Column

یکم رمضان، امریکی پادری کا اہلیہ سمیت قبول اسلام

نذیر احمد سندھو

یکم رمضان کو امریکی سیاہ فام پادری نے اہلیہ سمیت غزہ میں اسلام قبول کر لیا قبل اس کے یہ بتائوں وہ کون ہے پہلے اس نے اسلام کی قبولیت کی کیا وجہ بیان کی بتائونگا ۔ فرماتے ہیں غزہ کی ایک مسجد کا ایک امام عمر میرا ذاتی دوست ہے ہم 10سال دوست ہیں مگر عمر نے مجھے کبھی اسلام قبول کرنے کا نہیں کہا البتہ یہ کہا کرتا تھا میں 8سال دعا گو ہوں اللہ مجھے اور آپ کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے۔ میں نے اسلام فلسطینیوں کے درد تکالیف اور رب پر پختہ یقین کو دیکھ کر قبول کیا۔ فلسطین سے زیادہ خطرناک جگہ اور کوئی نہیں، فلسطینیوں کی زندگی ایک درد بھری داستان ہے وہ ملبے سے اپنے پیاروں کی لاشیں نکال رہے ہیں مگر پھر بھی جینے کی راہ تلاش کر رہے ہیں۔ یہی وہ عزم صمیم ہے جس نے مجھے متاثر کیا یہی وہ پختہ یقین ہے جس نے مجھے اسلام قبول کرنے کی راہ دکھائی۔ وہ فرماتے ہیں میں نے اہلیہ کو نہ تجویز دی نہ قبول اسلام کی طرف راغب کیا یہ انکا خالصتاً ذاتی فیصلہ ہے وہ ایک عرصہ سے فلسطینیوں کے درمیان رہ رہی ہیں۔ قارئین یقینا آپ کے ذہن میں سوال ابھرا ہو گا وہ کون ہے۔ کیسی شخصیت ہے کیا تعارف ہے۔
محترم سابق پادری ہیں نام شان کنگ ہے یہ بہت سی کتابوں کے مصنف ہیں۔ انسانی حقوق کے علمبردار ہیں خصوصاً سیاہ فام افریقیوں کی آواز ہیں۔ وہ خود بھی سیاہ فام ہیں اور نسل پرستی کا شکار بن چکے ہیں۔ جب وہ اسکول میں تھے تو انہیں دس سفید فام امریکیوں نے تشدد کا نشانہ بنایا، وہ زخمی تھے تو ان پر گھر میں گھس کر سفید فام نسل پرستوں نے حملہ کیا اور ان کی Ribsتوڑ دیں انکی کی ریڑھ کی ہڈی کے کئی آپریشن ہوئے اور وہ دو سال تک علیل رہے۔ وہ اسکول کے زمانے سے ہی پادری بننا چاہتے تھے، شان کی علالت کے دوران ایک پادری متواتر ان کی عیادت کو آتے رہے جن کے حسن سلوک نے انہیں بہت متاثر کیا اور شان نے پادری بننے کا فیصلہ کیا۔ شان کا کہنا ہے جن تکلیفوں سے وہ گزرے ہیں انہی کی بدولت انہوں نے انسانی حقوق کے علمبردار بننے کا فیصلہ کیا۔ شان نے سیاہ فام نوجوان مائیکل برائوون کے قتل پر تحقیق کی اور قاتل امریکی پولیس آفیسر ڈیرن ولسن کے موقف، اس کی جان کو برائون سے خطرہ تھا، لہذا اس نے self defenceمیں برائون کو قتل کیا، کی تردید کی اور غلط ثابت کیا۔ شان کنگ سوشل میڈیا پر کئی تنظیمیں چلا رہے ہیں جنکی وجہ سے وہ ہمیشہ تنازعات میں گھرے رہتے ہیں۔ شان کنگ نے زندگی کا آغاز امریکی ریاست کینٹکی سے کیا یہ وہ ریاست ہے جس میں پہلی مسجد ایک عرب کمپنی نے تعمیر کروائی ۔یہ بھی ایک سیاہ فام غلام کی کہانی ہے۔ ایک یہودی کمپنی جو ریاست کینٹکی میں جنگلات کی کٹائی کا کام کرتی تھی افریقہ سے غلام اغوا کرکے لاتی اور ان سے درختوں کی کٹائی کی بیگار لیتی، ایک سیاہ فام غلام خاموشی سے جنگل میں غائب ہو گیا کمپنی کے سپروائزر سمجھے غائب ہو گیا ہے اس سے پہلے تلاش کے لئے نکلتے وہ واپس آ گیا سب حیران ہوئے اس سے دریافت کیا تو اس نے بتایا میں مسلمان ہوں اور نماز پڑھنے گیا اسے اجازت مل گئی۔ کچھ سال بعد ایک عرب کمپنی نے اسی جنگل میں عمارات تعمیر کا کام شروع کیا اور ایک مسجد بنانے کا پلان کیا۔ مسجد کہاں بنائی جائے یہ ایشو زیر بحث تھا تو ایک پرانے مزدور نے سیاہ فام غلام کی داستان سنائی اور کمپنی نے اسی جگہ پر مسجد کی تعمیر شروع کی جس جگہ پر اس غلام نے پہلی بار نماز ادا کی تھی ۔
شان کنگ کئی اخبارات میں کالم بھی لکھتے ہیں، کالمز میں بھی انکا موضوع انسانی حقوق بلیک لاز پولیس کی بربریت بڑے پیمانے پر قید، پولیس کی قانونی بد انتظامی ہوتے ہیں۔ وہ فلسطینیوں کی حمایت کرتے ہیں جس وجہ سے میٹا نے انسٹا گرام پر ان کا اکائونٹ جس میں لاکھوں فالورز ہیں بند کر دیا ہے مگر اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا وہ فلسطینیوں کی حمائت جاری رکھیں گے۔ اسلام کی قبولیت کا اعلان کرتے وقت انہوں فلسطینی رومال پہن رکھا تھا جس سے فلسطین سے ان کی محبت یگانگت عیاں ہوتی ہے۔ شان کنگ نے اعلان کیا ہم نے اسلامی زندگی کا آغاز یکم رمضان سے کیا ہے یہ دن ہمارے لئے ایک خوبصورت اور بامعنی دن ہے جسے ہم میاں بیوی کبھی بھول نہیں سکتے۔ ہمارا امریکیوں سمیت ساری دنیا کو سلام اور مسلمانوں کو ماہ رمضان مبارک۔ شان کنگ فیس بک پادری کے نام سے بھی مشہور ہیں جب ان سے فیس بک پادری کے متعلق سوال کیا گیا تو وہ خوب ہنسے اور کہنے لگے وہ کرسچین مذہب قبول کر چکے تھے۔ انٹلانٹا میں میں نے ایک گریس کرسچین چرچ بنایا اس چرچ میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو لانے کیلئے میں نے فیس بک اور سوشل میڈیا کا سہارا لیا جس وجہ سے لوگوں نے مجھی فیس بک پادری کہنا شروع کر دیا ۔ شان کنگ کے پانچ بچے ہیں جن میں دو متبنیٰ( Adopted) ہیں بہت سے بھتیجے بھتیجیاں بھی ساتھ رہتی ہیں جن کی کفالت بھی شان کرتے ہیں ۔ دی نیوز میں رپورٹنگ اور کالم نگاری بھی کرتے رہے ہیں، 2016ء دی نیوز چھوڑ دی اور سوشل میڈیا کے ذریعے سوشل ورک پر مکمل توجہ مبذول کر لی۔ سیاست میں بھی شامل رہے وہ ڈیموکریٹ پارٹی کے ایکٹو ممبر تھے۔ کملا حارث وائس پریذیڈنٹ کو بلیک ہونے کی وجہ سے سپورٹ کیا مگر جو بائیڈن کی سپورٹ سے انکاری رہے۔ وہ فلسطین میں دو ریاستوں کے حامی ہیں، ان کا خیال ہے دو ریاستوں کے تسلیم کئے بغیر امن کی راہ پر چلنا نا ممکن ہے، یہ بات اسرائیل اور امریکہ کو جلد سمجھ لینی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button