Columnمحمد مبشر انوار

خوش آئند اعلان

محمد مبشر انوار

پاکستانی سیاستدان لگتا ہے کہ بھارتی فلموں سے بہت متاثر ہیں یا پھر دوسری صورت انہیں اپنی دولت کے ذرائع آمدن بتانے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے کہ اپنی ساری دولت اپنے دولت کدوں میں ہی سنبھال کر رکھتے ہیں، ایسی کئی ایک مثالوں کو بھارتی فلموں میں فلمایا گیا ہے ۔ بالخصوص اجے دیوگن کی ایک فلم ریڈRAIDاس حوالے سے بہت مشہور ہوئی تھی کہ ایک سیاستدان کس طرح نہ صرف عوام کا استحصال کرتا ہے بلکہ قومی دولت لوٹ کر جس طرح اس نے اپنے گھر کے مختلف کونوں کھدروں میں چھپا رکھی تھی، کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہ تھی۔ اجے دیوگن اور اس کی پوری ٹیم لاکھ تلاش بسیار کے ایک پھوٹی کوڑی تک بھی برآمد نہ کر پائی تھی اور معاملہ نوکریوں کے چھن جانے تک جا پہنچا تھا کہ گھر کے ہی ایک فرد نے مختلف طریقوں سے انستہ یا نادانستہ ایسے شواہد بتا دئیے کہ پھر ایک کے بعد ایک جگہ سے دولت کے انبار نکلنے لگے، مہاشے آگ بگولا اور سیخ پا تو پہلے ہی تھے، ساری دولت چھن چھن کر گرتے دیکھ کر آپے سے باہر ہوگئے اور گھر سے باہر جانے کی ضد اور چیلنج کرنے لگے۔ بعد کے واقعات، ممکنہ طور پر قارئین کے علم میں ہوں گے کہ آخرکار مہاشے کے ساتھ کیا ہوا تھا لیکن اہم بات یہ ہے کہ لوٹ مار کی برآمدگی بہرکیف گھر کے کسی بھیدی کے باعث ہی ممکن ہوئی تھی۔ یہی صورتحال پاکستان میں نظر آ رہی ہے کہ ہر چند ماہ کے بعد کسی نہ کسی سیاستدان یا بیوروکریٹ کے گھر چھاپہ پڑتا ہے اور میڈیا پر اربوں کھربوں کی دولت برآمد کرنے کا دعوی کر دیا جاتا ہے، تاہم آج تک نہ تو کسی محکمانہ کارروائی میں کسی سرکاری افسر کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی سننے میں آئی ہے اور نہ ہی سخت ترین سزا کا کہیں ذکر سنا ہے البتہ سیاستدان ویسے ہی عوام میں اپنی مصروفیات جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ حتی کہ یہی سیاستدان، اکثریت انہی چہروں کی دوبارہ پارلیمنٹ میں دکھائی دیتی ہے، ان میں خواہ آصف علی زرداری ہوں، نوازشریف ہوں، شہباز شریف ہوں، حمزہ شہباز ہوں، سراج درانی ہوں، شرجیل میمن ہوں یا اب شازیہ مری ہوں کہ جن سے ستانوے ارب برآمد کروانے کی خبریں زیر گردش ہیں۔ گو کہ شازیہ مری نے ایک طرف اس امر کی شدید الفاظ میں تردید کی ہے اور دوسری طرف خبر دینے والے صحافی کے خلاف دس ارب ہرجانے کا نوٹس کا عکس سوشل میڈیا ایکس پر شیئر کیا ہے، جو یقینا ان کا حق ہے کہ اپنی صفائی میں نہ صرف ایسے صحافی کو کمرہ عدالت میں لائیں بلکہ اپنا سیاسی کیرئیر بھی بچائیں۔ اصل مسئلہ لیکن یہ قطعی نہیں ہے کہ سیاستدانوں کے خلاف ایسی خبریں چلتی کیوں ہیں یا سامنے کیوں آتی ہیں؟ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایسے معاملات منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچتے اور اتنے تواتر سے سیاستدانوں اور بیورو کریٹس پر ناجائز آمدنی کے الزامات لگتے کیوں ہیں؟ کہیں نہ کہیں، کچھ نہ کچھ تو گڑبڑ ہے، راکھ میں کہیں تو چنگاریاں ہیں جہاں سے دھواں اٹھتا رہتا ہے اور رپورٹرز ایسی خبریں دیتے رہتے ہیں لیکن ان خبروں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
پیپلز پارٹی والے ایسی خبروں پر سوشل میڈیا میں مخالفین کے خوب لتے لے رہے ہیں کہ اگر اتنی دولت برآمد ہو گئی ہے تو اسے قومی خزانے میں جمع کروائو اور عوام کو بجلی کے بلوں میں ریلیف دو۔ ایسی باتیں دل لبھانے کے لئے تو ہو سکتی ہیں لیکن حقیقت میں عوامی فلاح کے لئے کچھ ہونا تقریبا ناممکن سا لگتا ہے کہ اگر ایک لمحے کو یہ تصور کر لیں کہ واقعی سیاستدانوں یا بیورو کریٹس نے ملکی وسائل لوٹے ہیں ،تو کیا اس لئے لوٹے ہیں کہ عوامی مشکل میں واپس کر دئیے جائیں؟ یہ انتہائی مضحکہ خیز بات لگتی ہے کم از کم میرا ذہن اس کو تسلیم کرنے کے لئے قطعا تیار نہیں کہ جہاں کرپشن کے سنگین ترین جرائم پر ایک سابق وزیراعظم فقط پچاس روپے کے اسٹامپ پیپر پر جیل کی سلاخوں اور ملکی آئین و قانون کو روندتا ہوا بیرون ملک چلا جائے، جہاں وقت کا چیف جسٹس چھاپے کے دوران شراب ضبط کرے لیکن رپورٹ میں وہ شراب کی بجائے کچھ اور نکل آئے، وہاں لوٹی ہوئی دولت عوامی فلاح کے لئے استعمال ہو گی۔ اقتدار میں آنے والا ہر صاحب اقتدار و اختیار، پاکستان کے مسائل سے بخوبی آگاہ ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہر صاحب اقتدار کے ساتھ ایسے خوشامدی نتھی نظر آتے ہیں کہ جن کا کام ہی صرف اور صرف سب اچھا ہے ، رپورٹ کرنا ہے اور صاحب اقتدار کو حقائق سے بے خبر رکھ کر اپنے اور آقائوں کے مفادات کو تحفظ دینا ہے۔ پاکستانی ارباب اختیار اتنے بھی بیوقوف نہیں کہ انہیں یہ علم ہی نہ ہو کہ دنیا میں ترقی کے زینے کون سے ہیں؟ دنیا کے دیگر ممالک اپنی ترقی کے لئے کیا لائحہ عمل اپناتے ہیں اور کس طرح یہ ممالک ترقی کی دن دگنی رات چوگنی منزلیں طے کرتے ہیں، پھر پاکستانی ارباب اختیار نے پاکستان کو عالمی اداروں کے قرضوں کی دلدل میں کیوں پھنسایا؟ طرز حکومت میں مداخلت یا عوامی بہتری کے منصوبوں میں رکاوٹ کے باعث ناکامی کی بنیاد پر، انتقام کی اس سے بھیانک کوئی اور مثال نہیں ہو سکتی کہ حدود و قیود کے ردعمل میں ملک و قوم کو گروی ؍ بیچ دیا جائے۔ یہ بات پاکستانی سیاسی تاریخ سے ثابت نظر آتی ہے کہ کس طرح مختلف ادوار میں بالخصوص 2008۔2018سیاسی ادوار میں ملکی وسائل کا دھڑن تختہ کیا گیا ہے اور کیسے نجی بجلی گھروں کو اس قوم کے وسائل پر مسلط کیا جا چکا ہے۔ خطے کے دوسرے ممالک کی معاشی صورتحال کا موازنہ کریں تو آنکھیں مارے حیرت کے پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں کہ باقی ہمسایہ ممالک کو تو چھوڑیں، افغانستان میں ڈالر کی قیمت مسلسل کم ہو رہی ہے اور افغانی کی قدر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ افغانستان ، جو تقریبا چار دہائیوں تک حالت جنگ میں رہا ہے، جس کا انفرا سٹرکچر تباہ و برباد ہو چکا ہے، جہاں تعمیر و ترقی نئے سرے سے شروع ہو رہی ہے لیکن آفرین ہے اس کی قیادت پر، اس کے اخلاص پر، اس کی قومیت پرستی پر کہ سب سے زیادہ توجہ وہ معیشت اور امن و امان پر دے رہے ہیں۔ اپنے ملک سے پیار اور اس کی ترقی کی لئے ان کی ترجیحات ، ان کے عمل سے واضح ہیں کہ اعلی سے اعلی سرکاری عہدیدار کی زندگی انتہائی سادہ نظر آتی ہے، کہیں بھی نمود و نمائش یا اسراف کا شائبہ نہیں ہوتا، میڈیا ذرائع میں کبھی قاضی القضاہ کو رکشے سے اترتے دکھایا جاتا ہے تو کہیں رہبر امارت افغانستان کی سادگی نظر آتی ہے۔ یہی صورتحال دیگر ممالک کی بھی ہے البتہ بھارت اس معاملے میں مستثنیٰ ہے کہ بھارتی معیشت مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ نمو پذیر ہے اور وہاں کے معاشی حالات بدل چکے ہیں، وہاں نمود و نمائش کے مظاہر چل سکتے ہیں ۔
پاکستانیوں نے بالعموم اپنے حکمرانوں کے نعرے ہی سنے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کی نوبت کہیں نظر نہیں آئی بلکہ ان نعروں کی آڑ میں حکمرانوں نے اپنی تجوریاں ہی بھری ہیں وگرنہ اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ بھٹو کا نعرہ روٹی، کپڑا اور مکان درحقیقت آج بھی ملک و قوم کے لئے سب سے خوبصورت نعرہ کہا جا سکتا ہے کہ جس میں ہر شعبہ ہائے زندگی کی ضرورت کا احاطہ ہے۔
نواز شریف کے پہلے دور حکومت میں قرض اتارو ملک سنوارو میں قوم نے جذبوں کی انتہا کی لیکن بدقسمتی سے ان رقوم کا پتہ نہ چلا کہ کیا کہاں گئی البتہ ملک قرضوں کی دلدل میں مزید دھنس گیا۔ بعد ازاں جنرل مشرف کے سات نکات سے یوں محسوس ہوا کہ جیسے اس قوم کی سنی گئی ہو اور اللہ نے مسیحا بھیج دیا ہے اور چند دنوں کی بات ہے کہ پاکستان اقوام عالم میں سر اٹھا کر جی سکے گا، اس کی پہچان ایک شاندار ملک کے طورپر ہو گی لیکن ہائے افسوس! وہ وقت بھی کھوٹا ہو گیا۔ پھر عمران خان کے دور میں انصاف کا اضافہ ہوا لیکن بدقسمتی دیکھیں کہ آج عمران خان خود انصاف کے لئے دربدر ہے اور جو اس کے ساتھ ہو رہا ہے ، کسی مہذب ملک میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ بہرکیف اس پس منظر میں ملکی ترقی بہرحال معاشی ترقی سے مشروط ہے اور معاشی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک شتر بے مہار ڈالر کو سخت لگام نہیں ڈالی جاتی، گزشتہ سولہ ماہ میں پی ڈی ایم کے دو وزراء خزانہ اپنی سی کوشش کر چکے لیکن ڈالر بجائے کمزور ہونے کے، ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح تک جا پہنچا ہے، آرمی چیف نے کا اعلان خوش آئند ہے کہ ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر کو کنٹرول کیا جائیگا۔ امید اور دعا ہے کہ آرمی چیف اپنے اس اعلان کو عملی جامہ پہنا سکیں لیکن اس کے لئے پاکستان کو لوٹنے والوں سے کسی قسم کی رعایت نہیں کی جانی چاہئے، خواہ وہ ملک کے اندر ہوں یا ملک سے باہر، کہ اسی میں پاکستان کی بقا اور ترقی مضمر ہی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button