Column

ڈرگ ایکٹ کا نفاذ ترجیحی بنیادوں پر کیا جائے

رفیع صحرائی
گزشتہ دنوں بہاول پور یونیورسٹی کا سکینڈل منظرِ عام پر آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر چھا گیا۔ ہر محفل میں یہ سکینڈل موضوعِ گفتگو بن گیا مگر حیرت انگیز طور پر چند ہی ہفتوں بعد یہ سکینڈل میڈیا سے اس طرح غائب ہو گیا جیسے کہ کبھی اس کا وجود ہی نہ تھا۔ ثابت ہوا کہ مافیاز کے آگے کوئی نہیں ٹھہر سکتا۔ خواہ میڈیا ہو یا حکومت، مافیاز کے حضور سبھی دست بستہ ہیں۔
ایک اور مافیا جس نے ملک بھر کے تعلیمی اداروں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے وہ ڈرگ مافیا ہے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کے بعد اب اس مافیا نے سکولوں کو بھی ٹارگٹ کر لیا ہے۔ اس طرف حکومت کو پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ آنے والی نسل کو بچایا جا سکے۔
سابق وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب پرویز الٰہی کے دور میں پنجاب حکومت نے نوجوان نسل اور خصوصاً طلبہ میں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال اور اس کی فروخت کو روکنے کے لیے ایک نیا محکمہ اور صوبے بھر میں خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ مجوّزہ محکمے کا نام ’’ کنٹرول آف نارکوٹکس ڈیپارٹمنٹ‘‘ تجویز کیا گیا تھا۔ اس سلسلے میں قانون سازی کو حتمی شکل دی جا رہی تھی۔ مجوزہ قانون میں منشیات کی تیاری، ترسیل، فروخت اور معاونت پر سخت سزائیں اور بھاری جرمانے تجویز کیے گئے تھے۔ ایوانِ وزیرِ اعلیٰ میں روزانہ کی بنیاد پر میٹنگز چل رہی تھیں اور اس قانون کو حتمی شکل دی جا رہی تھی کہ پرویز الٰہی کو اپنی حکومت عمران خان کے ایک غلط سیاسی فیصلے کی بھینٹ چڑھانا پڑ گئی۔۔ مجوزہ قانون میں نوجوانوں کے اعصاب اور رویّوں پر منفی اثر ڈالنے والی متعدد اشیا ء کو نشہ آور لسٹ میں شامل کیا گیا تھا۔ تعلیمی ادارے کی حدود میں منشیات کی فروخت اور استعمال ثابت ہونے پر اس ادارے کی انتظامیہ کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ منشیات کی روک تھام کے لیے سپیشل انٹیلی جنس ونگ کا قیام جبکہ منشیات کے عادی افراد کی رجسٹریشن اور ان کے علاج کے لیے اتھارٹی قائم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا تھا۔
دیکھا جائے تو پنجاب کی حکومت کا تعلیمی اداروں سے منشیات کے خاتمے کا یہ اقدام نہایت قابلِ ستائش تھا۔ اور اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کے استعمال کا مسئلہ گمبھیر صورت اختیار کر چکا ہے۔ دولت کے لالچ میں مفاد پرست عناصر صرف نوجوانوں ہی کے نہیں بلکہ ملک اور قوم کے بھی مستقبل سے کھیل رہے ہیں۔ ایک منظم سازش کے تحت قوم کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کے لیے اس کے نوجوانوں کو ذہنی اور جسمانی طور پر مفلوج کیا جا رہا ہے۔ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ والدین بڑی امیدوں اور امنگوں کے ساتھ آنکھوں میں جانے کیا کیا سپنے سجائے اپنے بچوں کو بڑے شہروں کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے بھیجتے ہیں مگر یہ نوجوان وہاں ڈرگ مافیا کے ہتھے چڑھ کر اپنا مستقبل برباد اور والدین کے خواب چکنا چور کر دیتے ہیں۔
حکومتِ پنجاب قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے والے ان درندہ صفت عناصر کی سرکوبی کے لیے پُر عزم تھی۔ نئے قانون کے تحت تجویز دی گئی تھی کہ جن جرائم کی سزا دو سال تک ہو گی اس کے لیے بنائی گئی خصوصی عدالت میں درجہ اول کا میجسٹریٹ ہو گا۔ مجوزہ قانون میں 57مختلف قسم کی منشیات اور نشہ آور اشیا ء کو شامل کیا گیا تھا۔ تعلیمی اداروں کے گرد 500میٹر کی حدود میں منشیات فروشی پر کم سے کم سات سال اور زیادہ سے زیادہ چودہ سال قید کی سزا تجویز کی گئی تھی۔ یہ بھی کہا گیا تھا کہ منشیات کے عادی کے علاج کا پہلی دفعہ خرچہ حکومت برداشت کرے گی۔ نئے قانون کے تحت نارکوٹکس کنٹرول تھانے قائم کیے جانے تھے۔ تمام ٹیلی کام اور انٹرنیٹ کمپنیوں کو نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کو اپنے سسٹم تک رسائی دینے کا پابند بنایا گیا تھا۔ ایسا نہ کرنے یا انکار کی صورت میں تین سال قید اور دس لاکھ روپے تک جرمانہ کی تجویز تھی۔
دیکھا جائے تو پنجاب کی سابق حکومت نے نوجوانوں اور قوم کے مستقبل کو بچانے کے لیے ایک بہترین عملی کام کا آغاز کیا تھا جو بوجوہ پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا۔ موجودہ نگران حکومت میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب جناب محسن نقوی حقیقی معنوں میں میاں شہباز شریف سے بڑھ کر نہیں تو ہم پلہ ضرور ثابت ہوئے ہیں۔ اگر وہ سابقہ حکومت کے اس منصوبے کو اڈاپٹ کر لیں تو یہ صوبے کے لیے ایسی گراں قدر خدمت ہو گی جو انہیں امر کر دے گی۔
معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے اور ملک و قوم کے مستقبل کے ساتھ کھیلنے والے منشیات فروش کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ ان کے لیے تو سرِ عام پھانسی کی سزا ہونی چاہیے۔ یہ ظالم روزانہ کی بنیاد پر کتنے والدین کی امیدوں کے مراکز چھین رہے ہیں، نوجوان سہاگنوں کو بیوہ اور ننھے معصوم بچوں کو یتیم کر رہے ہیں۔ مجوزہ قانون میں یہ شق ضرور رکھی جانی چاہیے کہ منشیات فروشی کے کیس کا فیصلہ تیس دن کے اندر کر دیا جائے گا اور یہ جرم ناقابلِ ضمانت ہو گا۔ یا تو ملزم اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کر کے تیس دن میں جیل سے باہر آ جائے گا یا پھر جرم ثابت ہونے پر سزا بھگتے گا۔ قانونی موشگافیاں اور طوالت سے چالاک مجرم اکثر فائدہ اٹھا جاتے ہیں۔
حکومت پنجاب کو چاہیے کہ منشیات فروشوں کے خلاف قانون سازی اور الگ محکمہ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ طلبا ء میں منشیات فروشی کے خلاف شعور اجاگر کرنے کے لیے ڈرگ ایجوکیشن کی طرف بھی توجہ دے۔ آٹھویں جماعت سے دسویں جماعت تک کے طلبہ عمر کے اس حصے میں ہوتے ہیں جہاں ان کے ذہن کے کورے کاغذ پر کوئی بھی تحریر لکھی جا سکتی ہی۔ یہی عمر جذبات، احساسات اور رجحانات میں تبدیلی کی عمر ہے۔ طالب علم کے ذہن کو جس طرف موڑیں گے وہ مڑ جائے گا۔ طلبہ پر روایتی مضامین کا ہی کافی بوجھ ہے۔ ایسے میں ڈرگ ایجوکیشن کے مضمون کو متعارف کرانا طلبہ پر بوجھ بڑھانے کے مترادف ہو گا لہٰذا اس سلسلے میں نفوذ یا ادخال (infusion)کا طریقہ اختیار کیا جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے سائنس سے متعلق موضوعات کو اسلامیات، معاشرتی علوم اور جنرل سائنس وغیرہ میں شامل کیا گیا تھا اور اس کے بہتر نتائج برآمد ہوئے تھے۔ ڈرگ ایجوکیشن کو بھی اسی طرح نصاب میں شامل کر دیا جائے تاکہ درسی کتب کا حجم بھی نہ بڑھے۔
نفوذ کے طریقے میں چونکہ مجوزہ تصورات کو متعلقہ تعلیمی تجربے میں شامل کیا جائے گا اس لیے وہ زیادہ اچھے طریقے سے ذہن نشین ہو جائیں گے۔ مثال کے طور پر اسلامیات کے مضمون میں جب یہ آیت پڑھائی جائے:
یَا اَیُّھا الَّذینَ آمَنُوا لَا تَقرَبُوا الصّلا وَ انتُم سکاری حتیٰ تعلَمُوا ما تقولُون۔ ( النسا ۔۔43)
ترجمہ: ایمان والو! نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جائو جب تک سمجھنے نہ لگو وہ بات جو تم کہو۔
اس ترجمے کے ساتھ ڈرگ ایجوکیشن کا یہ پیغام دیا جا سکتا ہے کہ نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے اس لیے روکا گیا ہے کیونکہ نشے کی حالت میں انسان اپنا ہوش کھو بیٹھتا ہے اور وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے غافل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح فزیالوجی (Physiology) کے مضمون میں جہاں مختلف اعضا ء کے افعال بیان کیے جا رہے ہوں وہیں طلبہ کو یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ منشیات کے استعمال سے دماغ کیسے مائف ہو جاتا ہے اور دیگر اعضا ء کے افعال میں کیا تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں؟ کون سی مہلک بیماریاں لگنے کا خطرہ ہوتا ہے اور کیسے نشے سے موت واقع ہو جاتی ہے۔ استاد منشیات کے مضر اثرات کو واضح کر کے بیان کرے، گروہی مباحث کی حوصلہ افزائی کرے اور طلبہ کے مختلف نقطہ ہائے نظر کو مجتمع کر کے طلبہ کے سامنے نتیجہ پیش کرے۔ اسی طرح دیگر مضامین کے ساتھ ڈرگ ایجوکیشن کا ربط پیدا کر کے منشیات کی خطرناکی اور مضر اثرات کو طلبہ کے ذہنوں میں راسخ کر کے منشیات کے خلاف نفرت پیدا کی جا سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button