ColumnNasir Naqvi

عزت و توقیر میں اضافہ

ناصر نقوی
دنیا کی ساتویں اور اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت جس بحرانی دور سے گزر رہی ہے۔ 76سال میں ایسے حالات کبھی نہ تھے۔ سب کے سب ایک دوسرے پر الزامات لگا کر رات کو سو جاتے تھے یہ الگ بات ہے کہ اشرافیہ مال دار طبقہ سکھ کی نیند میں خواب خرگوش کے مزے لیتا ہے اور غریب ساری رات کروٹ بدل بدل کر سونے کی ناکام کوشش کرتا ہے کیونکہ ناکامی اس کی غربت کا ’’ ایوارڈ‘‘ ہے، اسی حال میں صبح ہوتے ہی روٹی روزی کی تلاش میں نکل پڑتا کیونکہ کچھ نہ کچھ کرے گا تو اپنا اور گھر والوں کا پیٹ بھرے گا جبکہ متوسط طبقہ سرکاری ملازم اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنے کے لیے رات بھر تارے گنتے، ’’ اگر مگر‘‘ کی منصوبہ بندی میں نہ سو سکتے ہیں اور نہ ہی جاگ پاتے ہیں۔ ان دونوں طبقات کی الجھنیں ’’ لمحہ موجود‘‘ میں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ اگر قسمت سے آنکھ لگ بھی جائے تو خواب بھی ڈرائونے دکھائی دیتے ہیں۔ ’’ سنہرے خواب‘‘ دکھا دکھا کر حکمرانوں اور سیاست دانوں نے نہ گھر کا چھوڑا نہ گھاٹ کاسیانے کہتے ہیں جیسی روح ویسے فرشتے لیکن ممتاز شاعر ’’ جون ایلیا کا کہنا ہے:
وہ فرشتے بھی بْرا لکھتے رہے
جنہیں کاندھوں پر بٹھائے رکھا
اب بتائیے بندہ خدا تو اتنا مجبور ہے وہ بھلا حکمرانوں سے کیسے مقابلہ کرے یا سیاست دان کے دائو پیچ کیسے سمجھے؟ پھر بھی کہا یہی جاتا ہے کہ ’’ جیسی قوم ویسے حکمران؟‘‘ میں اس بات سے اختلاف رکھتا ہوں اس لیے کہ 14اگست 1947ء کو بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ کی قیادت میں آزاد زندگی اور آزاد فضاء کا سفر شروع کرنے والی پاکستانی قوم نے بے سرو سامانی میں زیرو سے ہیرو بن کر دکھایا اس قوم نے پہلا سائنسی تجربہ 1962ء میں کیا اور ’’ ایشیا‘‘ کے پہلے خلا میں راکٹ بھیجنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ پھر جب بھارت نے ’’ ایٹمی دھماکہ‘‘ کر کے 1998ء میں خطے کا امن خراب کرنے اور اپنی چودھراہٹ کا پیغام دینے کی کوشش کی تو ردعمل میں دھماکے کر کے بھی جواب دے دیا کہ ہم کسی سے کم نہیںپاکستان اپنے محسن ڈاکٹر عبدالقدیر خاں کی قیادت میں یہ صلاحیت بہت پہلے بلکہ برسوں پہلے حاصل کر چکا تھا لیکن ایک پُرامن اور امن پسندی میں اس کے جارحانہ عزائم کبھی بھی نہیں تھے۔ بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے اور وہاں کبھی آمریت بھی نہیں آئی لیکن غربت، آبادی، صحت کے مسائل، جنسی ہراسگی، نسلی ، علاقائی فسادات کو آج تک نہیں کچلا جا سکا، انتہا پسندی اور انسانی حقوق کی پامالی اپنے عروج پر ہے۔ عام آدمی کو ’’ ٹوائلٹ‘‘ جیسی بنیادی ضرورت فراہم نہیں کی جا سکی لیکن مودی سرکار ناانصافیوں اور اقلیتوں کی قتل و غارت گری کے بعد ’’ چندریان تھری‘‘ کے ذریعے ’’ چاند‘‘ پر پہنچ کر اتراتے پھر رہے ہیں لہٰذا سوال یہ پیدا ہو گیا کہ اکٹھے آزاد ہونے والے ممالک میں زمین آسمان کا فرق کیوں؟ جھوٹ، فراڈ، کرپشن، سیاسی افراتفری بھارت میں بھی کم نہیں، وہاں بھی سابق حکمران نہ صرف تنقید کا نشانہ ہیں بلکہ ’’ جیل یاترا‘‘ کر رہے ہیں۔ فرق کی حقیقی وجہ ’’ سسٹم کی خرابی‘‘ ہے ان کی جمہوریت نے ریاستی وسائل ’’ پارلیمنٹ‘‘ کی بالا دستی سے نہ صرف استعمال کئے بلکہ اپنے قومی اداروں کو مستحکم کیا لہٰذا کسی حد تک ان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہوا۔ بڑی آبادی اور بڑے ملک کے حوالے سے دنیا کی مفاد پرستی میں توجہ حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ یہ حالات کار پاکستان کے نصیب میں نہیں آتے۔ اس میں عوام سے زیادہ آمروں اور عوامی حکمرانوں کی غلطیاں پائی جاتی ہیں جس کی بنیاد جنرل ایوب خاں نے رکھی اور اسے جنرل ضیاء الحق نے استحکام دیا۔ رہی سہی کسر جنرل پرویز مشرف پوری کر گئے۔ ان حکمرانوں نے ’’ امریکہ بہادر‘‘ کی نوکری چاکری میں نوٹ کمائے، عوام کو بھی ایسی ہڈی ڈالی کہ وہ اسی کو زندگی سمجھتے رہے ’’ خواب بکھرے‘‘ تو پتہ چلا پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو 22خاندانوں سے لڑتے لڑتے پھانسی چڑھ گئے۔ اب تو جائز ناجائز کا دھندہ ایسا ہوا کہ سیٹھوں کی ایک نئی فصل کھڑی ہو گئی۔ 22خاندان تو ختم نہ ہوئے یہ 22ہزار سے بھی زیادہ ہو گئے۔ نتیجتاً عوامی، اخلاقی اور سماجی روایات تبدیل ہو گئیں۔ عزت و توقیر کا معیار بھی مال و دولت سے جوڑ دیا گیا۔ قومِ اشرافیہ نے جنم لیا اور اب باقی سب بے یار و مددگار منتخب اور غیر منتخب نمائندے بھی خدمت عوام کو کاروبار بنا بیٹھے۔ حالات اس قدر بگڑے کہ سیاست اور الیکشن بھی کروڑوں اربوں کا منصوبہ بن گیا، عزت و شرافت، علم و دانش بالائے طاق محفوظ کر دی گئی۔ مال و دولت عزت و توقیر کا معیار ٹھہرا لہٰذا جس کا جہاں ہاتھ پڑا اس نے کم نہیں کی، بلکہ سوچ یہ پروان چڑھی کہ جو جائز ناجائز کا درس دیتے ہیں دراصل وہ ناکام لوگ ہیں ان میں نہ ترقی کی صلاحیتیں ہیں اور نہ ہی ان کا کہیں ہاتھ پڑا اس لیے مایوسی میں درس حق و سچ او ر نیک نامی کا سہارا لئے بیٹھے ہیں ورنہ کم ان لوگوں نے بھی نہیں کرنی تھی حالانکہ حکمرانوں نے ’’ چن چڑھا‘‘ دیا، مہنگائی، بے روزگاری اور کاروباری مندی یوں گلے پڑی ہے کہ اچھے بھلے پاکستانی خاندانوں کے لیے جینا حرام ہو گیا۔

بحیثیت قوم اب ہماری ’’ جمع تفریق‘‘ میں کامیابی اور عزت و توقیر مال و زر کی غلامی بن گئی۔ حلال و حرام، جائز ناجائز سب الفاظ بے کار۔ دعویٰ یہ ہے کہ ہر کوئی ظاہری شان و شوکت دیکھتا ہے، کوٹھی، کار، بینک بیلنس اور برانڈ کے کپڑے متاثر کن ہوتے ہیں،’’ جائز ناجائز‘‘ کوئی نہیں پوچھتا؟ سابق صدر ممنون حسین انتہائی وضع دار تھے وہ کرپشن، لوٹ مار، چوری، ڈکیتی، جائز ناجائز اور حق سچ کا لیکچر ہر تقریب میں ضرور دیا کرتے تھے۔ ان کا گلہ تھا کہ لوگوں نے اپنے بزرگوں کی روایات سے منہ موڑ لیا ہے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں دھن دولت اور ظاہری شان و شوکت ہی سب کچھ ہے۔ پہلے لوگ دیکھتے تھے کہ اگر لڑکی، لڑکے کا رشتہ کیا جائے تو خاندان کیسا ہے؟ چور، ڈاکو، لٹیرے اور کرپٹ لوگ تو نہیں؟ اب سب کے سب دنیا کی رنگینیوں کے غلام ہو کر روایات بھول گئے، ماضی میں اگر کسی خاندان کے معاملات تھانے پولیس تک پہنچ جاتے تو دوست احباب ہی نہیں، خاندان والے بھی اس سے تعلقات ختم کر دیا کرتے تھے لیکن اب یہ خامیاں خوبی بن چکی ہیں۔ حکمرانوں اور سیاست دانوں نے ایسی روایات کو جنم دیا کہ عام آدمی بھی بڑے سے بڑا فراڈ کر کے اپنا اور خاندان کا معیار زندگی بہتر کرنا چاہتا ہے اسے دنیا کی فکر اس لیے نہیں کہ ہر سطح پر ’’ مک مکا‘‘ کا فارمولا رائج العمل ہے اور دین کے لیے پریشان نہیں کہ وہ امت محمدی میں شامل ہے۔ آقاؐ اسے بخشوا لیں گے، ویسے بھی مالک کائنات نے توبہ کے دروازے بندہ گنہگار کو معاف کرنے کے لیے کھلے رکھے ہیں۔ دنیا داری میں اسے یہ بات یاد نہیں کہ اس نے صرف ’’ حقوق اللہ‘‘ کی معافی کا اعلان کیا ہے۔ حقوق بندہ و انسانیت کا نہیں؟ صدر ممنون حسین دنیا سے رخصت ہو چکے لیکن ان کے صدارتی دور میں بھی ان کی یہ خواہش اور آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز ہی شمار ہوئی، عوامی اصلاح تو دور کی بات ہے ان کے اپنے وزیراعظم نواز شریف اور کابینہ کے ارکان پر کوئی اثر نہ ہوا، وجہ کیا ہے؟ اس کا نسخہ ایک ہی ہے کہ اگر رشوت لیتے پکڑے گئے تو رشوت دے کے چھوٹ جائو کیونکہ جن اہلکاروں نے آپ کو کرپشن میں دبوچ لیا ہے ، دنیاوی مسائل نے انہیں بھی تو قابو کر رکھا ہے، ان کی بھی ترقی و خوشحالی کی خواہش ہے۔ آخر وہ بھی آدم زادے ہیں کوئی فرشتہ نہیں؟۔
پہلے پہل صرف سیاستدان، سابق حکمران مقدمات میں پھنستے تھے لیکن جوں ہی حالات میں تبدیلی آتی وہ نہ صرف آزاد ہو جاتے بلکہ ان کی عزت و توقیر میں اضافہ ہو جاتا۔ بیانیہ قوم کے دکھ میں قید کاٹنے کا بنتا اور مالی بے ضابطگیاں پس پردہ چلی جاتیں، لیکن زبردستی کے صدر پرویز مشرف نے جب دیکھا کہ لیڈر، صنعت کار اور اعلیٰ عہدیداران اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہے تو ’’ احتساب‘‘ کے نام پر ’’ نیب‘‘ کو جنم دے دیا جس کے قواعد و ضوابط میں پکڑ، دھکڑ اور جکڑ کے ساتھ ’’ پری بارگیننگ‘‘ کا تعویز بھی دے دیا گیا۔ اس طرح کرپٹ لوگوں کو دوہری سہولت مل گئی۔ پہلے کرپٹ اور ناجائز کاروباری شخصیات کو پکڑیں ، رگڑا دے کر بارگیننگ پوزیشن پر لائیں پھر کروڑوں، اربوں کی وصول شدہ رقم پر اپنا جائز ’’ پرسنٹ ایج‘‘ منافع لیں اور اگر دائو لگ جائے تو انڈر دی ٹیبل بھی لیں مریں، یوں بڑے بڑے عزت دار اور نامور سیاستدان، صنعت کار، سرمایہ دار پھڑے گئے اور رہا ہو کر معاشرے میں عزت و توقیر کے ساتھ پھر رہے ہیں۔ فارمولا ایک ہی ہے کہ ’’ وڈا ہتھ مارو‘‘ جیو اور جینے دو کے اصول پر سودا کریں۔’’ قائداعظم‘‘ سے ملاقات کرائیں،’’ پیٹی‘‘ سے ’’ ٹرک‘‘ میں معاملہ طے پا جائے گا آپ بھی سکون سے رہیں اور وہ بھی رہیں آرام کے ساتھ اس تمام روئداد سے آپ اور ہم واقف ہیں، لہٰذا اتفاق ہی کریں گے لیکن حالات کس حد تک پہنچ چکے ہیں اس ’’ ہڈ بیتی‘‘ سے اندازہ لگا لیں ہمارے ایک دوست کے عزیز چند روز پہلے ایف آئی اے کے قابو آ گئے۔ بینک افسر ہیں، الزام لگا کہ ڈالروں کی بدمعاشی میں سہولت کاری شہر کے کروڑ پتیوں کے کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے خدمات انجام دیں۔ مال کمایا تھا لہٰذا تھوڑا سا مال لوٹا کر باعزت گھر پہنچ گئے۔ یقینا انہوں نے ذمہ داروں کو شریفانہ یقین دہانی کرائی ہو گی کہ ’’ رل کھاواں گے کھنڈ کھاواں گے‘‘بال بچہ پریشان تھا لہٰذا ہمارے دوست گجر ہائوس میں بیٹھے بیٹھے ہی پریشان ہو گئے کیونکہ ان کی شرافت کا یہی تقاضا تھا وہ کیا جانیں کہ اس کارروائی والے لوگ ذہنی طور پر ’’ قید و بند‘‘ کے لیے تیار ہوتے ہیں اس لیے کہ وہ جانتے ہیں کہ پکڑے جائیں گے تو پچھلے کھاتے صاف ہوں گے اور ذمہ داروں سے تعلقات راہ رسم استوار ہو ںگے لہٰذا جب ہمارے معصوم دوست نے موصوف سے افسوس کیا تو ایک مرتبہ پھر پریشان ہو گئے جواب ملا یہ کاروباری اور مالدار لوگو ں کا دھندہ ہے تم لوگ کیا جانو اس کی قدر غریب و متوسط طبقے کے کاروباری لوگجب کاروبار اور ٹارگٹ بڑا ہوتا ہے تو اس کے امتحان بھی ویسے ہوتے ہیں۔ بندہ تجربات اور مشاہدات کی بھٹی میں ہی کندن بنتا ہے اب یہ مسائل عزت و توقیر میں اضافہ کرتے ہیں کیونکہ یہ کام ’’ کنگلے‘‘ نہیں کرتے، روپیہ ہی روپے کو کھینچتا ہے۔ معصوم دوست پریشان ہے کہ وہ جس سے بھی بات کرتا ہے وہ اسے ہی بیوقوف قرار دے رہا ہے اب گجر صاحب مجھ سے فتویٰ مانگ رہے ہیں اخلاقیات کا میں ہوں پرانی روایات کا قائل، کلمہ گو کی حیثیت سے ’’ جزا و سزا‘‘ کے دن پر ایمان ہے، میں بھلا کیسے ناجائز کو جائز قرار دے سکتا ہوں لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہی آج کے دور کی کامیابی ہے تو ہم کیوں نہ اپنائیں، عزت و توقیر میں اضافہ اس کے بغیر ممکن نہیں؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button