Columnمحمد مبشر انوار

تعلیمی درسگاہیں یا۔۔۔

محمد مبشر انوار( ریاض)

روایت ہے کہ کسی نے جنید بغدادیؒ سے پوچھا کہ کیا ایک مرد ایک عورت کو پڑھا سکتا ہے تو جنید بغدادیؒ نے فرمایا کہ اگر پڑھانے والے جنید بغدادیؒ اور پڑھنے والی رابعہ بصریؒ، مقام کعبہ اللہ ہو تب بھی اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مرد و عورت کا اختلاط اسلامی معاشرے میں ناقابل قبول ہے لیکن فی زمانہ سکہ رائج الوقت یہ اصول حالات کی گرد و غبار میں گم ہو چکا ہے۔ قول زریں ہے کہ ایک مچھلی پورے تالاب کو گندا کر دیتی ہے خواہ یہ مچھلی کتنے ہی شفاف تالاب میں کیوں نہ تیر رہی ہو، یہی صورتحال کسی بھی معاشرے کی عکاسی کے لئے کافی ہے کہ جہاں مختلف شعبہ جات میں کوئی ایک مچھلی، کوئی ایک کالی بھیڑ پورے شعبہ کو گندا کر دیتی ہے اور بالعموم معاشرہ پورے شعبہ کو ہی غلیظ تصور کرتا ہے۔ بد قسمتی سے وطن عزیز میں کوئی ایک بھی ایسا شعبہ باقی نہیں بچا کہ اس شعبہ کی تعظیم معاشرے میں نظر آتی ہو جس کی بنیادی وجہ ہی فقط اس شعبہ سے منسلک افراد کا گھٹیا پن کہیں یا پورے معاشرے کا بے راہ روی میں مبتلا ہونا کہیں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ ایسی لکڑی کی صورت اختیار کر چکا ہے کہ جسے دیمک جڑوں تک چاٹ چکی ہے، کوئی اکا دکا مثال مستثنیات میں سے ہو سکتی ہے وگرنہ کیا سیاستدان اور کیا ریاستی مشینری تقریبا سب ہی اس بھیڑ چال کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال معاشرے میں استاد کی ہے کہ معاشرے میں استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے اور اس کی تعظیم بعینہ باپ کی مانند کرنے کا حکم ہے اور دوسری طرف علم حاصل کرنے پر زور دیا گیا ہے تا کہ انسان نہ صرف خود تعلیم یافتہ بنے بلکہ معاشرے کا کارآمد شہری بنے۔ بچپن اور لڑکپن کا بیشتر حصہ ان تعلیمی درسگاہوں میں گزرتا ہے کہ جہاں سے انسان تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے اور تاعمر اس دور کی یادیں اس کے ساتھ رہتی ہیں لیکن افسوس کہ ان یادوں کا کچھ حصہ ایسا ہے کہ جس پر انسان فخر کر سکتا ہے یا ان کو دہرا سکتا ہے؟ بالخصوص ایسے افراد کہ جن کے ساتھ اساتذہ کا رویہ بوجوہ متعصبانہ رہا ہو، جن کے لئے اساتذہ کے دل میں کوئی نرم گوشہ نہ ہو بلکہ اساتذہ سماجی حیثیت و رتبے سے مرعوب نظر آئیں اور غریب طلباء کے لئے ان نزدیک تمام تر قوانین کا اطلاق ہو لیکن امراء و سماجی حیثیت کے طلباء کے لئے مستثنیات کے جواز ہوں، طالبات کے حوالے سے اساتذہ کی نظریں ان کی اہلیت و قابلیت کی بجائے، ان طالبات کے سراپے پر مرکوز ہوں، ابھرتی ہوئی نئی الہڑ دوشیزائوں کے جسمانی نشیب و فراز کو استاد کی نظر کی بجائے ایک ہوس پرست بھیڑئیے کی نظر سے تولنا/جانچنا ، منہ سے رالیں ٹپکاتے انہیں، ان کے جائز تعلیمی حق و نتیجہ سے محروم رکھنا تاوقتیکہ یہ طالبات ان کی ہوس پرستی کے سامنے جھک نہ جائیں، ان کے لئے امتحانات میں پاس ہونا ہی ممکن نہ رہے؟
بہت عرصہ سے تعلیمی درسگاہوں میں ایسی شکایات سننے میں آتی رہی ہیں کہ تعلیمی اداروں میں طالبات کے لئے بہت سے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ جنسی طور پر ہراساں کیا جانا بھی ہے، ایک ایسے معاشرے میں کہ جہاں ہنوز والدین اپنی بیٹیوں کے لئے تعلیم کو ضروری خیال نہیں کرتے، اس معاشرے میں اگر تعلیمی اداروں میں طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کرنے سے متعلق خبریں منظر عام پر آئیں، تو والدین اور بھائیوں کی کیا حالت ہو گی؟ والدین اور بھائیوں کی بات تو چھوڑیں، رشتہ دار عزیز و اقارب وغیرہ ایسی لڑکیوں کو کن نظروں سے دیکھتے ہیں، اس کا مظاہرہ ہم بالعموم اپنے معاشرے میں بخوبی کرتے ہیں، بالخصوص جب لڑکیاں ایسی درسگاہ میں داخل ہوں کہ جہاں نظام تعلیم مخلوط ہے اور اساتذہ میں بھی خواتین کی بجائے مرد حضرات معلم ہوں، اس صورت میں ان لڑکیوں کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہم سب اس واقف ہیں۔ اس کے باوجود ایسے والدین اور لڑکیوں کی ہمت کو داد دیتا ہوں کہ ایسے نامساعد حالات کے باوجود بھی وہ اپنی تعلیم جاری رکھے ہوئے ہیں اور فارغ التحصیل ہونے کے بعد، معاشرے کے ساتھ ساتھ وطن کے لئے بھی کارہائے نمایاں سرانجام دے رہی ہیں۔ لیکن اس داد کے بدلے کسی بھی طور پر اساتذہ یا ان تعلیمی اداروں کے دیگر کارکنان کو یہ حق حاصل نہیں ہو سکتا کہ وہ تعلیمی میدان میں کامیابی کے عوض ان طالبات سے اپنی مذموم خواہشات کی تکمیل کے لئے آزاد ہیں یا انہیں کھلی چھٹی میسر آ گئی ہے۔خواتین کے حقوق کے لئے،یا انہیں مخلوط ماحول سے آگاہ کرنے کے لئے، ان کی ذات کو پر اعتماد کرنے کے لئے ایسی درسگاہوں میں جانا اگر فی زمانہ مجبوری بھی ہے تو اس مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی کسی کو اجازت قطعی نہیں ہونی چاہئے اور ایسی کسی کوشش میں ملوث/مرتکب کسی بھی شخص کو بلاامتیاز قرار واقعی عبرتناک سزا دی جانی چاہئے ۔
اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے حالیہ جنسی سکینڈل نے لرزا کر رکھ دیا ہے کہ ہماری تعلیمی درسگاہوں میں کیسے کیسے ہوس پرست تعینات ہیں کہ جنہیں سوائے اپنی ہوس مٹانے کے اور کوئی خواہش ہی نظر نہیں آتی، لاحول ولا قوہ الا باللہ، ایک یونیورسٹی کے چیف سیکیورٹی آفیسر سے کم و بیش 5500فحش مواد کی تصاویر و ویڈیو کلپس کی برآمدگی؟ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تمام مواد یونیورسٹی میں حصول تعلیم کے لئے آئی ہوئی نوجوان لڑکیوں کا ہے، وہ جو حصول علم کی خاطر اس مادر علمی میں داخل ہوئی، کیا وہ جانتی تھی کہ ان کا پالا مادر علمی میں اساتذہ کم اور زیادہ جنسی بھیڑیوں سے پڑنے والا ہے؟ اگر وہ اس حقیقت سے آشنا ہوتی تو کیا وہ ایسی مادر علمی میں داخلہ لیتی کہ جس میں حصول تعلیم کے عوض انہیں اپنی عزت و عصمت کا سودا کرنا پڑتا؟ کیا ان کے والدین یا بھائی اس حقیقت کو جان کر اپنی بیٹیوں یا بہنوں کو ایسی درسگاہ میں کہ جہاں شیطان کے چیلے گھات لگائے بیٹھے ہوں، داخل کرواتے؟ کسی بھی غیرت مند شخص یا خاندان کے لئے یہ ممکن ہی نہیں کہ اپنی عزت کو ایسے بھیڑیوں کے غول میں چھوڑے، یہ سب انجانے میں ہوا لیکن اس کی اثرات کس قدر بھیانک ہو سکتے ہیں، اس کے متعلق سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں ایسی گھٹیا حرکات کیونکر پنپتی ہے؟ اس کی کیا وجوہات ہیں کہ اب ہر آئے روز کہیں نہ کہیں سے ایسی شرمناک خبریں تواتر سے وصول ہو رہی ہیں؟ تسلیم کہ اس کے پس پردہ ابن آدم کی ہوس پرستی عیاں ہے لیکن ابن آدم کو اتنی جرات کیسے اور کیونکر ہوئی کہ وہ طالبات کو اتنا مجبور کر دے کہ وہ حصول علم کے لئے اپنی عزت و عصمت کو داؤ پر لگا دیں؟ یقینی طور پر ہمارا تعلیمی نظام اس قدر فرسودہ ہو چکا ہے کہ اس نظام میں، ایک عام طالبعلم کا سند حاصل کرنا انتہائی مشکل امر ہو چکا ہے بالخصوص جب امتحان کی چیکنگ اسی تعلیمی ادارے کے ممتحن کے ہاتھوں میں ہو، سوالنامہ بھی وہی ترتیب دے، اس کی چیکنگ کرتے ہوئے نمبر بھی وہی دے، تو پھر طالبات کو اپنی جنسی ہوس کے سامنے سرنگوں کرنے میں اسے کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ کوئی بھی طالبعلم یہ نہیں چاہتا کہ اس کا سال ضائع ہو اور نہ ہی وہ کسی صورت اپنے ساتھی طلباء سے پیچھے رہنا چاہتا ہو۔ ایسے ممتحنوں کے لئے یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ جن طالبات کو جھکانا مقصود ہو، ان کی جوابی شیٹ ہی بدل جائے یا ایسا کچھ بھی ہوجائے جس سے وہ امتحان پاس کرنے کے قابل نہ رہے لیکن مطالبہ پورا ہوتے ہی سب کچھ ٹھیک ہو جائے، کہ یہی کچھ اس وقت منظر عام پر ہے۔ تف ہے ایسے اساتذہ پر جو انبیاء کے پیشے میں ایسی بددیانتی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور حکام کو فی الفور ایسے اساتذہ کے خلاف پوری قوت سے بروئے کار آنا چاہئے جو طالبات کی عزت و عصمت سے کھیل رہے ہیں، اس کے لئے ایک طرف سب سے پہلے تو تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تو دوسری طرف امتحانی نظام کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ آج دنیا بھر میں آن لائن امتحان ہو رہے ہیں، ہماری تعلیمی درسگاہوں میں یہ نظام کیوں نہیں اپنایا جا سکتا، جس سے نہ صرف فوری نتیجہ سامنے آ جاتا ہے بلکہ کسی بھی ممتحن کے لئے یہ ممکن نہیں رہتا کہ اپنی غلیظ خواہشات کی لئے کسی طالبعلم سے اپنی جنسی ہوس پورا کرنے کا تقاضہ کر سکے، یوں ہم اپنی تعلیمی درسگاہوں کو پھر سے تعلیمی درسگاہوں میں تبدیل کر سکتے ہیں، جو چند کالی بھیڑوں بلکہ جنسی بھیڑیوں کی وجہ سے جنسی خواہشات اور فحاشی کے اڈوں میں بدل رہی ہیں ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button