Column

خواجہ سعد رفیق کے نام سے آپ سب واقف ہونگے

فیاض ملک
4 نومبر 1962 کو اندرون لوہاری گیٹ میں پیدا ہونیوالے خواجہ سعد رفیق سے کون واقف نہیں، اپنے عظیم والد خواجہ رفیق شہید اس کیلئے رول ماڈل ہے جس کو دیکھتے ہوئے اس مرد مجاہد نے اپنی سیاسی زندگی خود بنائی ہے، زمانہ طالب علمی میں وہ معروف سٹوڈنٹ لیڈر تھا، زندگی کیلئے اس کے کیا خیالات ہیں یہ تو پوری طرح مجھے معلوم نہیں مگر میں یہ اچھی طرح جانتا ہوں کہ وہ سیاست اور پارٹی سیاست دونوں کو ساتھ ساتھ رکھنے میں ہمیشہ کامیاب رہا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سے تعلق رکھنے والے خواجہ سعد رفیق اپنی سیاسی زندگی میںوہ دلیر آدمی ہے جو جانتا ہے کہ پارٹی لیڈر پاکستان میں پارٹی ڈکٹیٹر ہوتا ہے، اس کی پارٹی کے تو پارٹی لیڈر بھی دو عدد ہیں، یقیناً یہ توازن بھی قائم رکھنا ایک آزمائش ہے، خواجہ صاحب سیاست کی مشکلات میں سے آسانی سے گزر جاتے ہیں، آج کی سیاست کو سمجھنا، اپنے آپ کو بچائے رکھنا اور ناکام نہ ہونا بہت بڑی بات ہے۔ خواجہ سعد رفیق کی ایک خوبی اس کی گفتگو کا انداز بھی ہے، بہت کم لوگ فی البدیہہ اتنا خوبصورت بولتے ہیں، اور اگر گفتگو کی جھلک عملی کام میں بھی دکھائی دے تو آپ کے مخالف بھی آپ کی تعریف پہ مجبور ہو جاتے ہیں، میں بھی خواجہ سعد رفیق کا احترام کرتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ وہ حقیقی سیاسی کارکن ہیں۔ وہ ایسے سیاست دان ہیں جو نچلی سطح سے شروع ہوکر قومی اسمبلی تک پہنچے۔ قومی اسمبلی تک جانے کا یہی سب سے بہتر طریقہ ہے۔ وہ نچلی سطح پر جماعت کو منظم کرنے، کارکنان کو متحرک کرنے اور انہیں گھروں سے نکال کر سڑکوں پر لانے کے فن سے بخوبی واقف ہیں۔ عوام میں رہتے ہیں یہی ان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ وہ اگر موجودہ سیاسی کلچر بلکہ پارٹی کلچر بدلنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ بھی بڑی بات ہوگی، ان کے والد خواجہ محمد رفیق نہ لینڈ لارڈ تھے نہ کارخانہ دار، وہ تجارت پیشہ تھے اور عوام کے جذبات کو بچپن سے سمجھتے آئے تھے۔ کشمیر سے امرتسر، بھوپال اور لاہور تک کے مہاجرت کے سفر اور پھر دہلی سے امرتسر تک تعلیمی اداروں کے ماحول میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ عوامی مسائل سے آگاہی حاصل کر چکے تھے۔ انہوں نے عمر کے کھیل والے دنوں میں مسلم لیگ، قائداعظم اور سچی سیاست کو قریب سے دیکھا اور عملی طور پر اس میں حصہ لیا تھا۔ پانچ حافظ قرآن بہنوں کو سکھوں کے ہاتھوں سے اس طرح جان پر کھیل کر چھڑایا تھا جیسے کوئی اپنی بہنوں کیلئے سر پر کفن باندھ کر نکلتا ہے۔ انہوں نے قیام پاکستان کے متاثرین کی آبادکاری کیلئے بھرپور کردار ادا کیا تھا، خواجہ محمد رفیق نے جمہوریت اور عوام کی خاطر اس وقت اپنی جان کی قربانی دی جب ان کے سب سے بڑے بیٹے اور آج کے نامور سیاست دان خواجہ سعد رفیق کی عمر صرف دس برس تھی۔ لاہور کے شہریوں نے غازی علم الدین شہید کے جنازے کے بعد سب سے بڑا جنازہ پڑھ کر خواجہ محمد رفیق جیسے دلیر اور محبت وطن سیاستدان سے اپنی محبت کا اظہار کیا۔ خواجہ محمد رفیق کی شہادت کے بعد ان کی بیگم صاحبہ نے ان کی سوچ کا پرچم بلند رکھا اور پھر آج میں خواجہ محمد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی سیاست، اصول پرستی اور ہر فورم پر حق گوئی کے انداز کو دیکھتا ہوں تو حیرت نہیں ہوتی، وہ اس لئے کہ ان دونوں بھائیوں کو یہ جرأت، دلیری اور اندازِ سیاست ورثے میں ملا ہے، اس نسبت نے انہیں موت کے خوف سے ابھی تک بچا رکھا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ خواجہ سعد رفیق کی کامیابیوں کے پس منظر میں خواجہ محمد رفیق شہید کی پاک روح کی سرپرستی کا بھی دخل ہے کہ وہ پاکستان کو بہتر ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے تھے اور اب ان کی خواہش کے مطابق ان کے بچے دیانتدار سیاست اور خدمت کی سیاست کے راستے پر گامزن ہیں۔ شہید خواجہ محمد رفیق کے نام پر والٹن لاہور میں جی کے آر ایس (گورنمنٹ خواجہ رفیق شہید) کالج قائم کیا ہے جوکہ بلاشبہ ان کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے اس وقت کی حکومت کا مستحسن اقدام ہے، بلاشبہ زندہ قومیں اپنے شہیدان جمہوریت کو اسی طرح خراج پیش کرکے یاد رکھتی ہیں، یہی نہیں خواجہ رفیق شہید کی باوقار بیوہ نے جس طرح بڑے خواجہ صاحب کی شہادت کے بعد بچوں کی تربیت کی اور انہیں جی داری سے پاکستان کی خاطر لڑنے کیلئے تیار کیا اس پر بیگم خواجہ رفیق شہید کا نام بھی زندہ رہے گا! بیگم خواجہ رفیق شہید نے خوبصورت اور بہترین انداز میں بچوں کی تربیت کی۔ اللہ کرے خواجہ سعد اور خواجہ سلمان اسی طرح سینہ سپر رہیں اور پاکستان کے ’سیاسی یتیموں‘ کا مقابلہ کرتے رہیں۔ اس وقت 8فروری کو ہونیوالے الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کی
جانب سے خواجہ سعد رفیق لاہور کے حلقہ این اے 122 سے ایم این اے کی سیٹ کے جبکہ ان کے چھوٹے بھائی خواجہ سلمان رفیق پی پی 153 سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہیں، ماضی میں ان دونوں بھائیوں کی جانب سے محکمہ ریلوے اور صحت میں کئے جانے والے عوام دوست اقدامات کو دیکھتے ہوئے موجودہ الیکشن میں ان کی کامیابی یقینی دکھائی دے رہی ہے۔ قارئین کرام! اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی بطور سیاسی جماعت عوامی سطح پر جڑیں گہری کرنے میں جہاں ان کے قائدین میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے مختلف میگا پروجیکٹس کی تکمیل کا دخل ہے وہاں خواجہ صاحبان جیسے ایسے سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کا بھی بڑا کردار ہے جو پارٹی کے اجلاسوں میں دل کی بات زبان پر لانے سے نہیں کتراتے اور اس طرح پارٹی بڑی غلطیوں سے بچ جاتی ہے۔ مسلم لیگ نون کے دور حکومت میں وزیر ریلوے رہے۔ یہاں انہوں نے اچھا کام کیا۔ بعد میں یقیناً شیخ رشید ناکام وزیر ریلوے ثابت ہوئے، یہی وجہ ہے کہ ٹرین پر سفر کرنے والے آج خواجہ سعد رفیق کو یاد کرتے ہیں، میاں نواز شریف کو بھی خواجہ سعد رفیق کی صلاحیتوں پر بھروسہ ہے اس لئے ان کو چیلنج سمجھ کر ریلوے جیسا محکمہ دیا جسے سابق ادوار میں لوٹ کر کنگال کر دیا گیا تھا۔ اب وہی ریلوے ہے جہاں سے ان کی دور رس پالیسیوں کی وجہ سے آئے روز اس کی مالی پوزیشن اور ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے اچھی خبریں آتی ہیں اور ملازمین اور حکومت کو سکھ کا سانس ملا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے اپنے دور اقتدار میں وسائل کی کمی کا رونا نہیں رویا بلکہ پاکستان ریلوے کو انہیں ملازمین، ذرائع اور وسائل کے ساتھ ایک محکمہ بنا کر دکھایا کہ ان کے بدترین مخالف بھی اس کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکے، اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے دورِ اقتدار سے پہلے کی ریلوے سیٹ لینا آگ کے دریا میں ڈوب کے جانے جیسا ہی تھا۔ لیکن انہوں نے دکھا دیا کہ مردہ گھوڑوں میں بھی جان پڑ سکتی ہے۔ سفید ہاتھی بھی کام کے بن سکتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ درآمد شدہ لوگ ہی باصلاحیت ہوں بلکہ اپنے ساجھے، حمیدے، گامے اور پھجے بھی کارآمد ہوسکتے ہیں۔ بس آپ طے کر لو کہ ان سے کام لینے والا سعد رفیق ہو اور ہاں خواجہ سعد رفیق کے نام سے آپ سب واقف ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button