Column

ربیع الاوّل رحمتوں کا مہینہ

تحریر : کوثر لودھی
اللہ تعالیٰ نے یوں تو بہت انبیاٌ کو رشد و ہدایت کا پیغام دے کر اپنی مخلوق کے لئے بھیجے، جن بعض انبیاٌ کی فضیلت پر تو خوبصورت حیرت ہوتی ہے، بلا شبہ جن میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت نوح علیہ السلام چند ایسے انبیاٌ ہیں جن سے پھر آگے پوری کائنات نے ایک کروٹ بدلی اور آہستہ آہستہ زمانہ اپنے آخری پیغمبرؐ اور رسولؐ اللہ کی آمد کا سلسلہ استوار کرنے لگا۔ حضرت آدم علیہ السلام کے بعد آنحضورؐ ٔ تک کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبرٌ تشریف لائے اور ہر ایک نے اپنے دور میں اللہ کی واحدانیت پر ایمان لانے اور صرف اُسی کی بندگی کرنے کا پیغام احسن طور پر انجام دیا۔ مگر ہر دور میں بہت تھوڑے لوگ ایمان لائے اور انبیاٌ کے دنیا سے چلے جانے کے بعد باقی دوبارہ سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔ یہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ آنحضورؐ کا عرب کے صحرائوں میں خانہ کعبہ کے پاس آخری نبیؐ مبعوث ہونا کیوں ضروری تھا۔ حضرت محمدؐ نے اپنے سے پہلے آنے والے تمام انبیاٌ اور آسمانی صحیفوں کی نہ صرف تصدیق کی بلکہ وہ جو پیغام اللہ وحدہ لا شریک کی طرف سے لائے تھے اسی پیغام کو آگے بڑھاتے ہوئے قیامت تک تمام عالم کے لئے زندگی کے ہر شعبے میں رہنما اصول متعین کئے۔ اللہ تعالیٰ جیسے سورۃ یٰسین کے آغاز میں فرماتے ہیں۔ ترجمہ: ’’یٰسین! حکمت سے بھرے قرآن کی قسم کہ بیشک تم ( محمد) رسولوں میں سے ہو۔ اور سیدھے راستے پر ہو۔ یہ خدائے غالب ( اور) مہربان نے نازل کیا ہے۔ تا کہ تم ان لوگوں کو جن کے باپ دادا کو متنبہ نہیں کیا گیا تھا متنبہ کر دو۔ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں‘‘۔ اگر سورۃ یٰسین کی ان آیات پر غور کریں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ آنحضورؐ کی آمد پوری دنیا کیلئے باعث ِ رحمت اور حق کا علم لئے ہوئی تھی۔ آپؐ کی زندگی پیدائش سے لے کر آپؐ کی رحلت تک پور ے 63برس کا کوئی لمحہ، کوئی واقعہ
کوئی چیز ایسی نہیں جو آج پندرھویں صدی ہجری میں بھی سب اہل ایمان کو من و عن یاد نہ ہو۔ آپؐ پر جب نبوت نازل ہوئی تو آپؐ 40برس کے تھے۔ اور یہ چیز اس پوری کائنات کو ورطہ حیرت میں ڈال سکتی ہے کہ نبوت سے سرفراز ہونے سے قبل 40سالوں میں آپؐ نے اخلاق سے لے کر سچ بولنے، ایمانداری اور دنیاوی مال و دولت کی حرص سے بے نیاز ہو کر اپنے اردگرد بسنے والے غیر مسلموں میں اپنی وہ مثال قائم کر دی تھی کہ وحی کے بعد جب آپؐ اللہ کا پیغام جہالت اور مالی جاہ و حرص
میں ڈوبے عربوں کو دینے کا آغاز کیا تو وہ آپؐ کے دشمن پہلے دن سے اس لئے بن گئے کہ انہیں یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ آپؐ کبھی جھوٹ نہیں بول سکتے۔ لہٰذا آپؐ جو فرما رہے ہیں وہ سچ ہے۔ چنانچہ انہوں نے سوچا کہ وہ جو قافلوں کو لوٹتے ہیں ڈکیتی و راہزنی میں ملوث ہیں، شراب نوشی، جو ا، بد اخلاقی عورتوں پر مظالم کی انتہا اور بتوں کی پوجا، یہ سب انہیں چھوڑنا پڑے گا۔ اسی وجہ سے وہ آنحضورؐ کی مخالفت میں اس قدر اندھے ہو گئے کہ آپؐ کو ہر طرح کی جانی و مالی ایذا رسانی دینے پر تل گئے۔ نبی آخر الزماں رحم للعالمینؐ جو عرب و عجم کے سردار ہیں آپؐ راہ ہدایت کے نور اندھیروں میں چراغ کی مانند آئے اور اُمتوں کو بخشوانے والے قرار پائے۔ آپؐ کی ابتداء چاند کو دو ٹکڑوں میں کر کے دکھانے کے معجزے سے ہوئی اور آپؐ کی انتہا معراج کا سفر، سدرۃ المنتہیٰ آپؐ کا مقام ٹھہرا۔ وہ نبیوںٌ میں رحمت لقب پانے والے انبیاٌ کے سردار مقربین کے رہنما جن و انس کے سردار اور دونوں قبلوں کے پیشوا دنیا و آخرت میں ہمارا وسیلہ ٹھہرے۔ آپؐ کی حیات طیبہ کا سرسری سا جائزہ بھی لیا جائے تو ایک ایک ورق گویا ایک مکمل اصلاحات، درس و تدریس اور کائنات کے اسرار و رموز پر ایک جامع قانون سازی ہے۔ سچائی کے نور کا وہ پیکر خدا نے جسم ِ انسانی میں ڈھالاجو دیکھتا وہ قربان ہونے کو مچل جاتا۔ آپؐ کی زبان مبارک سے نکلی ہر بات صحابہ کرامؓ کیلئے ابدی حکم کا درجہ رکھتی تھی۔ اور پھر غزوہ بدر میں جس طرح اللہ پاک نے آپؐ کی مدد فرمائی اور دشمنوں کے 70اعلیٰ پائے کے جنگجو جن میں ابو جہل بھی شامل تھا جہنم واصل ہوئے۔ تو آپؐ نے جشن منانے کے بجائے صحابہؓ کو تنبیہ کی کہ دشمن بدلہ لینے ضرور آئے گا۔ آپؐ کی سپہ سالارانہ صلاحیتوں کو دیکھ کر دُنیا کو یہ پیغام ملا کہ جنگ صرف خون بہانے سے نہیں بلکہ عقل، فہم و فراست اور بہترین تدبیر سے لڑی جاتی ہے اور فتح حاصل کی جاتی ہے۔ جب آپؐ نے مال ِ غنیمت بانٹا تو دنیا بھر کے شعبہ معاشیات کی وہ بنیاد ڈال دی کہ جس پر اگر مسلمان عمل پیرا ہوتے تو ہمیشہ دنیا کی واحد سپر پاور رہتے۔ مگر اس پر عمل غیر مسلموں نے کیا پھر جب غزوہ اُحد میں ایک لحاظ سے نہ صرف مسلمانوں کو شکست ہوئی بلکہ 70انتہائی اہم ترین صحابہ کرام ؓ نے بھی جام ِ شہادت نوش کیا جن میں آنحضورؐ کے چچا حضرت امیر حمزہؓ بھی شامل تھے۔ ان کی شہادت پر ماتم کرنے کے لئے جب صحابہ کرامؓ کے گھرانے آپؐ کے حجرہ کے باہر تشریف لائے تو آپؐ نے باہر آ کر وہ تاریخی جملے دہرائے اور ماتم سے منع کیا جنہوں نے ہمیشہ کے لئے ہر مسلمان کی دنیا سے رخصتی کے وقت پر ایک جامع ہدایت رقم کر دی۔ آپؐ علم و ادب کی محفل کو بہت پسند کرتے تھے۔ احادیث مبارکہ میں آتا ہے کہ: ایک بار آپؐ مسجد نبوی میں تشریف لے گئے تو کچھ صحابہ ؓ عبادت میں مشغول تھے اور کچھ صحابہؓ علم و ادب پر بات چیت کر رہے تھے، آپؐ نے ان کی محفل میں بیٹھنا پسند کیا، جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کے نزدیک علم کی اہمیت کا کیا عالم تھا۔ اس ماہ مبارک میں ہم گنہگار مسلمانوں کو چاہیے کہ ہر لمحہ ہر آن آپؐ کی ذات اقدس پر درود و سلام بھیجیں اور آپؐ کی سیرت مبارکہ کا مطالعہ کر کے اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button