ColumnTajamul Hussain Hashmi

کیا یہ لڑائیاں جمہوری ہیں؟

تجمل حسین ہاشمی
غیر دستاویزی اکانومی کس کیلئے آسانی پیدا کرتی ہے؟ اس سے کون لوگ متاثر ہوتے ہیں؟ سہولیات کی کمی اور محرومیوں کا کس کو سامنا ہے؟ ریاست کو معاشی کمزور کون سے عناصر کرتے ہیں؟ معاشرہ کیسے دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے؟ تمام بنیادی سوالوں کو سمجھنے کیلئے تعلیم ہونا ضروری ہے، ہم اپنی بات کرتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارے ہاں معیار تعلیم کیا ہے۔ یہ غیر دستاویزی اکانومی کیا ہے؟ پاکستانی معیشت کو مشکلات سے نکلنے کیلئے اپنی معاشی سرگرمیوں کو تبدیل کرنے کی انتہائی ضرورت ہے۔ پوری دنیا اس وقت موسمی تبدیلی سے متاثر ہے اور دبئی COP28میں 130ممالک کے عالمی رہنما موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کیلئے خوراک کے نظام کو تبدیل کرنے پر متفق ہیں۔ ہمارے ہاں صرف ایک سیکٹر بجلی کے نظام کی تبدیلی کیلئے سنہ 2030تک 101بلین ڈالر کی ضرورت ہے۔ کیسے ہوگا؟ کوئی پلاننگ نظر نہیں آتی، ابھی تو بنیادی مسائل کا کوئی حل نہیں ملا۔ تین تین باریاں لگانے کے بعد بھی ابھی تمنا باقی ہے۔ پوری دنیا ٹمپریچر میں اضافہ سے متاثر ہورہی ہے، عالمی لیڈر متحرک ہیں۔ دنیا اس وقت زراعت پر فوکس کر رہی ہے اور پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جس کی حالت ایسی ہے کہ 10ارب تک کا اجناس امپورٹ کرتا ہے۔ سابقہ وزیر احسن اقبال نے سابقہ بجٹ میں E5پروگرام ترتیب دیا تھا، آج کل تو جناب دانیال عزیز کو جواب دے رہے ہیں، تنقید کو جمہوریت کا حسن کہنے والے، اب اپنے ہی رہنما سے جواب طلبی پر آگئے ہیں، جمہوری برداشت ختم اور دوسرے کو غیر جمہوری ہونے کے تانے دیئے جا رہے ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ معیشت ہے سیاست نہیں۔ معیشت اس وقت غیر پیداواری سیکٹر میں پھنس چکی ہے جوکہ خطرناک حد تک ہے، ہمارے سیاسی قائدین اقتدار کے حصول کیلئے ریاستی مفادات کو ایک سائیڈ کر رہے ہیں اور سیاسی جنگ یا سیاسی اقتدار کو ہر دور میں بڑا مسئلہ بناکر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کا تاجر اپنا پیسہ گولڈ، ریئل اسٹیٹ اور ڈالر میں لگا چکا ہے، یہ تینوں غیر پیداواری کاروبار ہیں، غیر پیداواری سیکٹر میں محنت کم اور مال زیادہ ملتا ہے۔ ایسے کاروبار سے ملک ترقی نہیں کرتے لیکن چند سو خاندان قابض ہو جاتے ہیں، اس سے دولت چند خاندانوں اور افراد کے ہاتھوں میں سکڑ جاتی ہے اور یہ چند سو گروپ بناکر مافیا کی شکل اختیار کرکے ریاست کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اپنی مرضی کے قانون اور فیصلے کرانے لگ جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں یہ غیر پیداواری کاروبار کا مارکیٹ میں حصہ دن بہ دن زیادہ ہوتا جارہا ہے جس سے بیروزگاری میں اضافہ اور پیداواری سیکٹر میں انویسٹمنٹ کی کمی کا سامنا ہے، دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے معاشرہ تفریق کا شکار ہورہا ہے، غیر دستاویزی معیشت کا فائدہ بھی ان سو خاندانوں کو ہے جو اس وقت کسی نہ کسی صورت میں حکومت کا حصہ ہیں یا جن کا تعلق ان طاقتور حلقوں سے ہے جن کے خفیہ اثاثے اربوں روپوں میں ہیں۔ لیکن حکومت کے پاس ان کے گوشوارے لاکھوں میں ظاہر ہیں، ایسے کئی سو افراد ریاست پر کسی نہ کسی صورت میں حکمران ہیں اور اپنی مرضی سے معاشی نظام کو جکڑے ہوئے ہیں۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں میں اقتدار کی جنگ جاری رہنے کی بنیادی وجوہات ان کی دولت اور خود کو ریاستی احتساب سے محفوظ رہنا ہے، کاروباری شخص کی سیاست میں انٹری کا مقصد اپنے کاروبار کو تحفظ دینا تھا اور وہ کئی برسوں سے سیاسی جماعت کا کامیاب لیڈر ہے۔ چوتھی باری کا منتظر ہے۔ کامیاب لیڈر پیلی ٹیکسی سے نوجوان کو روزگار دینا چاہتا تھا، ایسے ویژن والے لیڈر ہمارے ہاں ہیں۔ اپنی غیر پیداواری اور غیر دستاویزی مارکیٹ کو یہ خود قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ دستاویزی معیشت ان افراد کو سوٹ کبھی نہیں کرے گی جن کے اربوں روپے سائیڈ پر ہیں، ہمارے 60فیصد افراد جن کے گھر کا چولہا ٹھیک سے نہیں جلتا، یہ معیشت ان کی مرہون منت ہے، ان کا تو سب کچھ دستاویزی ہے۔ سب سے زیادہ ٹیکس وصولی 60فیصد والوں سے ہوتی ہے، ملک اس وقت تک معاشی مشکلات سے نہیں نکل سکتا جب تک ان چند سو خاندانوں کو غیر دستاویزی مارکیٹ سے نکال کر دستاویزی نہیں بنایا جاتا، جہاں تک سیاست کا تعلق ہے تو یہاں ہر جماعت نے اپنا منشور بنایا ہوا ہے لیکن درحقیقت کوئی ایک جماعت بھی اپنے منشور پر کاربند نہیں ہے، سیاسی جماعتوں کو ان کے اپنے منشور پر عمل کرانے کیلئے سرکاری اداروں اور عدالتوں کو ایکشن لینا چاہئے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے سرکاری ملازمین کو سیاست سے دور رہنے کا حکم دیا، ان کو آئین پاکستان کی پاسداری پر عمل کرنے کا پابند کیا لیکن یہاں تو سب کچھ الٹ ہے، سیاسی جماعتوں نے بیوروکریٹس کو اپنے ناموں سے منسوب کیا ہوا ہے اور وہ ان کے مفادات کے تحفظ میں ہر قانون کو بلڈوز کرتے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے حقیقی مسائل کو دوسرے اور سیاست کو پہلے درجے پر رکھا گیا ہے، کوئی ایک دن ایسا نہیں جس میں سیاست کے علاوہ عوامی مسائل کے حل میں کوئی کردار ہو، چھوٹی جماعتیں لسانی بنیادوں کو ہوا دے کر اپنا ووٹ بینک رکھتی ہیں۔ دنیا 2050کی پلاننگ کر رہی ہے اور ہمارے ہاں سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ پر وقت ضائع کیا جارہا ہے، سیاست کا دستور نرالا ہے، باپ وزیراعظم اور بیٹا وزیراعلیٰ اور ہزاروں رہنما جمہوریت اور ملک کی خدمات کرنا چاہتے ہیں اور لاکھوں لوگ ان کے جلسوں میں جاکر مہنگائی اور سہولیات کے جیسے جھوٹے بیانیہ کے پیچھے کھڑے ہو جاتے ہیں، معصوم لوگوں کو کہاں معلوم کہ معیشت کے حوالہ سے ہمیشہ جھوٹ بولا جاتا ہے اور سیاست میں کوئی سچا نہیں، پھر آپ ہی بتائیں کہ ملک کیسے ترقی کرے گا؟ کوئی ایک مسئلہ نہیں، یہاں ہزاروں مسائل ہیں۔ اب ایسے نہیں چلے گا، نیشنل یونٹی حکومت بنا لیں لیکن کام چلتا ہوا نظر نہیں آرہا، تفریق اور تقسیم میں اضافہ ہورہا ہے، قانون کے نفاذ میں انسانی تفریق کو ختم کریں اور چند سو افراد پر مشتمل 10سالہ حکومت بنائیں جو صرف معیشت پر کام کرے اور دنیا بھر میں موجود سفیروں کو کاروباری ٹارگٹ دیں، ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی کارکردگی کو سامنے لایا جائے، نیا کاروبار پیدا کیا جائے، نئے تاجروں کیلئے نئے پلان دیئے جائیں، دنیا بھر کی طلب کو پورا کرنے کیلئے پلاننگ کی جائے، ملک اس طرح اب چلنے والا نہیں ہے، اداروں کو سیاست سے نکل کر نئے پیداواری کاموں کیلئے راستے بنانا ہوں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button