Column

کیا بابوں کی سیاست سے ریٹائرمنٹ پر ملک گل و گلزار ہوجائے گا؟

عبد الرزاق برق
اس وقت ملک میں پہلی مرتبہ سیاست پر براجمان بابوں کو سیاست سے ریٹائر کرنے کی باتیں شروع ہوگئی ہیں، یہ جرات مندانہ بیان پاکستانی میڈیا کے بقول سب سے پہلے ملک کے سب سے پہلے پختہ سیاسی نوجوان اور کامیاب سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے چترال میں جلسے سے خطاب کے دوران دیا۔ بعض لوگ بلاول کے بیان کے بارے میں کہتے ہیں کہ ایسا تو نہیں کہ بلاول بھٹو اقتدار میں آکر بابوں کی سیاست سے ریٹائرمنٹ کے لئے کوئی عمر مقرر کریں گے اور سیاست کو خدمت تک محدود رکھنے کے ساتھ مفادات کی سیاست کی حدود مقرر کریں گے۔ موجودہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا کہ ملک میں عام انتخابات سرپر آ گئے ہیں اور دوسری طرف دوسری بار عمران خان کو سیاست سے باہر کر کے ملک میں ہائبرڈ نظام کی بیل داغ ڈالی جا رہی ہے۔ میرا اس سے سروکار نہیں بابوں کو سیاست سے ریٹائر کرانے کا بیان ایسے وقت میں کیوں دیا گیا ؟ جس سے ملک کی ایک بڑی پارٹی کے اندر کی باتیں میڈیا کے سامنے آنے اور اس رسہ کشی کی وجہ سے اس پارٹی کی پوزیشن کو موجودہ الیکشن میں نقصان تو نہیں ہو سکتا؟ دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ بابوں کو سیاست سے ریٹائر ہو کر گھروں میں بیٹھنے سے ملک میں بدترین مہنگائی ختم ہوجائے گی؟ کیا ملک میں جو عدم استحکام اور دہشت گردی موجود ہے، کیا بابوں کی سیاست سے ریٹائر ہونے سے استحکام آ جائے گا ؟ کیا بابوں کے سیاست سے ریٹائر ہونے سے ملک کو جو اہم مسائل درپیش ہیں وہ جلد ہی حل ہوں گے، اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ بابوں کا سیاسی باب بند ہونے اور نوجوان قیادت کے اقتدار میں آنے سے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی ؟ کیا یہ وقت روٹھنے کا ہے ؟ ہم کیسے دور میں داخل ہوگئے ہیں کہ باپ بیٹے کے اور بیٹا باپ کے سیاست پر قبضے سے ڈرتا ہے؟۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ اس وقت ملک میں جو نئے ووٹر درج ہوئے ہیں ان کے تعداد آٹھ کروڑ چالیس لاکھ نوجوانوں پر مشتمل ہے، یہ بات بھی سچ ہے کہ ماضی کے آصف زرداری اور آج بلاول بھٹو زرداری میں فرق ہے، ماضی میں بلاول ناراض ہوکر لندن چلے جاتے تھے، ماضی میں ان کا سیاسی تجربہ نہیں تھا اور وہ آصف زرداری کے محتاج تھے۔ پاکستانی میڈیا کے بقول بلاول بھٹو زرداری آج آصف زرداری کا محتاج بچہ نہیں ہے، وہ ایک سیاسی طور پر خود مختار بچہ ہے۔ اب انہیں اپنے باب کی بیساکھیوں کی ضرورت نہیں، کیونکہ بلاول بھٹو اپنے آپ کو بھٹو کا وارث سمجھتے ہیں، مگر اس کے باوجود آصف زرداری بردباری کی سیاست کر رہے ہیں، وہ سیاست کے ماہر ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری اپنے والد یا بابے کی سیاست کی مدد سے ہی یہاں تک پہنچے ہیں، بابے بڑے کارآمد ہوتے ہیں، ان کے بغیر سیاست نہیں چل سکتی ہے نہ پتر وزیراعظم بن سکتا ہے۔ آج بلاول بھٹو جس پوزیشن میں ہیں اگر زدراری نہیں ہوتے تو وہ اس پوزیشن پر نہیں ہوتے۔ ورنہ بھٹو کی جو لیگیسی ہے اس کی وارث فاطمہ بھٹو ہیں لیکن چونکہ غنویٰ بھٹواس پوزیشن میں نہیں تھیں کہ ان کو سپورٹ کرتیں اس لئے اس پوزیشن پر اس وقت بلاول بھٹو ہیں۔ اسی بابے نے ملک کو پہلی بار 18ویں ترمیم دی، دوسری بات یہ ہے کہ اگر ملک کی سیاست سے بابوں کو ریٹائر کیاجائے تو کون بچے گا سیاست میں ؟ کیونکہ اس ملک کی سیاست میں مولانا فضل الرحمان، ایم کیو ایم کے مقبول صدیقی، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، عمران خان، خود پیپلز پارٹی کے اندر بہت سے بابے ہیں جن میں راجہ پرویز اشرف، شیریں رحمان، فرحت اللہ بابر، رضا ربانی بھی شامل ہیں۔ اگر بلاول بھٹو زرداری اپنی پارٹی کے بابوں کو سیاست سے ریٹائر کراتے ہیں تو ان کی پارٹی کے کون سے لوگ اس کی حمایت کریں گے ؟ آصف زرداری پارٹی کے سربراہ ہیں، پی پی کی جو سینٹرل کمیٹی کے ارکان ہیں یا جو پارلیمنیٹرینز ہیں ان میں اکثریت بزرگان پر مشتمل ہے اور یہ سارے پارٹی کے مفاد میں آصف زرداری کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اگر پارٹی پر کوئی برا وقت آئے گا تو میڈیا کی مطابق ایسے حالات میں بلاول بھٹو زرداری کا ساتھ صرف نوجوان ورکر ساتھ دیں گے، جس کے فوری طورپر نتائج جلدی سامنے نہیں آسکتے لیکن بلاول کے اس بیان کی تمام سیاسی پارٹیوں کے نوجوانوں نے تعریف کی ہے، اگرچہ وہ تجربہ کار نہیں لیکن وہ قابلیت کے ساتھ ساتھ پاکستان میں پہلا جرات مند نوجوان سیاستدان بھی ہے۔ اس کے باوجود جو ایشو ان کے اور آصف زرداری کے درمیان چل رہے ہیں انہیں وہ گھر میں چھپا نہیں رکھ سکے، مگر زرداری میں یہ صلاحیت موجود ہے، پچھلے سال بھی بلاول بھٹو نے کچھ اس طرح کا بیان دیا لیکن انہوں نے اس پر قابو پالیا، اب بھی قابو پالیں گے لیکن موجودہ وقت ایسے باتیں کرنے کا نہیں، بلکہ سب سے پہلے انتخابات میں حصہ لیکر کامیابی حاصل کرنی چاہئے اور ایسی حکومت بنانی چاہئے جس میں ملک کے غریب عوام اپنی نمائندگی اور اپنا چہرہ دیکھ سکیں اور بدترین مہنگائی کا سب سے بڑا مسئلہ پہلی فرصت میں حل کرنا چاہئے۔ نئی حکومت کو آتے ہی دہشت گردی کا خاتمہ کرنا چاہئے تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں، اگر ہمارے سیاستدان یا سیاسی پارٹیاں انتخابات میں حصہ لینے علاوہ کسی اور طرف کی بحث میں الجھ پڑے تو پھر ملک کا جو اہم ایشو انتخابات ہے اس میں دلجمعی سے حصہ نہیں لے سکتے۔ ہمیں اور تمام سیاسی پارٹیوں کو چاہئے کہ آنے والے انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لیں تاکہ ان انتخابات کے بعد عوام کو جو اہم اور ضروری مسائل درپیش ہیں انہیں ہر حال میں حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button