ColumnNasir Naqvi

آنکھ مچولی

ناصر نقوی
پاکستان، پاکستانی عوام ناکردہ گناہوں کی پاداش میں مختلف بحرانوں کے منجدھار میں ایسے پھنسے ہیں کہ باوجود کوشش کے نکل نہیں پا رہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ جس قدر کوشش کی جارہی ہے ’’ بحران‘‘ اس سے بھی زیادہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مہنگائی ، بے روزگاری اور قدرتی آفات نے عوامی سکھ چین کو تباہ کر دیا، پھر بھی باصلاحیت، سخت جان اور وطن پرست پاکستانیوں نے ہر مشکل کو ہنس کر ٹال دیا کہ بحران حقیقی ہو کہ مصنوعی، یہ وقتی ہوتے ہیں۔ سدا بادشاہی اللہ کی وہ اپنے بندوں کو زیادہ دیر مشکلات میں نہیں دیکھ سکتا، اسی لیے اس نے آقائے دو جہاںؐ کے ذریعے خلق خدا کی بھلائی کا پیغام دیا اور تاکید کی کہ ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرو، کام آئو، یہی ادا اسے پسند ہے اگر تم ایسا کرتے رہو گے تو وہ بھی نہ صرف تمہارے لئے آسانیاں پیدا کرے گا بلکہ تمہاری جدوجہد ، کوشش اور مال و زر میں ایسی برکت ڈال دے گا کہ تم خوشحال ہو جائو گے۔ معصوم پاکستانی اسی فلسفے پر زندگی کی گاڑی کھینچتے رہے لیکن کچھ بہک گئے اور دنیا داری میں حق سچ کی ٹرین چھوڑ بیٹھے حضرت شیطان نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا پھر کیا تھا ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی ایک کبھی نہ ختم ہونے والی دوڑ شروع ہو گئی۔ 76سال گزر گئے سب کے سب اپنی روایات، ذمہ داری اور جائز ناجائز جو فارمولا جہاں فٹ ہوتا ہے لگا کر اپنا کام چلا رہے ہیں۔ بڑے سے بڑے امتحان میں سرخرو ہوئے لیکن سب اس بات پر اتفاق کرتے ہیں وطن عزیز کو بحرانوں میں دھکیلنے والی شخصیات وہ ہیں جن کے دم قدم سے قومی ادارے چلتے ہیں۔ عوام کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ اس قدر طاقتور نہیں کہ انہیں قابو کر سکیں۔ جمہوریت میں ایک بڑا ہتھیار ’’ ووٹ‘‘ تصور کیا جاتا ہے لیکن جب اس فریضے کی ادائیگی کا وقت آتا ہے تو ’’ میرٹ‘‘ ہی بدل جاتا ہے۔ چالاک اور سمجھدار سیاسی بصیرت رکھنے والے عوامی مسائل اور ترقی کے خواب دکھا کر ووٹ لے لیتے ہیں جہاں لوگ مطمئن نہ ہوں وہاں ذات، برادری اور علاقائی اثر و رسوخ استعمال کر کے حاصل کی جاتی ہے لیکن جیتنے والا اپنا ہو کہ پرایا، کامیابی کے بعد ہر قیمت پر ’’ پرایا‘‘ ہو جاتا ہے۔ اس کی چال ڈھال، نشست و برخاست، گفتگو کا طریقہ یکسر بدل جاتا ہے لہٰذا جو چند ماہ تک اپنے درمیان پایا جاتا تھا اسے ہر موقع پر ڈھونڈنا پڑتا ہے بس یہ وہ لمحات ہیں جہاں سے ’’ آنکھ مچولی‘‘ شروع ہوتی ہے اور پھر کم از کم پانچ سال جاری رہتی ہے۔ سادہ عوام ہر بار دھوکہ کھاتے ہیں کیونکہ کاروبار سیاست میں یہ لوگ ایسے صاحب بصیرت ہوتے ہیں کہ انہیں عوامی اجتماع میں آنے سے پہلے ہر شخص کی نبض کا اندازہ ہوتا ہے کچھ اس قدر صلاحیتیں رکھتے ہیں کہ سفید جھوٹ بھی ان کے منہ سے سچ لگتا ہے اور کچھ کو ان کے سہولت کار ایسی تربیت دیتے ہیں کہ وہ دنوں میں ’’ کوا‘‘ سفید ہے، ثابت کرنے کی صلاحیتیں پا لیتے ہیں تاہم یہ تمام کے تمام پبلک مقامات پر تو اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں ، ’’ پارلیمنٹ‘‘ جہاں بولنا چاہیے وہاں منہ بند رکھتے ہیں اس لیے کہ انہیں یہ راز بھی معلوم ہے کہ مفادات کا تڑکا لگانے کے لئے سب سے اچھی اور سستی ’’ خاموشی‘‘ ہے۔ عوام الناس ہر الیکشن میں جنہیں نجات دہندہ سمجھتے ہیں چند ماہ بعد ہی ان کے ’’ کالے چٹے‘‘ کرتوت سامنے آ جاتے ہیں ثبوت آپ اور ہم سب کے سامنے ہیں ’’ تبدیلی سرکار‘‘ کو بڑے اہتمام سے صادق و امین بنا کر قوم پر مسلط کیا گیا، قوم جھانسے میں آ گئی کہ اب لٹیروں اور قومی خزانہ لوٹنے والوں کی پکڑ ہو گی۔ معاملات میں بہتری آئے گی۔ خان اعظم نے اقتدار سنبھالتے ہی پوری اپوزیشن کو کرپٹ، چور اور ڈاکو قرار دے کر ’’ احتساب‘‘ کا چرچا کیا لیکن نتیجہ سب کے سامنے ہے اقتدار کی ’’ آنکھ مچولی‘‘ میں صاد ق و امین خود پھنس گئے، مہنگائی سے نجات دلانے والے مہنگائی میں اضافہ کر کے ’’ اُڑن چھو‘‘‘ ہو گئے، اب نگران کی باری ہے ان کا دعویٰ جو ہونا چاہیے وہ بھی نہیں ، قوم نے امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں لیکن پٹرول بم اور بجلی کے جھٹکوں نے سب کا خون خشک کر دیا، بڑی پارٹیوں، صدر مملکت اور عدلیہ کو اپنی اپنی بالا دستی لاحق ہے جبکہ عوام سڑکوں پر مہنگائی، بے روزگار اور بدامنی کا سیاپا کر رہی ہے پھر بھی سیاسی، آئینی اور معاشی ’’ آنکھ مچولی‘‘ جاری ہے۔ امید تھی کہ انوار الحق کاکڑ قوم کے ساتھ ناانصافی کرنے والوں کے کڑاکے نکالیں گے لیکن پٹرول بم اور بجلی بل آسمانی بجلی بن کر ایسے گرے کہ زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو گیا۔
حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ لیڈر ایسے بُرے وقت لندن اور دوبئی میں سرجوڑ کر بیٹھے ہیں پیغام اور یقین دہانی یہی کرائی جا رہی ہے کہ ماضی کے حکمرانوں نے قوم کے مستقبل سے کھیلا اور ایسا کھیلا کہ حدود، آئین و قانون، معاشرتی و اخلاقی ذمہ داریوں کا بھی احساس نہیں، وہ نااہل ناتجربہ کار تو تھے ہی اپنے اقتدار کو طول دینے کی پھر بھی کوشش کرتے رہے، مہنگائی، اندرونی و بیرونی محاذ پر ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تو مجبوراً اس عالمی ادارے آئی ایم ایف کے پاس پہنچ گئے جہاں سے وہ خود منع کرتے تھے بلکہ ان کا فرمان تھا آئی ایم ایف سے مدد لینے سے بہتر ہے کہ ’’ خودکشی‘‘ کر لی جائے لیکن جونہی اقتدار ہاتھ سے جاتا محسوس ہوا ، معاہدہ توڑ ایسے اقدامات کر دئیے کہ وقتی خوشی تو مل گئی لیکن مہنگائی سے نجات کا نعرہ لگا کر ’’ اقتدار‘‘ حاصل کرنے والوں کو دن میں تارے نظر آ گئے، 16ماہ کی حکومت برسوں کے لئے طعنہ بن گئی، عوامی سہولیات نہ مل سکیں پھر بھی ان کے ہی مستقبل سے آنکھ مچولی کھیلی گئی، نتائج اب کسی سے پوشیدہ نہیں، سٹاک ایکسچینج میں مسلسل مندی کا رجحان، ڈالر بے قابو، درآمد کے لئے ڈالرز نہیں، برآمدات بڑھانے کا سلیقہ نہیں، پہلے عمران خان اور ان کے پرستاروں اور کھلاڑیوں سے ’’ فورسز‘‘ کی آنکھ مچولی ہوئی، انہوں نے پورے پاکستان سے کمک منگوا کر فورسز کو ’’ پٹرول بم‘‘ مار کر اپنا الو سیدھا کیا، پھر 9مئی کے سانحے نے عمران خان اور ان کے پیاروں کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا تو حکومت نے آئی ایم ایف کے پروگرام کے مطابق ’’ پٹرول بم‘‘ نہ صرف مار دیا بلکہ بجلی کے جھٹکوں سے عوام کی زندگی اجیرن کر دی، ہر طرف احتجاج اور مطالبات کا دور دورہ ہے حکمران کہتے ہیں ہم تو نگران ہیں ہمارا مینڈیٹ صرف صاف و شفاف الیکشن کرانا ہے جیسے ہی الیکشن کمیشن اعلان کرے گا ہم ذمہ داری ادا کر دیں گے جبکہ الیکشن کمیشن، ایوان صدر اور عدالت عظمیٰ اس سلسلے میں بھی واضح رائے نہیں رکھتے اس لحاظ سے بھی ’’ آنکھ مچولی‘‘ ہی کھیلی جا رہی ہے کوئی نہیں جانتا، الیکشن کب اور کیسے ہوں گے؟ چیف الیکشن کمشنر کہتے ہیں آئین اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90روز میں الیکشن کا پابند کرتا ہے لیکن پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد وہی آئین مجھے نئی حلقہ بندیوں کے بغیر الیکشن کی اجازت نہیں دیتا، صورت حال خاصی گھمبیر ہے ایسے میں مجھے فیض احمد فیض یا د آ رہے ہیں، ہمارے حالات و واقعات کے حوالے سے ان کا سدا بہار کلام ملاحظہ فرمائیں:
جس دیس میں آئے چینی کا بحران فلک تک جا پہنچے
جس دیس میں بجلی پانی کا فقدان حلق تک جا پہنچے
جس دیس سے مائوں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو اشراف چھڑا کر لے جائیں
جس دیس کی کورٹ کچہری میں انصاف ٹکوں پر بِکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
جس دیس کے چپے چپے پر پولیس کے ناکے ہوتے ہوں
جس دیس میں جان کے رکھوالے خود جانیں لیں معصوموں کی
جس دیس میں حاکم ظالم ہوں سکی نہ سنیں مجبوروں کی
جس دیس کے عادل بہرے ہوں آہیں نہ سنیں مجبوروں کی
جس دیس کی گلیوں کوچوں میں ہر سمت فحاشی پھیلی ہو
جس دیس میں بنت حوا کی چادر بھی داغ سے میلی ہو
جس دیس کے ہر چوراہے پر دو چار بھکاری پھرتے ہوں
جس دیس میں روز جہازوں سے امدادی تھیلے گرتے ہوں
جس دیس میں غربت مائوں سے بچے نیلام کراتی ہو
جس دیس میں دولت شرفاء سے ناجائز کام کراتی ہو
جس دیس کے عہدیداروں سے عہدے نہ سنبھالے جاتے ہوں
جس دیس کے سادہ لوح انسان وعدوں پہ ہی ٹالے جاتے ہوں
اس دیس کے ہر اک لیڈر پر سوال اٹھانا واجب ہے
اس دیس کے ہر اک حاکم کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے
فیض صاحب برسوں پہلے یہ کہہ کر قوم کو مشکل ٹاسک دے گئے اگر ہم اتنے طاقتور ہوتے تو بھلا ہم سے کوئی آنکھ مچولی کھیل سکتا تھا لیکن آج کچھ ایسے ہی حالات ہیں اور ہم بے بسی و بے حسی پر اکرم ریحان کے اس شعر سے اپنا دل بہلا رہے ہیں:
آ کے ویکھے، وگڑ گیا ہے سارا نقشہ دھرتی دا
رب دا کرنا بندا اے ہنگامی دورہ دھرتی دا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button