Ali HassanColumn

بجلی کے بلوں نے لوگوں کو جگا دیا ہے

علی حسن
ملک کے مختلف شہروں میں بجلی کے نرخوں کے معاملہ پر احتجاج ، بجلی کے بلوں کو نظر آتش کیا جانا، مشتعل لوگ اپنے غصہ کے اظہار کے لئے پولس سے دست و گریبان ہوتے نظر آتے ہیں۔ بعض مقامات پر پولس کی مدد کے لئے رینجر کو بھی لگایا گیا ہے۔ ملتان سمیت بعض شہروں میں سرکاری گاڑیوں کو سرکاری نمبر پلیٹیوں ہٹا دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ لوگ بھپرے ہوئے ہیں کیوں کہ بجلی کے بل کی ادائیگی ان کی قوت اور وقعت سے باہر ہے۔ کیا حکمران طبقہ کو نظر نہیں آرہا ہے کہ بے روز گاری، مہنگائی، عدم تحفظ ، ضرورت کی ہر اشیاء کا میسر نہ ہونا لوگوں کے لئے مشکلات میں اضافہ کا سبب نہیں بن رہا ہے۔ احساس نہیں رہا کہ حکمران طبقہ، دولت مند لوگ اور ریاست کے خرچے پر پلنے والے لوگ ہر سہولت اور آسائش سے بہرہ ور ہیں لیکن اکثریت دو وقت کی روٹی کے دو نوالوں کے حصول کے لئے ترس رہے ہیں۔ تمام سیاسی جماعتیں عوام کے آنسوئوں کے دریا میں اپنے آنسو بھی شامل کر رہے ہیں۔ لیکن ان کے آنسوئوں کی کوئی وقعت نہیں ہے۔ اپنے دور حکمرانی میں انہیں حساب کتاب کر نا چاہئے تھا کہ عوام اتنے بھاری بل کہاں سے ادا کر سکیں گے۔ نگران وزیر آعظم یا نگراں حکومت کے بس کا یہ کام ہی نہیں ہے۔بجلی کے بھاری بِلوں کے معاملے پر ایوان وزیراعظم میں ہنگامی اجلاس طلب کیا گیا ہے۔ اجلاس میں وزارتِ بجلی اور تقسیم کار کمپنیوں سے بریفنگ لی جا رہی ہے اور صارفین کو بجلی کے بِلوں سے متعلق زیادہ سے زیادہ سہولت دینے پر مشاورت کرنے کی نوید ہے۔ نگران وزیر آعظم کی کارروائی اشک سوئی ہے جس کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلے گا۔
انقلاب آہستہ آہستہ دبے پائوں آتا ہے۔ حکمران طبقہ کو احساس ہی نہیں ہوتا ہے کہ وہ آرہا ہے۔ اس کی آمد کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب وہ سر پر چڑھ جاتا ہے۔ سر پر چڑھنے کے بعد بھینٹ لئے بغیر پلٹتا نہیں ہے۔ دنیا میں جہاں جہاں انقلاب آئے ہیں وہاں حکمرانوں نے انقلاب کی دستک اور چاپ پر کان نہیں دھرے۔ وہاں لوگوں کے خاموش احتجاج پر توجہ نہیں دی گئی۔ اور جب انقلاب سر پر آگئے تو تبدیلی کی خونریز بھینٹ لئے بغیر پلٹا نہیں۔ حکمرانوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ دیکھتے ہوئے بھی دیکھ نہیں پاتے ہیں۔ آنکھیں موند لیتے ہیں۔ روس، چین، ایران، مصر، لیبیا، رومانیہ وغیرہ میں ایسا ہی ہوا تھا۔ محسوس ہوتا ہے پاکستان کے بد ترین معاشی حالات نے وسائل اور ذرائع آمدن سے محروم لوگوں کو تنگ آمد جنگ آمد پر مجبور کر دیا ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کسی بھی تاخیر کے بغیر نتیجہ خیز اقدامات کرنا پڑیں گے۔ بجلی کے بلوں میں مداوا اور بازار میں خود ساختہ مہنگائی پر قابو پانے کے اقدامات کرنا ہوں گے۔
پاور ڈویژن ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ سرکاری بجلی کمپنیوں کے افسران کو سالانہ 13ارب روپے کی مفت بجلی ملتی ہے، اور صرف گریڈ ایک سے 4تک کے ملازمین کو ماہانہ 100یونٹ فری ملتے ہیں۔ گریڈ 17سے21 تک کے سرکاری افسران کی مفت بجلی ختم کرنیکی تجویز اور مفت بجلی کا خاتمہ، اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ہی ہے۔ ایک دستاویز کے مطابق سرکاری ملازمین ماہانہ 34کروڑ یونٹ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ گریڈ 17سے21کے ملازمین 70 لاکھ یونٹس ماہانہ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ گریڈ17سے 21تک کے مفت بجلی استعمال کرنیوالے ملازمین کی تعداد 15971ہے۔ دستاویز میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ 15ہزار ملازمین کی سہولت ختم کرنے سے بھی خاص فرق نہیں پڑے گا جب تک تمام ملازمین کی یہ سہولت ختم نہیں کی جاتی۔ گریڈ 16تک کے دیگر ملازمین 33کروڑ یونٹ ماہانہ مفت بجلی استعمال کرتے ہیں ۔ گریڈ1 تا 16 تک مفت بجلی استعمال کرنیوالے ملازمین کی تعداد1 لاکھ 73 ہزار200 ہے۔ گریڈ1 تا 16 تک کے ملازمین سالانہ 10 ارب کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں۔ گریڈ 17 تا 21 کے ملازمین سالانہ 1 ارب 25 کروڑکی بجلی مفت استعمال کر رہے ہیں ۔ گریڈ1سے16کے ملازمین ماہانہ 76کروڑ43لاکھ روپے کی مفت بجلی استعمال کرتے ہیں ۔ کیا یہ حل ہے کہ سرکار بجلی کے محکموں میں کام کرنے والے افسران کو بلا معاوضہ فراہم کی جانے والی بجلی کی سہولت ختم کر دیں گے تو مسلہ حل ہو جائے گا۔ پاور سیکٹر میں کام کرنے والے بڑے اور چھوٹے تمام ملازمین کی یہ سہولت ختم کی جائے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر کے تمام سرکاری افسران کی تمام بلا معاوضہ سہولتیں یکسر ختم کی جائیں۔ وہ خواہ بجلی ہپو، پیٹرول ہو، اضافی ملازمین ہوں۔ جو لوگ بھی ملازم ہیں وہ باقاعدہ تن خواہیں وصول کرتے ہیں تو بھی انہیں کس بات کی دیگر بلا معاوضہ سہولتیں دی جائیں۔ بہت بڑی رقم لگا کر یہ مراعات اور سہولتیں دی جاتی ہیں۔
آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کو قرضہ اسی شرط پر دیا کہ پٹرول اور بجلی کے ریٹ میں اضافہ کیا جائے۔
حکومت نے اپنی جان چھڑانے کے لئے آنکھ بند کر کے اضافے کر دئیے اور سابق وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار پردیس سدھار گئے۔ انہیں غرض نہیں کہ ملک میں کیا ہوتا ہے۔ ملک جانے، عوام جانے اور نگراں حکومت جانے۔ مہنگی بجلی اور لوڈ شیڈنگ نے معیشت و عوام کو تباہی کے دہانے پہنچا دیا۔ کاروباری لوگوں کا خیال ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں پے در پے اضافے کے بعد تاجر و صنعتکاروں کے حالات مزید بدترین ہو گئے ہیں اور کاروبار بند ہونے کے باعث بیروزگاری کا طوفان آ جائے گا جسکے باعث جرائم کی تعداد میں بھی اضافہ ہو جائے گا اور ہو بھی رہا ہے۔ جو چیز برگشتہ کر تی ہے وہ بجلی کے بل میں فیول ایڈجسمنٹ، ٹی وی، ریڈیو، انکم ٹیکس اور دیگر ٹیکس شامل کر کے بجلی کے بل کو دوگنا کر دیا گیا ہے ۔ صارفین اگر بجلی استعمال کرتے ہیں تو وہ صرف بجلی کی قیمت ادا کرنے کا پابند ہیں۔
کئی شہروں میں تو بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیاں کسی ثبوت کے بغیر صارفین کے خلاف detectionلگا دیتے ہیں جس کو کوئی تسلی بخش جواب نہیں دیا جاتا ہے۔ یہ قدم کمپنیاں اپنے نقصانات کی پردہ پوشی کے لئے اٹھاتی ہیں۔ بجلی کی حالیہ قیمتوں میں اضافے اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے بعد عوام کی روزمرہ زندگی پر اس کے برے اثرات پڑ رہے ہیں اور عوام ذہنی مریض بنتی جا رہی ہے اس بیروزگاری کی دوران خودکشی کے واقعات میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ بجلی بل میں اضافی تمام رقم ختم کرنے کے علاوہ تقسیم کار کمپنیوں کے بدعنوان عملے کے خلاف سخت تادیبی کارروائی بھی کی جائے۔ ایک طرف ملک بھر ملک بھر میں عوام بجلی کے بھاری بلوں سے بلبلا اٹھے ہیں اور پورے ملک میں مظاہرے اور احتجاج کئے جارہے ہیں تو دوسری طرف بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے افسران اور دیگر سرکاری افسر مفت بجلی و پٹرول کے مزے لوٹ رہے ہیں اور ملازمین غیر قانونی طریقے سے بجلی استعمال کر ا نے کے ماہانہ پیسے وصول کر رہے ہیں۔ کوئی بھی نہایت کم داموں یا مفت میں بجلی کے استعمال پر شرم محسوس نہیں کرتے ہیں۔ احساس مر گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button