ایران کے خلاف آپریشن ایگل کلا: صحرائے طبس میں امریکی فوج کی تاریخی ناکامی

1980 میں امریکی فوج نے ایران کے خلاف پیچیدہ ترین فوجی آپریشن کا فیصلہ کیا تاہم ریت کے طوفان کی وجہ سے امریکی فوج کو بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
مہر خبررساں ایجنسی کے مطابق 24 اپریل 1980 کو امریکی فوج کے خصوصی دستے ڈیلٹا فورس نے تہران میں یرغمال بنائے گئے امریکی سفارتکاروں کو رہا کرانے کے لیے ایران کے شمال مشرقی علاقے طبس کے صحرا میں ایک خفیہ فوجی آپریشن انجام دیا، جو بدترین ناکامی پر منتج ہوا۔
یہ آپریشن اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کے حکم پر انجام دیا گیا اور Operation Eagle Claw کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مشن کی ناکامی کی بنیادی وجہ طبس کے صحرائی علاقے میں آنے والا شدید ریت کا طوفان تھا، جس نے نہ صرف پروازوں میں رکاوٹ پیدا کی بلکہ مشینری کو بھی شدید نقصان پہنچایا۔
یہ کارروائی اس وقت عمل میں آئی جب اسلامی انقلاب 1979 کے بعد ایرانی انقلابی طلبا نے تہران میں امریکی سفارتخانے جسے ایران میں "جاسوسی کا اڈہ” کہا جاتا ہے، پر قبضہ کر کے 52 امریکی اہلکاروں کو یرغمال بنالیا تھا۔ طلبا امریکہ سے مطالبہ کر رہے تھے کہ سابق ایرانی شاہ محمد رضا پہلوی کو ایران واپس بھیجا جائے تاکہ وہ اپنے جرائم پر عدالتی کارروائی کا سامنا کرے۔
آپریشن کے لیے امریکی افواج نے بری، بحری، فضائی اور میرینز کے دستے شامل کیے۔ 16 اپریل کو صدر کارٹر نے اس منصوبے کی منظوری دی۔ آپریشن کی شروعات 24 اپریل کو اس وقت ہوئی جب USS Nimitz سے 8 RH-53D سی اسٹالین ہیلی کاپٹرز نے اڑان بھری تاکہ ایران کے جنوب مشرق میں واقع مقام "ڈیزرٹ ون” پر 6 C-130 طیاروں کے ساتھ مشترکہ مشن انجام دیں۔ تاہم سخت ریت کے طوفان نے نہ صرف ہیلی کاپٹروں کو شدید نقصان پہنچایا بلکہ کئی اہلکار بھی بیمار ہو گئے، جس کے بعد صدر کارٹر نے آپریشن منسوخ کرنے کا حکم دیا۔ اس دوران ایک ہیلی کاپٹر ایندھن سے بھرے C-130 سے ٹکرا گیا جس سے آگ لگ گئی، جس میں 5 امریکی فضائی اہلکار اور 3 میرینز ہلاک ہو گئے۔
اس تاریخی ناکامی کو صدر کارٹر کی سیاسی ساکھ پر کاری ضرب سمجھا جاتا ہے اور مبصرین کے مطابق یہی ناکامی ان کی 1980 کے انتخابات میں شکست کا ایک اہم سبب بنی۔
رہبر انقلاب اسلامی امام خمینی نے اس واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ طبس کا ریت کا طوفان "خدا کی طرف سے بھیجے گئے سپاہی” تھے جو جارح فوج کو سزا دینے آئے۔ امام خمینی نے مزید کہا کہ کارٹر نے ایران کی خودمختاری کی خلاف ورزی کا حکم صرف اپنی انتخابی جیت کے لیے دیا تھا۔
45 سال گزرنے کے بعد آج ایران دفاعی میدان میں نہ صرف خودکفیل ہوچکا ہے بلکہ دشمن کے کسی بھی حملے کا مؤثر جواب دینے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔