تازہ ترینخبریںسپیشل رپورٹ

یومِ شہادت مجاہدِ آزادی رائے احمد خان کھرل

تاریخ انسانی کے اس دوسرے معتبر سر کی کہانی جسے دس محرم کے دن نماز میں اتار کر نیزے پر سجایا گیا تھا،
یہ کہانی ہے سیدنا امام حسین کے ایک ایسے غلام کی جس کی قسمت میں قدرت نے سجدے میں سر کٹانا لکھا تھا،
اس بہادر سپوت نے بیعت و نیابت قبول نہ کی اور لارڈ برکلے کے ساتھ ایک بھرپور جنگ کر کے راوی کے دائیں کنارے بستی جھامرہ میں ابدی نیند سو گیا،

یہ داستان ہے شجاعت اور بہادری کی، لیکن اسی داستان میں آپ کو بہت سے نامور سجادہ نشینوں کی بے غیرتی اور بے وفائی کی جھلک بھی دکھائی دے گی، جن میں سے ایک نام شاہ محمود قریشی کے ہمنام اور ان کے لکڑ دادا اور دربار بہاؤالدین زکریا ملتانی کے سجادہ نشیں شاہ محمود قریشی کا بھی ہے.

بھگت سنگھ کی شہادت کا دن سب کو یاد رہ جاتا ہے، لیکن 21 ستمبر کو رائے احمد خان شہیدؒ کی برسی خاموشی سے گزر جاتی ہے، اس کی وجہ تلاش کرنا چاہیں گے تو ایوان اقتدار میں آپ کو جابجا ان دس نوابوں کی اولادیں کھڑی ملیں گی، جنہوں نے معرکہ گشکوری میں انگریزوں کا ساتھ دیا تھا، اس لئے قومی سطح کا کوئی پروگرام تو کیا ہوگا، آج اگر آپ رائے احمد خان کھرل کے نام سے بھی واقف نہیں تو اس کی وجہ وہی لوگ ہیں،جن میں انگریزوں نے وہ زمین بانٹی تھیں جس کی خاطر رائے صاحب نے اپنی شہادت پیش کی.

بات شروع ہوتی ہے 14 جون 1857ء سے جب ملتان چھاؤنی میں پلاٹون نمبر دس کو بغاوت کے شبہے میں نہتا کیا گیا اور پلاٹون کمانڈر کو بمعہ دس سپاہیوں کے توپ کے آگے رکھ کر اڑا دیا گیا، آخر جون میں بقیہ نہتی پلاٹون کو شبہ ہوا کہ انہیں چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں فارغ کیا جائے گا اور انہیں تھوڑا تھوڑا کر کے تہہ تیغ کیا جائے گا، سپاہیوں نے بغاوت کر دی، تقریباً بارہ سو سپاہیوں نے بغاوت کا علم بلند کیا،

انگریزوں کے خلاف بغاوت کرنے والے مجاہدین کو شہر اور چھاؤنی کے درمیان واقع پل شوالہ پر دربار بہاء الدین زکریا کے سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی کے لکڑ دادا نے انگریزی فوج کی قیادت میں اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیرے میں لے لیا اور تین سو کے لگ بھگ نہتے مجاہدین کو شہید کر دیا،کچھ باغی دریائے چناب کے کنارے شہر سے باہر نکل رہے تھے کہ انہیں دربار شیر شاہ کے سجادہ نشین مخدوم شاہ علی محمد نے اپنے مریدوں کے ہمراہ گھیر لیا اور ان کا قتل عام کیا۔ مجاہدین نے اس قتل عام سے بچنے کے لئے دریا میں چھلانگیں لگا دیں، کچھ لوگ دریا میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے اور کچھ لوگ پار پہنچنے میں کامیاب ہو گئے،

پار پہنچ جانے والوں کو سید سلطان احمد قتال بخاری کے سجادہ نشین دیوان آف جلالپور پیر والہ نے اپنے مریدوں کی مدد سے شہید کر دیا، جلالپور پیر والہ کے موجودہ ایم این اے دیوان عاشق بخاری انہی کی آل میں سے ہیں.

مجاہدین کی ایک ٹولی شمال میں حویلی کورنگا کی طرف نکل گئی جسے مہر شاہ آف حویلی کورنگا نے اپنے مریدوں اور لنگڑیال ، ہراج ، سرگانہ، ترگڑ سرداروں کے ہمراہ گھیر لیا اور چن چن کر شہید کیا،مہر شاہ آف حویلی کورنگا سید فخر امام کے پڑدادا کا سگا بھائی تھا، اسے اس قتل عام میں فی مجاہد شہید کرنے پر بیس روپے نقد یا ایک مربع اراضی عطا کی گی.

مخدوم شاہ محمود قریشی کے لکڑدادا کو 1857ء کی جنگ آزادی کو کچلنے میں انگریزوں کی مدد کے عوض مبلغ تین ہزار روپے نقد، جاگیر سالانہ معاوضہ مبلغ ایک ہزار سات سو اسی روپے اور آٹھ چاہات جن کی سالانہ جمع ساڑھے پانچ سو روپے تھی بطور معافی دوام عطا ہوئی، مزید یہ کہ 1860ء میں وائسرائے ہند نے بیگی والا باغ عطا کیا، مخدوم آف شیر شاہ مخدوم شاہ علی محمد کو دریائے چناب کے کنارے مجاہدین کو شہید کرنے کے عوض وسیع جاگیر عطا کی گئی.

حویلی کورنگا کے معرکے میں بظاہر سارے مجاہدین مارے گئے مگر علاقے میں آزادی کی شمع روشن کر گئے، حویلی کورنگا کی لڑائی کے نتیجے میں جگہ جگہ بغاوت پھوٹ پڑی اور حویلی کورنگا، قتال پور سے لیکر ساہیوال بلکہ اوکاڑہ تک کا علاقہ خصوصاً دریائے راوی کے کنارے بسنے والے مقامی سرائیکیوں کی ایک بڑی تعداد اس تحریک آزادی میں شامل ہو گئی،
اس علاقے میں اس بغاوت کا سرخیل رائے احمد خان کھرل تھا جو گوگیرہ کے نواحی قصبہ جھامرہ کا بڑا زمیندار اور کھرل قبیلے کا سردار تھا، احمد خان کھرل کے ہمراہ مراد فتیانہ سیال ،احمد سیال ، شجاع بھدرو، موکھا وہنی وال اور سارنگ جیسے مقامی سردار اور زمیندار تھے.

انگریزوں کی طرف سے’’باغیوں‘‘ کے خلاف مہم شروع کر دی گئی اور بے شمار باغیوں کو گوگیرہ جیل میں ڈال دیا گیا، اس زمانے میں گوگیرہ ساہیوال کا ہیڈکوارٹر تھا، رائے احمد خان کھرل کے لیے یہ بات سخت ناقابل برداشت تھی کہ ان کے قبیلے کے اتنے زیادہ افراد کو گرفتار کر لیا جائے، رائے احمد خان کھرل نے اپنے قریبی ساتھیوں سے طویل مشاورت کی اور پھر فیصلہ کیا کہ برطانویوں نے جن کو گرفتار کیا ہے انہیں ہر صورت آزاد کروایا جائے گا، یہ جرأت مندانہ اقدام تھا لیکن رائے احمد خان کھرل ہر قسم کے نتائج کے لیے تیار تھا.

26 جولائی 1857ء کی رات کو رائے احمد خان کھرل نے گوگیرہ جیل پر حملہ کیا اور تمام قیدیوں کو آزاد کروا لیا، اس موقع پر کئی ہلاکتیں ہوئیں، رائے احمد خان کھرل اپنے بے شمار ساتھیوں کے ساتھ بھاگ نکلا اور گشکوری کے جنگل میں پناہ لی، یہ جنگل گوگیرہ سے چند میل کے فاصلے پر واقع ہے، یہ قدم سراسر برطانوی راج کے احکامات کی خلاف ورزی تھا اور اب برطانوی انتظامیہ نے ان کے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کر لیا۔ حکمت عملی میں گاؤں کے گاؤں جلانے کا منصوبہ تھا، برطانویوں کے نزدیک رائے احمد خان کھرل سے نجات پانا انتہائی اہم تھا کیونکہ یہ وہ رہنما تھا جس نے لوگوں کو برطانوی راج کے سامنے کھڑا ہونے کا پیغام دیا تھا، برطانویوں نے رائے احمد خان کھرل کے خاندان کے افراد کو گرفتار کر لیا اور انہیں قتل کرنے کی دھمکی دی، رائے احمد خان کھرل اپنی ماں اور خاندان کے دوسرے افراد کی زندگی خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا تھا، اس لیے اس نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کر دیا، اس کی گرفتاری سے افراتفری میں اضافہ ہوگیا، کیونکہ قبائل کا احتجاج بڑھتا جا رہا تھا، برطانوی انتظامیہ کو دباؤ کے سامنے جھکنا پڑا اور انہوں نے رائے احمد خان کھرل کو رہا کر دیا لیکن ساتھ ہی یہ شرط بھی عائد کردی کہ وہ گوگیرہ چھوڑ کر نہیں جائے گا۔ رائے احمد خان کھرل جیل سے باہر آگیا لیکن اس کا مقصد قبائل کو متحد کرنا تھا،جنگل میں اپنے ساتھیوں سے مشورے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا کہ دریائے راوی کے دونوں طرف قبائل اکٹھے ہو جائیں گے اور چیک پوسٹوں پر حملے کریں گے،رائے احمد خان کھرل کو آمنے سامنے لڑائی میں پکڑنا یا ہلاک کرنا آسان نہیں تھا کیونکہ وہ علاقے سے اچھی طرح واقف تھا،، تاہم اسے پکڑنے کی ایک ترکیب تھی، یہ وہی ترکیب تھی جو ٹیپو سلطان اور نواب سراج الدولہ کے خلاف استعمال کی گئی تھی، اس کے تحت اندر کے آدمیوں کی وفاداریاں خریدنا تھا جو رائے احمد خان کھرل کے بارے میں ساری اطلاعات دیں، دو افراد نے رائے احمد خان کھرل سے غداری کی حامی بھر لی، ایک کا نام تھا سرفراز کھرل اور دوسرا تھا ینہان سنگھ بیدی، یہ دونوں رائے احمد خان کھرل کے خفیہ اجلاس میں شامل تھے.

مورخہ 16ستمبر 1857ء کو رات گیارہ بجے سرفراز کھرل نے ڈپٹی کمشنر ساہیوال بمقام گوگیرہ کو احمد خان کھرل کی مخبری کی.

مورخہ21 ستمبر 1857ء کو راوی کے کنارے ”دلے دی ڈل“ میں احمد خان کھرل پر جب حملہ ہوا تو اس حملے میں انگریزی فوج کے ہمراہ مخدوموں ، سیدوں ، سجادہ نشینوں اور دیوانوں کی ایک فوج ظفر موج تھی، جس میں دربار سید یوسف گردیز کا سجادہ نشین سید مراد شاہ گردیزی، دربار بہاءالدین زکریا کا سجادہ نشین مخدوم شاہ محمود قریشی ، دربار فرید الدین گنج شکر کا گدی نشین مخدوم آف پاکپتن ، مراد شاہ آف ڈولا بالا، سردار شاہ آف کھنڈا اور گلاب علی چشتی آف ٹبی لال بیگ کے علاوہ بھی کئی مخادیم و سجادہ نشین شامل تھے.

منصوبے کے مطابق احمد خان کھرل کو اپنے اتحادیوں سے ملاقات کے لیے دریائے راوی پار کرنا تھا، لیہ ساری اطلاعات برطانویوں کو بھی پہنچا دی گئیں، اس سے پہلے کہ برکلے پہنچتا، رائے احمد خان کھرل دریا پار کر چکا تھا، اس کے بعد رائے احمد خان کھرل اور اس کے ساتھی برکلے سے بڑی بے جگری سے لڑے اور انہیں پسپائی پر مجبور کر دیا، یہ رائے احمد خان کھرل اور ان کے ساتھیوں کے لیے عظیم فتح تھی، اس موقع پر رائے احمد خان کھرل نے نماز پڑھنے کا فیصلہ کیا، برکلے اور اس کے فوجی زیادہ دُور نہیں تھے، جب رائے احمد خان کھرل نماز پڑھ رہا تھا تو برکلے نے حملہ کر دیا، رائے صاحب کے ساتھی بیدی نے انہیں شناخت کر لیا اور کچھ ذرائع کے مطابق اس نے رائے احمد خان کھرل پر پہلی گولی چلائی، یہ 21 ستمبر 1857ء کا دن تھا اور اس دن محرم الحرام کی 10 تاریخ تھی.

رائے احمد خان کھرل اور سارنگ شہید ہوئے اور انگریز رائے احمد خان کھرل کا سر کاٹ کر اپنے ہمراہ لے گئے لیکن کھرل صاحب کی شہادت کے دو دن بعد ان کے ایک دوست مراد فتیانہ نے برکلے کا سر کاٹ کر رائے احمد خان کھرل کا بدلہ لے لیا تھا.

رائے احمد خان کھرل کے قصبہ جھامرہ کو پیوند خاک کرنے کے بعد آگ لگا دی گئی، فصلیں جلا کر راکھ کر دی گئیں، تمام مال مویشی ضبط کر لیے گئے، دیگر سرداروں کو سزا کے طور پر بعبور دریائے شور یعنی کالا پانی بھجوا دیا گیا، اس طرح اس علاقے کی تحریکِ آزادی مخدوموں، سرداروں، وڈیروں اور گدی نشینوں کی مدد سے دبا دی گئی، اس کے بعد دریائے راوی کے کنارے اس علاقے کے بارے میں راوی چین لکھتا رہا۔

جواب دیں

Back to top button