Ali HassanColumn

انتخابات اور دانستہ تاخیر

علی حسن
پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کے سلسلے میں وفاق اور صوبوں میں نگران حکومتیں قائم ہو گئی ہیں۔ نگران حکومت انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومتوں کے قیام تک ملک اور صوبوں کا نظم و نسق چلائیں گی۔ آئین کا تقاضہ ہے کہ نگران حکومتوں میں شام افراد مکمل غیر سیاسی ہوں گے۔ لیکن عملا ایسا نہیں ہو سکا ہے۔ بعض افراد کھلم کھلا سیاسی جماعتوں کے ہمدرد ہیں اور بعض ڈھکے چھپے انداز میں اپنی من پسند سیاسی جماعت کے حامی ہیں ۔ 24رکنی نگران کابینہ نے حلف اٹھا لیا۔ جس کے بعد سرکاری طور پر نگراں وزراء کے مختصر تعارف بھی دئیے گئے۔ نگراں کابینہ میں شامل وزیر خارجہ جلیل عباس جیلانی فارن سروس کے اعلیٰ افسران میں سے ہیں۔ وہ ریٹائرڈ سیکرٹری خارجہ ہیں، انہوں نے امریکہ میں سفیر، آسٹریلیا میں ہائی کمشنر، بھارت میں ڈپٹی ہائی کمشنر، یورپی یونین کے سفیر اور وزارت خارجہ کے ترجمان کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وزیر دفاع لیفٹیننٹ جنرل ( ر) انور علی حیدر نے پاک فوج میں جی ایچ کیو میں ایڈجوٹینٹ جنرل کے طور پر خدمات انجام دیں۔ وہ نیا پاکستان ہائوسنگ اینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر شمشاد اختر نے جون 2018سے اگست 2018تک نگران کابینہ میں وزیر خزانہ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ وہ سٹیٹ بینک کی ملک کی پہلی خاتون گورنر کے عہدے پر بھی فائز رہیں۔ انہوں نے اقوام متحدہ کے اس وقت کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی سینئر مشیر اور ورلڈ بینک کی نائب صدر کے طور پر بھی کام کیا۔ وزیر داخلہ سینیٹر سرفراز بگٹی 2013سے 2018تک بلوچستان کے وزیر داخلہ اور قبائلی امور بھی رہے۔ وہ مارچ 2018سے سینیٹ کے رکن ہیں۔ وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی سینئر صحافی اور براڈ کاسٹر ہیں اور وائس آف امریکہ سے بھی وابستہ تھے۔ انہوں نے 2008سے 2013تک پی پی پی کی حکومت کے دوران ڈائریکٹر جنرل پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن بھی خدمات انجام دیں۔ وزیر مذہبی امور انیق احمد ٹیلی ویژن کے اینکر اور عالم دین ہیں۔ وہ ایک نجی ٹیلی ویژن چینل پر صبح کے مذہبی پروگرام کے میزبان ہونے کے ناطے مقبول ہیں۔ وزیر تعلیم مدد علی سندھی ایک مشہور مصنف، صحافی اور کالم نگار ہیں۔ پریذیڈنٹ پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ حاصل کرنے والے مدد علی گورنر سندھ لینگویج اتھارٹی کے بورڈ کے رکن بھی ہیں۔ تمغہ امتیاز حاصل کرنے والے وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان کا اقوام متحدہ، یو ایس ایڈ، ورلڈ بینک، یورپی یونین، ڈی ایف ائی ڈی، آئی این جی اوز اور قومی حکومتوں کے ساتھ کام کرنے کا 24 سالہ شاندار کیریئر ہے ۔انہوں نے دنیا کے سب سے مشکل حالات جیسے صومالیہ، جنوبی سوڈان، ایتھوپیا، فلپائن، کینیا، افغانستان اور پاکستان میں فاٹا کے پی میں پیچیدہ ہنگامی صورتحال پر کا انتظام کیا ہے۔ ڈاکٹر ندیم نے 1996سے 2000تک پاکستان کے فلیگ شپ پولیو پروگرام کی ترقی اور نفاذ میں کلیدی کردار ادا کیا۔
نگران کابینہ کی تقریب حلف برداری میں بیشتر ممالک کے سفیروں کو دعوت نامے جاری گئے گئے تھے لیکن کسی نے بھی تقریب میں آنے کی زحمت نہیں کی البتہ اکثریت کو جڑانوالہ میں ہونے والے دل خراش واقع کی تفصیلات درکار تھیں جس کی لئے وہ مسلسل دفتر خارجہ سے رابطہ میں تھے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق کابینہ کو جب نگرانی ہی کرنی ہے تو اس کا حجم اتنا بڑا کیوں رکھا گیا ہے۔ پاکستان میں عجیب رجحان ہے کہ کسی بھی دور میں معاشی تنگ دستی کا ذرہ برابر خیال ہی نہیں رکھا جاتا ہے۔ ملک معاشی دلدل میں بھنسا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف سے قرضوں پر قرضے لئے جارہے ہیں لیکن اپنے شاہی انداز کے خرچوں میں کمی نہیں کی جارہی ہے۔ خارجہ امور، خزانہ ، داخلہ ایسے امور ہیں جن پر کام اور فیصلہ سازی کی ضرورت پیش آٹی ہے۔ باقی محکمہ اور شعبے تو بس خانہ پری ہوتے ہیں۔ ویسے ہی سرکاری اہلکاروں کی ملک میں بہت بڑی تعداد موجود ہے جسے نگراں حکومت کو چاہئے مختصر کرے۔ نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر نے ایک اجلاس میں ملک کی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا۔ انہیں سیکرٹری خزانہ اور معاشی ٹیم نے نگران وزیر خزانہ کو ملکی معاشی صورت حال پر بریفنگ دی۔ انہیں اہم معاشی اشاریوں کے رجحان سے آگاہ کیا گیا جس کے بعد نگران وزیر خزانہ نے معاشی ڈسپلن یقینی بنانے اور معاشی عدم مساوات دور کرنے کے لیے کام کرنے کے عزم کا اظہار کیا۔ وزیر خزانہ نے معاشی ڈسپلن یقینی بنانے اور معاشی عدم مساوات دور کرنے کا یقین دلایا۔ معاشی عدم مساوات دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اجلاس والے روز ہی ایک خبر شائع ہوئی جس کے مطابق منڈی بہائوالدین میں غربت سے تنگ آکر ایک ماں نے تین بچوں کو زہریلی گولیاں کھلا دیں، دو بچے جاں بحق، ایک بچے کو بچا لیا گیا۔ منڈی بہائوالدین کے علاقے چک رائب کی رہائشی مہوش بی بی نے 3بچوں، سات سال کے سفیان احمد، پانچ سال کے سبحان احمد اور دس سال کے محمد اویس کو زہریلی گولیاں کھلا دیں۔ پولیس کے مطابق بچوں کی حالت غیر ہونے پر تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال ملکوال لے جایا گیا جہاں محمد اویس کو طبی امداد کے بعد بچا لیا گیا جبکہ سفیان اور سبحان کو ڈی ایچ کیو ہسپتال منڈی بہائوالدین منتقل کر دیا لیکن دونوں بچوں کو تشویشناک حالت کے باعث لاہور روانہ کر دیا گیا تھا جہاں وہ دم توڑ گئے۔
نگران حکومت خواہ وفاق میں ہوں یا صوبوں میں ، انہیں تو صاف شفاف انتخابی عمل کے انعقاد کو ممکن بنانا ہے۔ آئین میں مدت درج ہے کہ اسمبلیاں ختم ہونے کے کتنے روز بعد انتخابات لازمی کرانہ ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں تو رواج اور رجحان ہی مختلف ہے۔ ہر سطح پر ذمہ دار لوگ اپنی مرضی کو مقدم رکھنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ نے ملاقات کی ہے۔ سپریم کورٹ میں جمعرات کو ہونے والی ملاقات دو گھنٹے کے قریب جاری تھی۔ ملاقات میں ملک میں عام انتخابات کے معاملے پر گفتگو کی گئی۔ اس ملاقات سے قبل ایک اجلاس جو گزشتہ روز چیف الیکشن کمشنر نے حلقہ بندیوں کے معاملے پر اجلاس طلب کیا تھا، کے بعد الیکشن کمیشن نے کہا کہ عام انتخابات 90دن میں نہیں ہو سکتے اور الیکشن کمیشن نے حلقہ بندیوں کے شیڈول کا اعلان کر دیا۔ الیکشن کمیشن نے ملک بھر میں نئی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیاں کرنے کا فیصلہ کیا ہے، حلقہ بندیوں کیلئے الیکشن کمیشن نے 4ماہ کا وقت مختص کر دیا گیا ہے۔ اس عمل سے واضح ہے کہ انتخابات آئین کے تحت دئے گئے مقررہ وقت میں نہیں ہو سکیں گے۔ الیکشن کمیشن کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ڈیجیٹل مردم شماری کی حتمی اشاعت کردی گئی ہے، الیکشن ایکٹ 2017کے تحت الیکشن کمیشن نئی حلقہ بندیاں کرنے کا پابند ہے۔شیڈول کے مطابق چاروں صوبوں کی حلقہ بندی کمیٹیاں21 اگست تک قائم کر دی جائیں گی، حلقہ بندیوں سے متعلق انتظامی امور31اگست تک مکمل کئے جائیں گے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کہ 5ستمبر سے7ستمبر تک قومی و صوبائی اسمبلیوں کا حلقہ بندیوں کا کوٹہ مختص کیا جائے گا، 8ستمبر سے 7اکتوبر تک حلقہ بندیاں کی جائیں گی، 10اکتوبر سے 8نومبر تک حلقہ بندیوں سے متعلق تجاویز دی جائیں گی۔ اعلامیے کے مطابق الیکشن کمیشن 10نومبر سے9 دسمبر تک حلقہ بندیوں پر اعتراضات پر فیصلے کرے گا، الیکشن کمیشن 14دسمبر تک حلقہ بندیاں مکمل کرنے کے بعد انتخابی شیڈول کا اعلان کرے گا۔ اسمبلیوں کی غیر موجودگی میں نئی مردم شماری جو ابھی تک متنازعہ بنی ہوئی ہے، کے تحت حلقہ بندیاں کرنے کا کام بقول انتخابات میں دلچسپی رکھنے والے افراد ، دانستہ طور پر انتخابات میں تاخیر کے حربے اختیار کئے جارہے ہیں جو عوام میں ذہنی کوفت کا سب بنے گا اسی وجہ سے عوام کی اکثریت ملک معاملات سے لاتعلقی اختیار چکر گئے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button