، بیرونس سعیدہ وارثی، ومبلڈن کے لارڈ طارق احمد اور لیبر ایم پی نوشابہ خان سمیت دیگر نے بھی شرکت کی۔

یہ ملاقات امریکی ایوان نمائندگان کی طرف سے بھاری اکثریت کے ساتھ دو طرفہ قرارداد منظور کرنے کے چند ہفتوں بعد سامنے آئی ہے، جس میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا تھا اور پاکستان میں انسانی حقوق کی وسیع پیمانے پر خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی تھی۔

یہ تشویش منگل کی بحث کے دوران بھی کی گئی جب ناز شاہ نے پریتی پٹیل کو مذاق میں کہا کہ اگر برطانیہ میں پاکستان کی طرز کے ووٹوں کی گنتی ہوئی ہوتی تو آپ کی پارٹی اب بھی حکومت میں ہوگی۔

لارڈ ڈینئیل حنان نے کہا کہ پاکستان کے دوست ہونے کے ناطے ہم دوست ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتے۔

ناز شاہ کا کہنا تھا کہ میں اس نکتے کو دہراتی ہوں کہ ہم پاکستان کے دوست ہیں، یہ پاکستان مخالف میٹنگ نہیں ہے ، یہ ایک پرو پاکستان میٹنگ ہے۔

ناز شاہ نے مزید کہا کہ ماضی میں انہوں نے نہ صرف پاکستان میں صحافیوں کی گرفتاریوں کے بارے میں بات کی ہے بلکہ ’بنگلہ دیش یا مودی کے بھارت میں جب آزادی صحافت اور اقلیتوں کے حقوق کی بات آتی ہے تو کیا ہو رہا ہے‘، اس کے بارے میں بھی بات کی ہے۔

“آپ یا تو انسانی حقوق کے درست سمت کی طرف ہو سکتے ہیں یا نہیں، آپ پک اینڈ چوس نہیں کر سکتے، ہم پوری دنیا میں اسی طرح کا پیمانہ استعمال کرتے ہیں لیکن پاکستان میرے لیے ذاتی مفادات کے لحاظ سے قریب ہے۔

اپنے تبصروں کے دوران، ٹوری پیر نے مشورہ دیا کہ برطانوی پارلیمنٹیرینز اس مسئلے کو (پی ٹی آئی کی دھمکیوں کے) برطانیہ سے باہر بین الاقوامی شکل دے سکتے ہیں۔

ٹاوری پیر نے مشورہ دیا کہ میں چاہوں گا کہ ہم اپنے ساتھیوں کی طرف سے امریکا اور آسٹریلیا میں منتخب اراکین کو ایک کراس پارٹی لیٹر بھیجیں جب متعدد قانون سازوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں سے پوچھا کہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ان کی طرف سے کیا ٹھوس اقدامات کیے جا سکتے ہیں؟

الیکشن کے مسائل

حال ہی میں انتخابی دستاویزات کا جائزہ شائع کرنے والی پٹان آرگنائزیشن کے سربراہ سرور باری نے بھی اجلاس سے خطاب کیا، ان دستاویزات نے پی ٹی آئی کے انتخابی عمل میں بے ضابطگیوں اور دھاندلی کے اکاؤنٹس کی حمایت کی تھی۔

انہوں نے کہا کہ ہم الیکشن کمیشن کے ڈیٹا کا آڈٹ کر رہے ہیں، تازہ ترین آڈٹ میں، ہم نے انتخابی حلقوں کے تمام فارم 47 کے نتائج کا جائزہ لیا، 265 حلقوں میں سے جہاں انتخابات ہوئے، ہمیں 208 فارم 47 میں سنگین مسائل جیسے حساب کی غلطیاں نظر آئیں، 74 فیصد فارمز میں عہدیداروں نے اپنا نام یا وہ جگہ نہیں لکھی جہاں انتخابات ہوئے تھے۔

انہوں نے ارکان پارلیمنٹ کو بتایا کہ انتخابی عہدیداروں نے الیکشن نتائج دکھانے کے لیے غلط دستاویزات کو اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا اور بعد میں انہیں تبدیل کر دیا۔

جیل میں قید سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی بیٹی اور 8 فروری کے انتخابات میں امیدوار مہر بانو قریشی نے اس انتخابات کو فاشسٹ ہتھکنڈوں کے ساتھ کیے جانے والے بے مثال انتخاب قرار دیا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ٹی آئی پر پابندی ہے،انہیں ٹی وی پر آنے کی اجازت نہیں، عمران خان کا نام کوئی نہیں لے سکتا اور ہماری پوری قیادت جیل میں ہے۔

مہر بانو قریشی نے انتخابی عمل کے آڈٹ کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اپنی بات کا اختتام کیا، انہوں نے بتایا کہ پاکستان کے عوام سے کہا جا رہا ہے کہ آپ کے ووٹ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ کی آواز سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں آپ سے کہتی ہوں کہ پاکستان میں عوام اور جمہوریت کے لیے بات کریں۔

عمران خان کے سابق معتمد اور معاون زلفی بخاری نے کہا کہ وہ اور پارٹی اس تقریب کے حوالے سے کافی دباؤ میں تھے۔

زلفی بخاری نے بتایا کہ اس واقعہ کی اتنی کڑی نگرانی کی جا رہی تھی کہ میری میڈیا ٹیم پر کریک ڈاؤن ہوا، جس کے ارکان کو صبح 3 بجے اغوا کر لیا گیا، ہمارے سیکرٹری اطلاعات کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا، بین الاقوامی میڈیا جتنی بلند آواز میں آتا ہے، ہم پر اتنا ہی دباؤ آتا ہے۔

انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کے سوشل میڈیا لیڈز میں سے ایک کو کہا گیا کہ وہ اس تقریب میں شرکت نہ کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم عدلیہ سے بہت امیدیں لگا رہے ہیں، یہ کامل نہیں ہے، لیکن جج اس کو آگے بڑھائیں گے ، ہم خصوصی سلوک نہیں چاہتے مگر ہم صرف قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button