ColumnImtiaz Aasi

مولانا کا اعتراف

امتیاز عاصی
جے یو آئی کے امیر مولانا فضل الرحمان نے غلامی سے نکلنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا سیاست دان 76برس عوام سے غلط بیانی کرتے رہے گویا وہ مزید غلط بیانی کے متحمل نہیں ہو سکتے ۔ مذہبی جماعت کی قیادت کرنے والوں کو عشروں بعد سچ بولنے کا کیسے خیال آیا ہے۔ سچ تو یہ ہے مولانا کو عمران خان کے غلامی سے نکلنے کے بیانیے نے غلامی سے نکلنے کا بیانیہ اپنانے پر مجبور کر دیا ہے۔ انتخابات قریب ہیں ملک کی کل آبادی کے قریبا دس کروڑ نوجوان عمران خان کے حامی ہیں۔ پی ٹی آئی دو مرتبہ کے پی کے میں راج کر چکی ہے۔ مولانا کا دعویٰ ہے کے پی کے میں ان کی جماعت کی حکومت بنے گی تاہم بلدیاتی الیکشن کے نتائج کی روشنی میں دیکھا جائے تو جے یو آئی کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ حالانکہ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ نون کی طرح کے پی کے میں بلدیاتی انتخابات میں مولانا کو اپنی جماعت کی مقبولیت کا پتہ چل چکاہے۔ دیر آید درست آید کے مصداق مولانا کے اعتراف کے بعد عوام پر منحصر ہے وہ مولانا کی بات پر کس حد تک یقین کرتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے مولانا کے پاس انتخابات میں عوام سے ووٹ لینے کے لئے قابل تسلیم بیانیے کی عدم دستیابی کے سبب غلامی سے نکلنے کے بیائنے کا سہارا لینے کی کوشش ہو۔افسوس ہے عشروں تک مذہب کی تبلیغ کرنے والے مذہب کے نام پر عوام سے ووٹ حاصل کرتے رہے مگر عملی طور پر وہ کچھ کرنے میں ناکام رہے۔ہم جنہیں اغیارکہتے ہیں مسلمان نہ ہوتے ہوئے وہ بہت سی اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔ ڈنمارک کودیکھ لیں سیدنا فاروق اعظمؓ کے دور کی اصلاحات اپنائی ہوئی ہیں۔ نماز اور قرآن پاک کی تلاوت محض اسلام نہیں اسلام سچائی کے ساتھ اور بہت سی باتوں کا درس دیتا ہے ۔ عجیب تماشا ہے عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ کہنے والے خود عوام سے غلط بیانی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ آج ہمیں جن مشکلات کا سامنا ہے وہ غلط بیانی اور جھوٹے وعدوں کے باعث ہے۔ چنانچہ انہی وجوہات کی بنا عوام روایتی سیاست دانوں کے وعدوں پر یقین کرنے کو تیار نہیں۔ سیاست دانوں نے عوام سے جھوٹے وعدوں کو مطمع نظر بنا رکھا ہی جس سے عوام کا سیاست دانوں پر اعتماد اٹھ چکا ہے۔ ملک میں اور بھی مذہبی جماعتیں ہیں جو سیاست کے ساتھ عوام کی فلاح و بہبود کے لئے دن رات کوشاں ہیں۔ جماعت اسلامی کو دیکھ لیں انتخابات میں کامیابی ہو یا نہ ہو عوام ووٹ دیں نہ دیں عوام کی فلاح و بہبود کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ کئی ایک رفاعی ہسپتال قائم کرکے غریب عوام کا علاج معالجہ بغیر کسی معاوضے کے سرانجام دے رہی ہے۔ ملک میں کوئی ایک جماعت بتا دیں جو ہمہ وقت غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لئے متحرک رہتی ہے۔چند دینی مدارس قائم کرکے تعلیم حاصل کرنے والوں کو دھرنوں کی لئے لے آنا اسلام کی خدمت نہیں ذاتی مفادات کا حصول ہے۔ ہمیں مولانا فضل الرحمان کی راست بازی پر کوئی شک نہیں افسوس اس پر ہے وہ سیاست میں ہمیشہ اسلام کا نام استعمال کرکے عوام سے غلط بیانی سے کام لیتے رہے ہیں ۔ عمران خان کی یہ بات درست ہے ہمیں فرد واحد کی غلامی کی بجائے حق تعالیٰ اور اس کے پیارے رسولؐ کی غلامی کرنی چاہئے۔ اسلام دشمن طاقتوں کی ترقی کی بات کرتے وقت ہمیں اس بات کا خیال نہیں آتا ان کی ترقی میں کون سا راز پنہاں ہے؟ مغربی دنیا میں رہنے والوں کو عدالتوں سے انصاف ملتا ہے ہمارے ہاں انصاف کے حصول کی خاطر عوام کونہ صرف در بدر ہونا پڑتا ہے برسوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ تعلیمی میدان میں ہم سب سے پیچھے ہیں حالانکہ ہمارا دین ہمیں تعلیم کا حکم دیتا ہے۔ جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں سیاسی جماعتوں کے قائدین عوام کو شیشے میں اتارنے میں کوشاں ہیں۔ نواز شریف کی وطن واپس سے پہلے ان کی ہونہار بیٹی مریم نواز کا دعویٰ تھا وہ وطن آکر عوام کو مشکلات سے نکلنے کی نوید دیں گے۔ وطن لوٹنے کے بعد نواز شریف نے انہی باتوں کو دہرایا ہے جن پر پی ٹی آئی دور میں کام ہو رہا تھا۔ پی ٹی آئی دور میں ریکارڈ ترسیلات زر آئیں۔ نواز شریف نے ترسیلات زر میں اضافے کا نام نہیں لیا شائد وہ تارکین وطن سے ناخوش جو ان کی اکثریت عمران خان کی جماعت کی حامی ہے۔ تعجب ہے 76برس غلامی کرنے والے اب غلامی سے کیا نکلیں گے ۔ بدقسمتی سے ملک کی کوئی جماعت ایسی نہیں جس نے آئی ایف ایم کی غلامی نہ کی ہو ۔ عمران خان نے انتخابی مہم میں آئی ایم ایف کی غلامی سے نکلنے کے بہت دعویٰ کئے تھے اقتدار میں آنے کے بعد اس نے وہی کچھ کیا جو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کرتی رہی ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے اللہ اور رسولؐ کے بتلائے ہوئے طریقوں سے ہٹ کر حکمرانی کرنے والے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ ہم جس روز غلامی کا طوق اتار دیں گے ہماری تمام مشکلات حل ہو جائیں گی۔ سیاسی رہنمائوں کو چاہیے وہ عوام سے جھوٹے وعدے کرنا چھوڑ دیں وقت گزرنے کے ساتھ عوام باشعور ہو چکے ہیں وہ سیاسی رہنمائوں کی باتوں پر بہت کم یقین کرتے ہیں۔ سیاسی رہنما ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کی بات کرتے ہیں وہ ملک اور عوام سے مخلص ہوتے تو معاشی مشکلات کے دور میں بیرون ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر ملک کوبحرانوں سے نکال سکتے تھے۔ ملکی سیاست میں بڑی تبدیلی آچکی ہے جس سے امید کی جا سکتی ہے انتخابات میں عوام کرپشن زدہ سیاست دانوں کو مسترد کر دیں گے۔ سیاسی رہنمائوں میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے ایک روز پہلے جو بیان دیتے ہیں اگلے روز اپنے بیان سے یاتو منحرف ہو جاتے ہیں یا اپنے سابقہ بیان کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے بیانات بدل لیتے ہیں جو ان کے دو غلی پن کا عکاس ہے۔ حقیقت یہ ہے بعض اداروں کی کاسہ لیسی کرنے والے سیاست دان عوام سے کبھی مخلص نہیں ہو سکتے بلکہ ان کی سیاست ذاتی مفادات کے گرد گھومتی ہے۔ دیکھتے ہیں مولانا غلامی سے نکلنے کے اپنے بیانیے پر کس حد تک عمل کرتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button