ColumnRoshan Lal

چھوٹی جیلیں اور بڑا جیل خانہ

روشن لعل
جیل کا نام سنتے ہی ذہن میں فوراً خیال آتا ہے کہ یہ عمارت جرائم پیشہ لوگوں کو قید رکھنے کے لیے بنائی جاتی ہے۔ فی زمانہ یہ خیال بڑی حد تک درست ہے مگر تاریخ کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ گزرے زمانوں میں قید خانے مجرموں کے لیے مقام عبرت سے زیادہ حریت پسندوں کے لیے ریاستی جبر کی قبیح مثالیں ہوا کرتے تھے۔ تاریخ شاہد ہے کہ ماضی میں شاہوں کے خیر خواہ چاہے عام لوگوں پر جبر، ظلم اور ستم کرتے ہوئے جتنی بھی لوٹ مار کر لیں ان کے لیے ریاستی درگزر کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے مگر جونہی کوئی صاحبان اقتدار کے لیے خطرہ بنتا تو اسے نشان عبرت بنانے کے لیے عقوبت خانوں کی نظر کر دیا جاتا تھا۔ کرہ ارض کی ابتدائی جیلوں کے آثار مصر اور میسوپوٹیمیا ( قدیم عراق) کی ہزاروں سال پرانی تہذیبوں میں نظر آتے ہیں۔ دنیا کی ان قدیم ترین جیلوں میں زیادہ تر ریاست کے باغیوں اور ان غلاموں کو قید رکھا جاتا تھا جن سے عالیشان محلات کی تعمیر کے لیے بیگار لی جاتی تھی۔ قدیم مصر اور میسوپوٹیمیا کے بعد یونان کی قدیم تہذیب میں قید خانوں کے آثار ملتے ہیں۔ قدیم یونان کے قید خانوں کے متعلق ماہرین آثار قدیمہ نے جو حیران کن معلومات فراہم کی ہیں ان کے مطابق اس دور کی جیلوںکا ماحول ماضی کے عقوبت خانوں سے مختلف ہوتا تھا۔۔ قدیم یونان کی جیلوں میں قیدیوں کو سابقہ ادوار کی طرح سرتا پا آہنی زنجیروں میں نہیں جکڑا جاتا تھا بلکہ ان کے پائوں میں پہنائی گئی زنجیر کو لکڑی کے ایک بڑے ٹکڑے کے ساتھ باندھ دیا جاتا تھا تاکہ وہ چل پھر تو سکیں مگر ان کے لیے جیل سے فرار ہونا ممکن نہ رہے۔ اس دور کی جیلیں قدیم ماضی کے ایسے قید خانے تھے جہاں قیدیوں کے عزیز و اقارب اور دوستوں کو ان سے ملنے کی اجازت تھی۔ قدیم یونان کے نسبتاً بہتر قید خانوں کے بعد قدیم تاریخ میں جن بدترین جیلوں کا ذکر ملتا ہے وہ رومن ایمپائر کے عقوبت خانے تھے۔ تاریخ دانوں کے مطابق رومن ایمپائر کے قید خانوں میں زیادہ تر شہنشاہوں کے باغی اور دشمن فوج کے جنگی قیدی مقید رکھے جاتے تھے۔ رومن ایمپائر کا زمانہ قیدیوں کے لیے شرمناک ترین قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اس دور کے شہنشاہ اپنی تفریح کے لیے سٹیڈیم نما میدانوں میں قیدیوں کا گلیڈی ایٹر کی شکل میںدوسرے قیدیوں سے ایسا مقابلہ کراتے تھے جس کا انجام دونوں یا کسی ایک کی موت ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ قیدیوں کا بھوکے شیروں تک سے مقابلہ کروا دیا جاتا تھا۔
جہاں تک برصغیر پاک و ہند کا تعلق ہے تو یہاں بھی قید خانوں کی تاریخ جرائم کے خاتمے سے زیادہ راجے مہاراجوں، سلاطین اور بادشاہوں کے اقتدار کے تحفظ سے جڑی نظر آتی ہے۔ اقتدار کے لیے غیروں کو قید میں رکھنا تو کوئی انوکھی بات نہیں مگر بر صغیر کی تاریخ میں تو باپ کی طرف سے پدرانہ شفقت کو فراموش کرتے ہوئے بیٹوں کو قید کرنا یا بیٹوں کا باپ کی تعظیم درگزر کر کے اسے زنداں میں رکھنے جیسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ بادشاہوں اور راجے مہاراجوں کے بعد انگریزوں نے بھی برصغیر میں اپنے اقتدار کی وسعت اور تحفظ دینے کے لیے عقوبت خانوں کا انتہائی بے دردی سے استعمال کیا۔ انگریزوں نے جزائر انڈیمان نکوبار ( کالا پانی) میں بنائی گئی جیل کو باغیوں اور سیاسی قیدیوں کو نشان عبرت بنانے کے لیے خاص طور پر استعمال کیا۔ کالا پانی جیل میں قیدیوں پر کی گئی بے رحمی کا یہ عالم تھا کہ وہاں قید کئی جری جوانوں نے سختیوں کو ناقابل برداشت تصور کرتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر لیا۔
اپنے اقتدار کے تحفظ کے لیے قید خانوں کا جس قدر وحشیانہ استعمال ہٹلر نے کیا اس کی مثال تاریخ میں کم ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر نے 300کے قریب ایسے خصوصی قید خانے بنائے جہاں سیاسی مخالفین کے علاوہ کثیر تعداد میں یہودیوں، سیاہ فام شہریوں اور جنگی قیدیوں کو رکھا گیا۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ان میں سے کئی ملین قیدیوں کو بغیر کسی قانونی کارروائی کے وحشیانہ طریقے استعمال کرتے ہوئے قتل کر دیا گیا۔ قید کیے گئے لوگوں کو وحشیانہ طریقے سے قتل کرنے کی ایک مثال افغانستان میں وہاں بدنام زمانہ سابق جرنیل رشید دوستم نے بھی قائم کی۔ رشید دوستم پر الزام ہے کہ امریکہ میں کی گئی 9؍11کی دہشت گردی کے نتیجے میں طالبان حکومت سرنگوں کیے جانے کے بعد اس نے جنگی قیدی بنائے گئے سیکڑوں طالبان کو اس طرح کنٹینروں میں بند کر کے اس طرح سخت دھوپ میں رکھا کہ وہ وہاں دم گھٹنے سے مر گئے۔
دنیا میں جہاں اقتدار کے تحفظ کے لیے قید خانوں کا بدترین استعمال ہوا وہاں قیدیوں کے حقوق کے تحفظ کی آوازیں بھی بلند ہوتی رہیں۔ نہ صرف عام لوگوں بلکہ قیدیوں کے حقوق کی تحفظ کی تحریک میں بھی میگناکارٹا کو انتہائی اہم دستاویز تسلیم کیا جاتا ہے۔ میگنا کارٹا 804 برس قبل انگلینڈ کے بادشاہ جان اور جاگیر داروں کے درمیان ہونے والا ایسا معاہدہ تھا جس میں دیگر باتوں کے علاوہ یہ بھی طے پایا کہ آئندہ جاگیر داروں کو کسی مقدمہ کے اندراج اور فیصلے کے بغیر محض بادشاہ کے حکم پر گرفتار کر کے قید میں نہیں رکھا جاسکے گا۔ گوکہ میگنا کارٹا عام شہریوں کا نہیں بلکہ بادشاہ ، چرچ اور جاگیر داروں کے اختیارات اور حقوق کے تحفظ کا معاہدہ تھا مگر اس معاہدے کے بعد ہی عام لوگوں میں یہ شعور پیدا ہوا کہ ان کے بھی طے شدہ حقوق ہونے چاہئیں، ان کی شخصی آزادیوں کا بھی تحفظ ہونا چاہئے اور انہیں بھی مقدمات کے اندراج اور فیصلوں سے پہلے جیلوں میں قید رکھے جانے پر پابندی عائد ہونی چاہئے۔ جس ملک میں ماضی میں میگنا کارٹا طے ہوا تھا آج وہاں کی جیلوں کو ریفارم سینٹرز کا نام دیا جاتا ہے۔
بادشاہ کے لامحدود اختیارات کے سامنے مخصوص غیر شاہی لوگوں کے حقوق طے کرنے والا میگنا کارٹا تو 1215میں تحریر ہوا تھا مگر عام لوگوں کو اپنے حقوق کے خط و خال وضع ہونے کے لیے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے 111آرٹیکلوں کی منظوری تک کئی صدیاں انتظار کرنا پڑا۔ اقوام متحدہ کے چارٹر میں عام لوگوں کے انسانی حقوق طے تو کیے جاچکے ہیں مگر دنیا کے ہر ملک میں اس چارٹر پر کماحقہ عمل اب بھی ممکن نہیں ہو سکا۔ پاکستان کا شمار بھی ایسے ہی ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی حقوق پر عملدرآمد کی صورتحال تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔ انسانی حقوق کے حوالے سے جو لوگ یہاں بہت بری طرح نظر انداز کیے گئے ہیں وہ جیلوں میں بند قیدی ہیں جیلوں میں بند قیدیوں کے حالات یہاں کس قدر مخدوش ہیں اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ یہاں صرف عام قیدی ہی نہیں بلکہ سابقہ حکمران بھی جیل میں اپنی حیثیت کے مطابق طے شدہ رعایتیں نہ ملنے پر نالاں نظر آتے ہیں۔ اس معاملے میں اگر سابق حکمران یہ کہیں کہ اقتدار اور اختیار کی طاقت کو ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے لیے استعمال کیا جارہا ہے تو حالیہ حکومت کے پاس بھی اپنی صفائی میں کہنے کو بہت کچھ ہوتا ہے۔ سابقہ یا موجودہ حکمران اپنے قید کیے جانے پر چاہے جو بھی کہتے ہوں مگر کچھ صاحب فہم لوگوں کا یہ ماننا ہے دوسروں کے لیے ملک کو بڑا جیل خانہ بنا نے کی کوشش کرنے والے خود ہی اپنے لیے چھوٹی جیلوں میں جانے کا بندوبست کرتے رہتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button