ColumnNasir Naqvi

کب تک دھوکہ کھائیں گے؟

ناصر نقوی
76سالوں میں پاکستانی عوام نے ترقی، خوشحالی اور سنہرے خوابوں کے نام پر اس قدر دھوکے کھائے کہ جب کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ پاکستان ہے، یہاں اسی طرح اقتدار کی باریاں لگی رہیں گی، نہ کوئی تبدیلی آئے گی اور نہ ہی بے چاری عوام کچھ نیا کر سکے گی۔ پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے ایوبی آمریت کو للکار کر عوامی جذبوں کو تقویت دینے کے لیے تحریک چلائی تو پذیرائی تو ملی لیکن اقتدار کے باوجود ان کی کسی نے چلنے نہیں دی، اس لیے کہ وہ استحصالی نظام کے مدمقابل سوشلزم جیسی بلا کا تحفہ دے کر غریبوں کے لیے ’’ روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ لگا بیٹھے، پہلے دنیا کے طاقتوروں نے ’’اسلام کارڈ‘‘ استعمال کرا کے بھٹو کو لینے کے دینے کی سیڑھی چڑھا دی، پھر بھی زور کم نہ ہوا بلکہ ’’اسلامی تاریخ کانفرنس‘‘ نے اسے ’’مسلم امہ‘‘ کا لیڈر بنا دیا، لہٰذا انکل سام ناراض ہو گئے۔ وہ ملکی سطح پر مخالفین اور تنقید کرنے والوں، راستوں کی رکاوٹوں کو فکس اَپ کرنے کی دھمکی دیتے رہے۔ دنیا کے سازشیوں، استعمار کے آقائوں نے آمر مطلق جنرل ضیاء الحق سے انہیں پھانسی پر چڑھوا دیا لیکن جب عوامی آگ ٹھنڈی نہ ہوئی تو اس کی پارٹی کے خاتمے اور رہنمائوں کو قید و بند کا راستہ دکھا دیا۔ پھر بھی کچھ جیالے اکڑے تو ’’کوڑے‘‘ اور ’’ٹک ٹکی‘‘ اُن کا استقبال کرنے لگی لیکن حقیقت یہی ہے کہ نہ سیاسی جدوجہد ختم ہوئی نہ ہی پیپلز پارٹی، بلکہ بھٹو پھانسی چڑھ کر بھی زندہ ہے۔ یہی نہیں، ا س کے چاہنی والوں کی للکار ہے کہ تم کتنے بھٹو مارو گے؟ ہر گھر سے بھٹو نکلے گا۔اس کہانی سنانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ کسی کو جان سے مار دینے سے بھی پارٹیاں ختم نہیں ہوتیں، اس لیے کہ ان کا قیام ’’سوچ اور عمل‘‘ سے ہوتا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ’’سوچ‘‘ یا ’’عمل‘‘ میں کوئی خرابی ہو تو پھر یقینا بات بنہیں بنتی۔ 76سالہ پاکستان میں بہت سی پارٹیاں بنیں اور آج ان کا کوئی نام لیوا بھی نہیں، نواب زادہ نصراللہ خاں بابائے جمہوریت کہلائے۔ ان کی للکار بھی ہر دور میں سنی گئی۔ان کے فقرے کی کاٹ بھی محسوس کی گئی۔ پاکستان کی جمہوری تاریخ سے ان کا نام کسی صورت نہ نکالا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان کی جمہوری جدوجہد کو فراموش کیا جا سکتا ہے۔تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ وہ پہلی منتخب حکومت کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف ’’قومی اتحاد‘‘ کے اہم رہنما تھے بلکہ جمہوری تحریک ایم ۔آر۔ڈی میں بیگم نصرت بھٹو اور شہید بے نظیر بھٹو کے ساتھ بھی تھے، یہی نہیں جب پیپلز پارٹی کو اقتدار ملا اور محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بنیں تو ان کی حکومت میں نواب زادہ کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ ان کے وارث موجود ہیں لیکن ’’جمہوری پارٹی‘‘ کو وہ قائم نہیں رہ سکے۔ اسی طرح ہر دور میں گیٹ نمبر چار کی پیداوار فرزند راولپنڈی شیخ رشید احمد وزیر تو بن سکتے ہیں اپنی ایک نشست پر اتحادی بھی ہو سکتے ہیں لیکن ان کے بعد پھر چراغوں میں روشنی بھی نہیں رہے گی کیونکہ ’’عوامی مسلم لیگ‘‘ کے پاس ٹانگے کی سواریاں تک نہیں ہیں ان کا دعویٰ ہے کہ میں سولہ مرتبہ وزیر بنا لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ ان کو وزارتیں صرف ’’ڈیوٹی فل‘‘ ہونے کی وجہ سے ملیں۔ اس بُرے وقت میں ان کا خان مشکل میں ہے اور گیٹ نمبر چار بھی سیل ہو چکا ہے، تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی سیٹ بھی نہ بچا سکیں۔
پاکستان کی معصوم عوام اس وقت انتہائی مشکل میں ہے۔ حکمرانوں کے دکھائے سبز باغ، تو ان کا مقدر نہیں بنا، لیکن مہنگائی جنات نے ان کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے۔ کوئی امید کی کرن دکھائی نہیں دے رہی، لہٰذا وہ اپنے آپ سے ایک ہی سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ’’کب تک، دھوکہ کھائیں گے‘‘ ۔ریاست مدینہ کا پیغام دے کر ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے دعوے دار اپنا پرانا پاکستان بھی کھو بیٹھے، وہ کہتے تھے میں ملک و ملت کی حقیقی آزادی کا علمبردار ہوں میں ماضی کے چور لٹیرے حکمرانوں کو جیل میں ڈال کر سخت ترین احتساب سے قومی خزانے کی دولت واپس لائوں گا، انہیں نہیں چھوڑوں گا، رلائوں گا۔ میں سندیافتہ صادق و امین ہوں، میرا نہ کوئی کاروبار ہے نہ کوئی جائیداد ہے وہ اپنے کھلاڑیوں کو روتا چھوڑ کر خود اپنی آزادی گنوا کر جیل پہنچ چکے ہیں۔ کارکن سہولیات اور ضمانت کے لیے راہ تکتے ہیں کوئی اُن کا پرسان حال نہیں، تو پھر دھوکہ کیوں کھائیں؟ کچھ بھی تو سچ نہیں نکلا، لگتا ہے سب کچھ جھوٹ ہے جنہیں چور، ڈاکو اور لٹیرے کہا گیا انہیں کوئی عام آدمی نہیں ’’نیب‘‘ جیسے قومی ادارے کے ذمہ دار کہہ رہے ہیں کہ جناب ان چوروں، لٹیروں اور کرپٹ لوگوں کے خلاف ہمارے پاس نہ جب کوئی ثبوت تھے ، نہ اب کوئی شواہد ہیں، ہمیں تو سب سے بڑے انصاف کے ادارے کے سب سے بڑے ذمہ دار نے ایک فائل دے کر حکم دیا تھا کہ یہ سب چور ہیں، ان کے خلاف مقدمات بنائو، ریفرنس تیار کرو، ایک بھی بچنے نہ پائے، ہم نے حکم پرعمل درآمد کیا لیکن حقیقت اب کھل کر سامنے آئی ہے لہٰذا ہم اپنے کیسزواپس لے لیتے ہیں، ہمیں کسی قسم کا اعتراض نہیں، انہیں مار دیا جائے کہ چھوڑ دیا جائے۔ ان حالات میں عوام کنفیوز ہیں کہ اگر ’’سچ مچ‘‘ بات یہی درست ہے پہلا موقف دھونس اور دھاندلی تھا تو کل جب ’’وقت‘‘ کروٹ لے گا ، قید و بند کا مزہ چکھنے والے حقیقی طور پر آزاد ہو کر باہر آ جائیں گے تو کیا ’’نیب‘‘ اور عدالتی ذمہ داران ہمیں پھر یہی کہانی سنائیں گے کہ پچھلے حکمرانوں نے زیادتی کی، سیاسی انتقام لیا گیا ورنہ یہ تو عدالت عظمیٰ سے سند یافتہ صادق و امین ہیں۔ مستقبل میں بھی ’’نیب‘‘ افسران آج کے افسران کا ایکشن ری پلے چلائیں گے تو کیا ہم سب پھر مٹھائیاں تقسیم کریں گے اور خوشیاں منائیں گے؟ کچھ سمجھ نہیں آ رہا، ہم کب تک دھوکہ کھائیں گے؟
میں اس وقت نویں یا دسویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ صدر جنرل محمد ایوب خان اپنے اقتدار کی کامیابی کی دسویں سالگرہ منا رہے تھے، پورے ملک میں جشن منایا جا رہا تھا کہ ان کے وزیر خارجہ ذوالفقار علی بھٹو اچانک کابینہ سے باہر آ گئے، انہوں نے اپنی جوشیلی تقاریر اور طوفانی دوروں سے عوامی سطح پر سوچ کا ایک انقلاب پیدا کر دیا کہ صدر ایوب خان نے اپنی آمریت کو طول دینے کے لیے قوم کو جشن اقتدار کا تحفہ دیا، یہ تو عوام دشمن اور استعماری قوتوں کا ایجنٹ ہے۔ یہ نام نہاد ترقی اور خوشحالی کی خوشخبریاں سنا کر ’’امریکہ بہادر‘‘ کی تابعداری میں مصروف ہے اس نے لنگڑا لولا آئین بھی پامال کر دیا۔ حقیقت میں جمہوریت ملک و ملت کی ترقی و بقاء کی بنیاد ہے۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے اور میں عوامی طاقت سے اقتدار حاصل کر کے آئین اور قانون کی حکمرانی قائم کروں گا۔ میں گواہ ہوں کہ 1965ء کی جنگ اور معاہدہ تاشقند میں کیا کچھ ہوا میں یہ راز فاش کروں گا اور ایک روز ’’تاشقند‘‘ کی ’’بلی‘‘ تھیلے سے باہر آ جائے گی۔ مجھے عوامی خوشحالی کے گُر آتے ہیں لہٰذا میں صرف ایک نعرے کو عوامی فلاح وترقی کی بنیاد سمجھتا ہوں اور پھر عوامی اجتماعات میں پُرجوش انداز میں نعرہ لگایا ’’مانگ رہا ہے ہر انسان، روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ یقینا یہ نعرہ عوامی نبض پہچان کر لگایا گیا تھا اس لیے اس سے پذیرائی ملی، حالانکہ ’’سوشلزم‘‘ تنقید کا نشانہ بنا اسے گرم سے نرم کرنے کے لیے اسلامی ٹچ میں اسلامی سوشلزم بھی قرار دیا گیا لیکن بات نہیں بنی، پھر بھٹو صاحب کے قریبی ساتھی، صحافی، دانشور، مصور سابق وزیراعلیٰ پنجاب محمد حنیف رامے نے اسلامی سوشلزم کا ترجمہ ’’مساوات محمدی‘‘، بھی کر دیا لیکن اسلام پسندوں نے اس کے خلاف بھی زبردست تحریک چلائی اور اسے عوامی مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی۔ بھٹو صاحب تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے مشترکہ آئین بنانے میں کامیاب ہو گئے لیکن اس ’’اسلامی کانفرنس‘‘ کا تاریخی کارنامہ امت مسلمہ کو اکٹھا کرنا، مغرب کے طاقت وروں کو ایک آنکھ نہ بھایا اور پاکستانی سیاستدانوں کی مدد سے ’’نظام مصطفیٰ‘‘ کی تحریک اور الیکشن میں دھاندلی کے بہانے سے ملکی بدامنی پیدا کی گئی جس کا انعام منتخب عوامی حکومت کی چھٹی اور جنرل ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت کی شکل میں ملا، پھر ’’امریکہ بہادر‘‘ کی چاکری میں ’’ اسلام اور نظام مصطفیٰ‘‘ کی میٹھی گولی قوم کو دے کر افغان جہاد ہمارا نصیب بنایا گیا، ہم روس سے ٹکرائے اور اسے پاش پاش کرنے پر اتراتے رہے۔ بعدازاں ہوش میں آئے تو پتہ چلا جو کچھ ہوا وہ دھوکہ تھا، 12سالہ ضیائی دور میں پیپلز پارٹی اور جمہوریت کو دفن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، دہشت گردی، کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن جیسی منشیات کا تحفہ ملا اور اسی دہشت گردی کی نذر جنرل ضیاء الحق اپنے قیمتی جنرلوں کے ساتھ ختم ہو گئے، تاہم نہ پیپلز پارٹی ختم ہوئی نہ جمہوریت بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی بے نظیر بھٹو اقتدار میں آ گئی، عوام کو جمہوریت اور ترقی و خوشحالی کے نام پر کھٹی میٹھی گولیاں دی جاتی رہیں، میاں نواز شریف کو ’’ اسلامی اتحاد‘‘ کا امیدوار بنا کر پنجاب سے وفاق میں وزیراعظم کی کرسی پر بٹھا دیا گیا۔ دونوں دو دو مرتبہ وزارت عظمیٰ کے حقدار ٹھہرے لیکن جب نواز شریف بھاری مینڈیٹ پر فخر کرتے ہوئے اپنی من مانیوں میں مصروف تھے تو نادان دوستوں نے انہیں مختلف معاملات میں سپہ سالار پرویز مشرف سے لڑا دیا۔ کارگل واقعہ بنیاد بنا اور پھر نواز شریف کے ایک فیصلے پر ردعمل میں نواز شریف اٹک جیل کے مہمان بن گئے اور پرویز مشرف زبردستی کے صدر، سیاستدانوں اور عدلیہ نے ان کے ہاتھ بھی مضبوط کئے۔ عوام ترقی و خوشحالی اور مملکت کے مشترکہ مفادات پر دھوکہ کھاتی رہی، حکومت بدلی تو بہت کچھ بدلا، پہلے بلوچستان سے ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے پھر عارضی بازی چودھری شجاعت حسین کو بھی مل گئی لیکن حقیقی لاٹری بیرون ملک سے شوکت عزیز کی نکلی، نواز شریف معاہدہ کر کے سعودی عرب چلے گئے مسلم لیگی متوالے قید و بند کو مقدر سمجھ کر بھگتتے رہے لیکن نہ نواز شریف سے جان چھٹی اور نہ ہی مسلم لیگ ن کو ختم کیا جاسکا۔ موجودہ صورت حال میں تحریک انصاف اور عمران خان سے جان چھڑانے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے۔ عمران نے ناتجربہ کاری میں اپنے پائوں پر کلہاڑا مار لیا ہے لیکن نتائج ابھی تک حاصل نہیں ہوسکے۔ انتخاب انتخاب کے شور میں عوام ایک مرتبہ پھر ’’کنفیوز ‘‘ ہے لیکن دھیمے لہجے میں یہ ضرور پوچھ رہی ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے میں ووٹر کو بھی کبھی عزت ملے گی کہ نہیں۔۔۔۔ ہم کب تک دھوکہ کھائیں گے؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button