ColumnImtiaz Aasi

انتخابی مہم اور تحفظات

امتیاز عاصی
اب تو عدالتوں نے بھی محسوس کر لیا ہے ساری جماعتوں کو آزادانہ طور پر اپنی انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیںہے۔ ملک میں سو سے زیادہ سیاسی جماعتوں میں واحد پی ٹی آئی ایسی ہے جس کے لئے انتخابی مہم کے دروازے بند ہیں۔ پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جناب ابراہیم نے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس کو واضح طور پر کہہ دیا ہے ضمانت کے بعد کسی کو دوبارہ گرفتار کیا گیا تو نتیجہ بھگتنے کے لئے تیار رہیے گا۔ عجیب تماشا لگا ہوا ہے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور جے یو آئی یا کوئی اور جماعت جلسہ کرے تو ڈپٹی کمشنر سے فوری اجازت مل جاتی ہے پی ٹی آئی جلسہ کرے تو دفعہ ایک سو چوالیس لگ جاتی ہے۔ کہتے ہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان ایک خود مختار اور آزاد ادارہ ہے۔ جی ہوسکتا ہے فائلوں میں الیکشن کمیشن کے پاس ہر طرح کی آزادی ہو پر موجودہ سیاسی ماحول میں لگتا ہے اس کے پر کاٹ دیئے گئے ہیں۔ اصولی طور پر ان تمام باتوں کا نوٹس الیکشن کمیشن آف پاکستان کو لینا چاہیے جو وہ نہیں لے رہا ہے۔ سانحہ نو مئی کے قصور وار ملک کے بیس کروڑ عوام نہیں بلکہ چند سو مخصوص لوگ ہوں گے جو حراست میں ہیں یا پھر مفرور ہیں۔ کیا نگران حکومت اور الیکشن کمیشن سانحہ نو مئی کی سزا تمام پاکستانیوں کو دینے کی خواہاں ہے۔ ایسی بات ہے کھل کر عوام کو بتا دیں کھیل یکطرفہ ہوگا۔ آئین نے پاکستان کے شہریوں کو ووٹ دینے کا حق دے رکھا ہے البتہ آئین میں کسی مخصوص جماعت کو ووٹ دینے کی قدغن نہیں ہی ۔جب ایسی کوئی بات نہیں ہے تو پھر عوام کو ان کے آئینی حق سے کیوں محروم رکھنے کی کوشش جاری ہے۔ایک طرف اداروں سے ٹکرائو لینے والوں کو بریت سے پہلے ہی پورا پروٹول دے کر عوام پر ظاہر کیا جا رہا ہے آئندہ یہی صاحب آپ کے وزیراعظم ہوں گے۔ نگران حکومت سے معذرت کے ساتھ انتخابات کرا کر غریب ملک کے اربوں روپے کیوں ضائع کئے جاتے ہیں۔ جب عوام کو اپنے حقیقی نمائندے منتخب کرنے کے حق سے محروم رکھا جائے گا تو پھر کیا ہوگا دمادم مست قلندر والی بات ہے۔ نگران حکومت میں مسلم لیگ نون کے حامیوں کی خاصی تعداد کی موجود گی کے باوجود الیکشن میں کامیابی کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی ہے۔ خوف کی بھی انتہا ہوتی ہے خان تو جیل میں ہے نہ جانے کتنے برس اور اس نے جیل میں رہنا ہے۔ عمران خان کے پاس نہ جانے کون سی گیدڑ سنگھی ہے نوجوان نسل پوری کی پوری اس کے سحر میں گرفتار ہے۔ درحقیقت عمران نے مبینہ کرپٹ سیاسی رہنمائوں کی اصلیت عوام پر ظاہر کر دی ہے ۔تعجب ہے ایک طرف نگران وزیراعظم فرماتے ہیں کسی سیاسی جماعت پر الیکشن میں حصہ لینے پر پابندی نہیں ہے ۔سوال ہے پابندی اور کس طرح کی ہوتی ہے جلسہ کرنے کی اجازت پی ٹی آئی والوں کو نہیں ملتی تو ہائی کورٹ کو حکم دنیا پڑ رہا ہے۔انتخابات میں وقت ہی کیا رہ گیا ہے پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ اور جے یو آئی تمام صوبوں میں جلسے کرتے رہیں انہیں جلسوں کی آزادی ہے رہ جاتی ہے پی ٹی آئی جس کے حصے بخرے کرنے کے باوجود تسلی نہیں ہو پارہی ہے ۔پی ٹی آئی کے بہت سے رہنما پریس کانفرنس کر کے نئی جماعت جوائن کر چکے ہیں۔عوام کے ذہنوں کو بدلنے کی کوئی گیدڑ سنگھی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ورنہ تو پنساری کی دوکان سے بآسانی خرید جا سکتی تھی۔یہ تماشا کب تک چلتا رہے گا خان نے تو پی ٹی آئی کی چیئرمین شپ بیرسٹر گوہر کے حوالے کر دی ہے ۔اب الیکشن کمیشن اور کیا کرے گا بلے کا انتخابی نشان سبھی کی آنکھوں کا کاٹنا بنا ہوا ہے۔یہ جو الیکشن ملتوی ہونے کی خبریںویسے گردش نہیں کر رہی ہیں کہیں نہ کہیں بات ضرور ہوئی ہے ورنہ الیکشن کمیشن کو وضاحت کی ضرور ت نہیں تھی۔عمران خان نے انتخابی مہم پر اپنے تحفظات ایک مراسلے کے ذریعے چیف جسٹس آف پاکستان کو ارسال کر دیئے ہیں ۔اب گیند سپریم کورٹ کے کورٹ میں ہے وہ عمران خان کے مراسلے پر کیاکارروائی کرتی ہے۔صورت حال کچھ ضیاء الحق دور والی لگتی ہے پہلے وہ نوے روز میں الیکشن کرانے پر تیار تھے جب انہیں اس چیز کا علم ہوا ذوالفقار علی بھٹو پہلے سے زیادہ مقبول ہو گیا ہے۔پھر انہیں نفاذ اسلام کا خیال آگیا ہے اسلام نافذ کرتے کئی برس گزر گئے ۔نگران حکومت پر شفاف الیکشن کرانے کی بھاری ذمہ داری ہے جس سے وہ پہلو تہی نہیں کر سکتی انتخابات میں گڑ بڑ ہوئی تو دنیا میں شور مچ جائے گا لہذا ملک اور عوام کی بہتری اسی میں ہے شفاف انتخابات کے انعقاد کی طرف قدم بڑھایا جائے اور عوام کی رائے کو عزت دی جائے۔تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں ماحول فراہم کیا جائے ۔ملک کی بڑی جماعت کو دیگر جماعتوں کی طرح انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہ دے کر عوام کو ان کے جمہوری حق سے محروم رکھنے کی کوشش ہو گی لہذا الیکشن کمیشن اور نگران حکومت دونوں کی یہ ذمہ داری ہے وہ انتخابات کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے پی ٹی آئی کے تحفظات کو نوٹس لیں۔ انتخابات روز روز نہیں ہوتے اور نہ ہمارا ملک بار بار انتخابات کا متحمل ہو سکتا ہے ۔قومی خزانی کے اربوں روپے الیکشن کے انعقاد پر خر چ ہو تے ہیں ہمسایہ ملک بھارت میں بھی الیکشن ہوتے ہیں ہم سے کئی گنا بڑا ملک ہے وہاں تو صوبہ وار انتخابات کرائے جاتے ہیں ۔کبھی ایسا تو نہیں سنا کسی جماعت کو الیکشن مہم سے محروم رکھا گیا ہو۔ جیسا کہ ہم پہلے عرض کر چکے ہیں سانحہ نو مئی کے ذمہ دار چند سو افراد ہوں گے جس کی سزا پوری قوم کو نہیں ملنی چاہیے ۔کے پی کے میں ہائی کورٹ نے جلسوں کے انعقاد کے سلسلے میں خاصا سخت فیصلہ دیا ہے۔ سیاسی جماعتوں خصوصا مسلم لیگ نون کی توجہ کا مرکز صوبہ پنجاب ہے جہاں قومی اسمبلی کی سیٹیں تمام صوبوں سے زیادہ ہیں۔ پی ایم ایل کو اس وقت سب سے زیادہ خدشہ اپنے صوبے سے ہے کہیں ہاتھ سے نہ نکل جائے پنجاب کے عوام بھی مبینہ کرپشن زدہ سیاست دانوں کے ہاتھوں کھلونا بننے کو تیار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button