سب دوغلے پن کا شکار ہیں

تجمل حسین ہاشمی
جمہوری جدوجہد کرنے والوں کو کیا ملا، ویسے یہ جمہوری جدوجہد کس کے خلاف تھی، یہ کیسی جمہوری جدوجہد ہے، کس سے جمہوریت کو بحال کرانے کی کوششیں تھیں۔ آج بھی ان کی ہی سنی جاتی ہے جو ملک کے فیصلہ ساز ہیں۔ جو جلا وطنی کو ظلم سمجھتے تھے وہ خود ان کے فیصلے کے منتظر اور اقتدار کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی جماعتیں ہر تین سے چار سال بعد پاکستان کی مقبول ترین جماعت بن جاتی ہیں، نئے سے نئے بیانیوں سے قوم کو بہتر مستقبل کی امید دیتے ہیں اور اقتدار میں آ کر اپنے بینکوں میں اربوں روپے بھر لیے جاتے ہیں۔ آج بھی ان کا طریقہ واردات وہی پرانا ہے لیکن بیانیہ مختلف ہے۔ ملک میں ہر الیکشن میں باریوں کا موسم رہا، وفاقی کابینہ میں وہی لوگ شامل ہیں جو گزشتہ سالوں سے چلے آ رہے ہیں، جو گزشتہ عرصوں سے قوم کے بہتر مستقبل کے وعدے کر چکے ہیں۔ مفاہمت کے چورن کو اقتدار کا حصول بنا رکھا ہے، الیکشن میں ان کو ووٹ بھی ملتے ہیں، کراچی کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کے ڈبوں سے ووٹوں کی بھرمار نکلتی تھی۔ ذمہ دار الیکشن کمیشن کا سسٹم بھی ڈائون ہو جاتا رہا۔ قیام پاکستان کے وقت آبادی 32ملین تھی اور اب کے 24کروڑ ہے۔ آج اتنی بڑی آبادی کے ساتھ بھی ملک کمزور ہے ۔ لیڈنگ پارٹیاں ملکی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بیانیہ کو کامیاب بیانیہ تصور کرتی ہیں، ایک پارٹی جس کو 2018میں اقتدار ملا اس نے تو 9مئی کو تمام حدیں پار کر دیں، 9مئی کو ادارے پر چڑھ دوڑے۔ ان کے الفاظ تھے کہ اگر مجھے نکالا تو میں اور خطر ناک ہو جائوں گا، ان تمام ڈائیلاگ کی اس وقت قوم کو سمجھ نہیں آئی لیکن 9مئی پاکستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا۔ تمام سیاسی قائدین نے ایک بیانہ بنا رکھا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں کام نہیں کرنے دیتی، ان کی چلتی حکومتوں کو گھر بھیجا گیا، لیکن حکمرانی پھر بھی ان کے پاس ہی رہتی ہے، اس کا جواب ان رہنمائوں کے پاس نہیں۔ ان سیاسی قائدین سے کسی ہمت والے نے سوال نہیں کیا کہ اعلیٰ اداروں پر سیاست کب بند ہو گی، ملک کے تین اعلیٰ اداروں پر تنقید اور ان کو اپنی گرفت میں کرنے کی کوششیں کیوں جاری ہیں۔ سیاسی رہنمائوں کی عادت بن گئی ہے ہر جگہ ان کی حکمرانی ہو۔ ان کی توجہ میں غریب نہیں اسی لیے لوگ مسلسل غربت کی سطح سے نیچے جا رہے ہیں اور سیاسی رہنمائوں اور ان کے قائدین کی فیملیوں کے اثاثے راتوں رات ڈبل ہو جاتے ہیں۔ کل تک فرح گوگی کو کوئی نہیں جانتا تھا، آج وہ اربوں کی مالک ہے اور ملک سے باہر ہے۔ بہو اور سسر دونوں کی سیاسی جماعتوں سے وابستگیاں ہیں، اگر اسٹیبلشمنٹ اور اعلیٰ ادارے روک تھام کرتے تو یقینا اس طرح کی لوٹ مار کبھی ممکن نہ ہوتی۔ دوغلا پن تو سیاستدان میں موجود ہے لیکن اس وقت قوم بھی دوغلی بن چکی ہے، ایک شخص ملک کا تین دفعہ وزیر اعظم رہ چکا ہے، دو تہائی اکثریتی اسمبلی کے چار سال اس کے پاس تھے، باقی سال اس کی اپنی جماعت کا رہنما وزیر اعظم بنا، اپنی ہی حکومت میں ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ چلایا گیا، کیسی جمہوریت تھی جس میں عدالتی کارروائی کو انتقامی کہا گیا، چار ہفتے کے لیے باہر گئے، 4سال گزار دئیے، پھر نئے پاکستان کے نعرے گونجے۔ وزیر اعظم سلیکٹڈ ہوا، آج سلیکٹڈ وہاں بند ہے، یہاں پہلے ایک شخص ووٹ کو عزت دو کے چکر میں بند تھا، آج ایک شخص ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ سے کافی دور کھڑا اقتدار کو قریب آتا دیکھ رہا ہے۔ پیپلز پارٹی ابھی سے اداروں کے کندھوں پر آنے کی آوازیں لگا رہی ہے۔ سیاست دوغلی نہیں یہاں ہر فرد دوغلا ہو چکا ہے، عوام امن، انصاف، خدمات، سہولیات کی فریاد کرتے ہیں لیکن ان تمام چیزوں کا قوم میں فقدان ہے۔ جو جمہوری تھے وہ سائیڈ لائن ہو چکے ہیں۔ جلا وطنی والے آرام سی تھے لیکن جمہوری جیلوں میں تھے۔ آج وہ جمہوری کہیں نظر نہیں آتے، مفاہمت کا بادشاہ تو آصف زرداری کو سمجھا جاتا رہا ہے لیکن سیاست پر گہری نظر ڈالیں تو پیپلز پارٹی کو مفاہمت سے کیا ملا، مفاہمت کے بادشاہ تو مسلم لیگ ن والے ہیں جو ہر دفعہ اپنی جلا وطنی کو اقتدار تک لے آئے۔ پیپلز پارٹی کو تو سیاست میں صرف شہادتوں نصیب ہوئی۔ جیلوں میں سختیوں کا سامنا کرنے والے مسلم لیگ ن کے رہنما خاموش اور سائیڈ لائن ہیں۔ جنہوں نے حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے مشکلات کا سامنا کیا۔ آج وہ کہاں ہیں، آج بھی ان کے پاس وہ مال نہیں جو الیکٹیبلز کے پاس ہے۔ جمہوری جھنڈے اٹھانا آسان لیکن جمہوری رہنا آسان نہیں۔ اب یہ دوغلا پن اقتدار سے نکل کر معاشرے میں سرایت کر چکا ہے، ہم خود دوغلے ہیں اور سیاستدان انصاف پسند چاہتے ہیں، اپنا ووٹ طاقتور کے پلڑے میں ڈالتے ہیں اور لیڈر ایماندار اور شریف چاہتے ہیں۔ خود ٹیکس چور ہیں اور سیاسی لیڈروں سے ٹیکس کی امید رکھتے ہیں اور سہولیات کا تقاضہ کرتے ہیں، چوری ڈکیتی منی لانڈرنگ کے مرتکب عدالتوں کو انتقامی کہتے ہیں۔ یہ سب کچھ زیادہ دیر نہیں چلے گا۔ سینئر صحافی حامد میر نے اپنے وی لاگ میں کئی انکشافات کئے ہیں، جو کافی غور طلب ہیں۔