قیدی نمبر 1772امر ہوگیا، منصف شرمندہ

محمد ناصر شریف
’’ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا’’ شہید ذوالفقار علی بھٹو 5جنوری 1928ء کو سر شاہنواز بھٹو کے ہاں لاڑکانہ میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم کے بعد 1950ء میں برکلے یونیورسٹی کیلیفورنیا سے سیاسیات کی ڈگری حاصل کی اور 1952ء میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے اصولِ قانون میں ماسٹرز کیا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کراچی میں وکالت کا آغاز کیا ذوالفقار علی بھٹو کے والد سر شاہ نواز بھٹو بھی سیاست کے میدان سے وابستہ رہے تھے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے 1958ء میں سیاست کا آغاز کیا اور پاکستان کے پہلے آمر فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کے دورِ میں وزیر تجارت، وزیر اقلیتی امور، وزیر صنعت وقدرتی وسائل اور وزیر خارجہ کے منصب پر فائز رہے۔
ذوالفقار علی بھٹو نے دسمبر 1967ء میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی اور1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان جبکہ عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں نمایاں کامیابی حاصل کی تاہم سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو 1971ء میں پاکستان کے صدر اور پھر 1973ء میں وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں بے پناہ کارنامے انجام دیئے، اُنہوں نے 1973ء میں ملک کو پہلا متفقہ آئین دیا۔ پاکستان کو ایٹمی صلاحیت سے مالامال کرنے کیلئے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کرنے کی بنیاد رکھی۔ دنیا کے 77ترقی پذیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ اسلامی سربراہ کانفرنس کا انعقاد کیا۔ اقوام متحدہ میں جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے کشمیر کے مسئلے کو اجاگر کیا کوئی اور لیڈر آج تک ویسے نہیں کر سکا۔ 5فروری کو یوم کشمیر کے طور پر منسوب اور شملہ معاہدہ انہی کے کارنامے ہیں۔ بھاری صنعتوں، بینکوں اور تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیکر سرمایہ داروں کے چنگل سے آزاد کرنا ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے کارناموں میں شامل ہے ۔ زرعی اصلاحات، سستی ٹرانسپورٹ، خوراک بنیادی مراکز صحت کا قیام اور غریبوں کے لئے علاج کی مفت سہولت، تعلیم اور علاج کے لئے بجٹ کا 43فیصد مختص کرنا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے کارنامے ہیں۔ پاکستانی عوام کو شناخت دینے کے لیے قومی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے قانون سازی اور دیگر اصلاحات کا سہرا بھی ذوالفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور حکومت میں قادیانیوں کو نہ صرف کافر قرار دیا بلکہ قادیانیت کی تبلیغ پر بھی پابندی عائد کی۔18مارچ 1978ء کو ذوالفقار علی بھٹو کو لاہور ہائی کورٹ نے نواب محمد احمد کے قتل کے جرم میں سزائے موت سنائی۔ یوں ملک کے سابق وزیرِ خارجہ، سابق صدر اور سابق وزیرِاعظم نے کوٹ لکھپت جیل کے قیدی نمبر 1772کی حیثیت اختیار کرلی۔ کون جانتا تھا کہ نواب محمد احمد کا قتل پاکستان کی سیاسی تاریخ کو ہمیشہ کے لیے بدل دے گا۔ یہ واقعہ 11نومبر 1974ء کو لاہور میں پیش آیا۔ نواب محمد احمد، احمد رضا قصوری کے والد تھے۔ وہ بھٹو کے ناقد بھی تصور کیے جاتے تھے۔ 5جولائی 1977ء کو مارشل لا نافذ ہوا اور 3 ستمبر کو معزول وزیرِاعظم کو رات کے اندھیرے میں 70کلفٹن سے گرفتار کرلیا گیا۔ اکتوبر 1977ئ میں یہ کیس لوئر کورٹ کے بجائے ہائی کورٹ پہنچ گیا اور اس میں ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا ہوئی۔6فروری 1979ء کو سپریم کورٹ نے سابق وزیرِاعظم کی اپیل مسترد کردی تھی۔ 24مارچ 1979ء کو سپریم کورٹ میں نظرثانی پٹیشن بھی نامنظور ہوگئی۔
سہالہ ریسٹ ہائوس میں نظر بند بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اچانک 3اپریل کی صبح ملاقات کی اطلاع دی جاتی ہے۔ گاڑی انہیں لے کر 11بج کر 15منٹ پر جیل میں داخل ہوتی ہے۔ اس موقع پر جب بیگم بھٹو نے سپرنٹنڈنٹ پولیس یار محمد سے پوچھا کہ ’’ یہ ملاقات کس سلسلے میں ہے؟ ’’، تو انہیں جواب دیا گیا کہ ’’ میڈم، یہ آخری ملاقات ہے’’۔ اس ملاقات میں وہ عجیب و غریب لمحہ بھی آیا جب بھٹو نے بے نظیر کو ایک طرف ہونے کو کہا اور جیل سپرنٹنڈنٹ کو بلایا اور پوچھا کہ ’’ کیا یہ آخری ملاقات ہے؟ ’’، انہیں جواب ملا کہ ’’ جی سر، سب ختم ہوچکا ہے’’۔بھٹو کی موت کی خبر کو مخفی رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ سہالہ ریسٹ ہاؤس، جہاں بھٹو بیگمات نظر بند تھیں اور پنڈی جیل، دونوں دنیا سے کٹ چکے تھے۔ شہر کے داخلی حصوں پر کڑا پہرا تھا مگر کسی نہ کسی طرح یہ خبر سرحد پار گئی اور 4اپریل 1979ء کو صبح 7بجے آل انڈیا ریڈیو نے سب سے پہلے سابق وزیرِاعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی خبر نشر کی۔ کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹو امر ہوجائے گا اور اس کے مخالفین رسوا ہوں گے۔
سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے 2011میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق فیصلے پر ریفرنس دائر کیا تھا اور گزشتہ 13برسوں کے دوران اس صدارتی ریفرنس پر مجموعی طور پر 12سماعتیں ہوئی ہیں۔ گزشتہ روز سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل سے متعلق صدارتی ریفرنس پر اپنی مختصر رائے جاری کر دی، سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل شفاف نہیں تھا، لیکن فیصلہ کالعدم ہوسکتا ہے نہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود ہے، چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ریفرنس میں دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا فیصلہ عدالتی نظیر ہوسکتا ہے؟ رائے یہ ہے کہ پوچھے گیا دوسرا سوال واضح نہیں اس لیے رائے نہیں دے سکتے، دوسرے سوال میں قانونی سوال نہیں اٹھایا گیا، چیف جسٹس نے کہا کہ عدلیہ نے ڈر اور خوف میں فیصلہ دیا، عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے، عدلیہ ماضی کی غلطی کو تسلیم کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی، عدالت نے کہا کہ سابق وزیراعظم کا لاہور ہائیکورٹ میں ٹرائل فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں ہوا، کسی حکومت نے پیپلز پارٹی کی حکومت کا بھیجا گیا ریفرنس واپس نہیں لیا، صدر نے ریفرنس دائر کرکے بھٹو فیصلے کو دیکھنے کا موقع دیا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم ججز قانون کے مطابق فیصلہ کرنے اور ہر شخص کے ساتھ یکساں انصاف کے پابند ہیں، عدلیہ میں خود احتسابی ہونی چاہیے، ماضی کی غلطیوں کو درست کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ عدالت کی جانب سے ریمارکس دئیے گئے کہ تاریخ میں کچھ کیسز ہیں جنہوں نے تاثر قائم کیا عدلیہ نے ڈر اور خوف میں فیصلہ دیا، ماضی کی غلطیاں تسلیم کیے بغیر درست سمت میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ریفرنس میں 5سوالات اٹھائے گئے تھے، پہلا سوال یہ تھا کہ کیا ٹرائل آئین کے بنیادی انسانی حقوق کے مطابق تھا؟ رائے یہ ہے کہ ذوالفقار بھٹو کو فیئر ٹرائل کا موقع نہیں ملا، نہ ہی ٹرائل آئین اور قانون کے مطابق ہوا، ان کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں ٹرائل اور سپریم کورٹ میں اپیل میں بنیادی حقوق کو مدنظر نہیں رکھا گیا۔ انہوں نے ریمارکس دئیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا ٹرائل شفاف نہیں تھا، ان کی سزا آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی۔ چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے مزید ریمارکس دئیے کہ دوسرا سوال یہ تھا کہ کیا فیصلہ عدالتی نظیر ہوسکتا ہے؟ رائے یہ ہے کہ پوچھے گیا دوسرا سوال واضح نہیں اس لیے رائے نہیں دے سکتے، دوسرے سوال میں قانونی سوال نہیں اٹھایا گیا۔ انہوں نے مزید ریمارکس دئیے کہ تیسرا سوال یہ تھا کہ کیا فیصلہ جانبدارانہ نہیں تھا؟ رائے یہ ہے کہ آئینی تقاضے پوری کیے بغیر ذوالفقار بھٹو کو سزا دی گئی۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دئیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزا کا فیصلہ تبدیل کرنے کا کوئی قانونی طریقہ کار موجود نہیں ہے، آئین اور قانون ایسا مکینزم نہیں فراہم کرتا کہ بھٹو کیس کا فیصلہ اب کالعدم قراردیا جائے، ذوالفقار علی بھٹو کیس میں نظرثانی درخواست خارج ہو چکی، فیصلہ حتمی ہو چکا، ہماری رائے یہی ہے کہ بھٹو کو فئیر ٹرائل کا بنیادی حق نہیں ملا۔ عدالت نے ریمارکس دئیے کہ چوتھا سوال سزا کا اسلامی اصولوں کے مطابق جائزہ لینے کا تھا، اسلامی اصولوں پر کسی فریق نے معاونت نہیں کی، اسلامی اصولوں کے مطابق فیصلہ ہونے یا نہ ہونے پر رائے نہیں دے سکتے۔ عدالت نے مزید ریمارکس دیئے کہ پانچواں سوال یہ تھا کہ کیا شواہد سزا سنانے کے لیے کافی تھے؟ رائے یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزا آئین میں دئیے گئے بنیادی حقوق کے مطابق نہیں تھی، ریفرنس میں مقدمہ کے شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ کی رائے سنتے ہوئے آبدیدہ بھی ہوئے اور رائے کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ ہم امید رکھتے ہیں کہ اب ہمارا نظام صحیح سمت پر چلنا شروع ہو جائے گا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ 44سال بعد تاریخ درست ہونے جا رہی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف دیگر سیاستدانوں کی آرا بھی ایسی ہیں۔
ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے فیصلے سے نا صرف بھٹو خاندان کی زندگیاں برباد ہوئیں۔ بھٹو کے بیٹے دربدر ہوئے، نصرت بھٹو ، بے نظیر بھٹو، صنم بھٹو اور پیپلز پارٹی کے ہزاروں کارکن کسی کی انا کی بھینٹ چڑھے اور بغیر کسی جرم کے وہ سزائیں اور سختیاں بھگتیں ہیں جن کا گمان بھی مشکل ہے۔
آخر میں ہم چیف جسٹس اف پاکستان، تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان اور عدالتی افسران سے گزارش کرتے ہیں کہ اس عدالتی اور پولیس کے نظام کو درست کرنے کے لیے کچھ کریں یہ عدالتی اور پولیس کا نظام لاکھوں پاکستانیوں کی زندگیوں کو برباد کر چکا ہے اور اگر درست نہیں کیا جائے گا تو کتنی بے نظیر ، نصرت بھٹو ناکردہ گناہوں کی سزائیں بھگتیں گی۔