Columnعبدالرشید مرزا

شہادت حسینؓ

عبد الرشید مرزا

محرم میں مسلمان امام حسینؓ کی شہادت پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہیں۔ لیکن افسوس ہے کہ ان غمگساروں میں سے بہت ہی کم لوگ اس مقصد کی طرف توجہ کرتے ہیں جس کیلئے امام حسینؓ نے اپنی اور اپنے خاندان کی جان عزیز قربان کرا دی۔ ان کی یہ قربانی تو خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس مقصد کو جان سے بڑھ کر عزیز رکھتے تھے۔ وہ مقصد کیا تھا؟ امام عالی مقامؓ کی نگاہیں اس وقت مسلم معاشرے اور اسلامی ریاست کی روح اور اس کے مزاج اور اس کے نظام میں کسی بڑے تغیر کے آثار دیکھ رہی تھیں جسے روکنے کی جدوجہد کرنا ان کے نزدیک ضروری تھا، وہ تغیر کیا تھا؟ ظاہر ہے کہ لوگوں نے اپنا دین نہیں بدل دیا تھا۔ حکمرانوں سمیت سب لوگ خدا اور رسولؐ اور قرآن کو اسی طرح مان رہے تھے جس طرح پہلے مانتے تھے۔ بعض لوگ یزید کے شخصی کردار کو بہت نمایاں کرکے پیش کرتے ہیں جس سے یہ عام غلط فہمی پیدا ہوگئی ہے کہ وہ تغیر جسے روکنے کیلئے امامؓ کھڑے ہوئے تھے بس یہ تھا کہ ایک برا آدمی برسراقتدار آگیا تھا۔ لیکن یزید کی سیرت و شخصیت کا جو برے سے برا تصور پیش کرنا ممکن ہے اسے جوں کا توں مان لینے کے بعد بھی یہ بات قابل تسلیم نہیں ہے کہ اگر نظام صحیح بنیادوں پر قائم ہو تو محض ایک برے آدمی کا برسراقتدار آ جانا کوئی ایسی بڑی بات ہوسکتی ہے جس پر امام حسینؓ جیسا دانا و زیرک اور علم شریعت میں گہری نظر رکھنے والا شخص بے صبر ہو جائے۔ اس لئے یہ شخصی معاملہ بھی وہ اصل تغیر نہیں ہے جس نے امامؓ کو بے چین کیا تھا۔ تاریخ کے غائر مطالعہ سے جو چیز واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ یزید کی ولی عہدی اور پھر اس کی تخت نشینی سے دراصل جس خرابی کی ابتدا ہورہی تھی وہ اسلامی ریاست کے دستور اور اس کے مزاج کی تبدیلی تھی۔ اس تبدیلی کے پورے نتائج اگرچہ اس وقت سامنے نہ آئے تھے لیکن ایک صاحب نظر آدمی گاڑی کا رخ تبدیل ہوتے ہی یہ جان سکتا ہے کہ اب اس کا راستہ بدل رہا ہے۔ یہی رخ کی تبدیلی تھی جسے امامؓ نے دیکھا اور گاڑی کو پھر سے صحیح پٹڑی پر ڈالنے کیلئے اپنی جان لڑا دینے کا فیصلہ کیا۔ اس چیز کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کیلئے ہمیں دیکھنا چاہئے کہ رسول صلی علیہ وسلم اور خلفاء راشدینؓ کی سربراہی میں ریاست کا جو نظام چالیس سال تک چلتا رہا تھا اس کے دستور کی بنیادی خصوصیات کیا تھیں اور یزید کی ولی عہدی سے مسلمانوں میں جس دوسرے نظامِ ریاست کا آغاز ہوا اس کے اندر کیا خصوصیات دولت بنی امیہ و بنی عباس اور بعد کی بادشاہیوں میں ظاہر ہوئیں۔ اسی تقابل سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ یہ گاڑی پہلے کس لائن پر چل رہی تھی اور اس نقطہ انحراف پر پہنچ کر آگے وہ کس لائن پر چل پڑی اور اسی تقابل سے ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جس شخص نے رسول صلی علیہ وسلم کی آغوش میں تربیت پائی تھی، وہ کیوں اس نقطہ انحراف کے سامنے آتے ہی گاڑی کو نئی لائن پر جانے سے روکنے کیلئے کھڑا ہوگیا؟
اسلامی ریاست کی اولین خصوصیت یہ تھی کہ اس میں صرف زبان ہی سے یہ نہیں کہا جاتا تھا بلکہ سچے دل سے یہ مانا بھی جاتا تھا اور عملی رویہ سے اس عقیدہ و یقین کا پورا ثبوت بھی دیا جاتا تھا کہ ملک خدا کا ہے، باشندے خدا کی رعیت ہیں اور حکومت اس رعیت کے معاملے میں خدا کے سامنے جوابدہ ہے۔ یزید کی ولی عہدی سے جس انسانی بادشاہی کا مسلمانوں میں آغاز ہوا اس میں خدا کی بادشاہی کا تصور صرف زبانی اعتراف تک محدود رہ گیا۔ اسلامی ریاست کا مقصد خدا کی زمین میں ان نیکیوں کو قائم کرنا اور فروغ دینا تھا جو خدا کو محبوب ہیں اور ان برائیوں کو مٹانا تھا جو خدا کو ناپسند ہیں۔ بھلائیوں کے فروغ اور برائیوں کی روک تھام اور اشاعت دین اور علوم اسلامی کی تحقیق و تدوین کیلئے جن بندوں نے کام کیا انہیں حکومت سے مدد ملنی تو درکنار اکثر وہ حکمرانوں کے غضب ہی میں گرفتار رہے۔ اسلامی ریاست کی روح تقویٰ اور خدا ترسی تھی جس کا سب سے بڑا مظہر خود ریاست کا سربراہ ہوتا تھا۔ لیکن بادشاہی کی راہ پر پڑتے ہی مسلمانوں کی حکومتوں اور ان کے حکمرانوں نے قیصر و کسریٰ کے سے رنگ ڈھنگ اختیار کر لئے۔ اسلامی دستور کا بنیادی اصول یہ تو تھا روح و مزاج اور مقصد اور نظریے کا تغیر۔ ایسا ہی تغیر اسلامی دستور کے بنیادی اصولوں میں بھی رونما ہوا۔ اس دستور کے بنیادی اصول تھے جن میں سے ہر ایک کو بدل ڈالا گیا۔ دستور اسلامی کا سنگ بنیاد یہ تھا کہ حکومت لوگوں کی آزادانہ رضامندی سے قائم ہو۔ کوئی شخص اپنی کوشش سے اقتدار حاصل نہ کرے بلکہ لوگ اپنے مشورے سے بہتر آدمی کو چن کر اقتدار اس کے سپرد کر دیں۔ بیعت اقتدار کا نتیجہ نہ ہو بلکہ اس کا سبب ہو۔ لوگ بیعت کرنے یا نہ کرنے کے معاملے میں پوری طرح آزاد ہوں۔ خلفائے راشدینؓ میں سے ہر ایک اسی قاعدے کے مطابق برسراقتدار آئے تھے۔ آخرکار یزید کی ولی عہدی وہ انقلابی کارروائی ثابت ہوئی جس نے اس قاعدے کو الٹ کر رکھ دیا۔ بنیادی قاعدہ اس دستور کا یہ تھا کہ حکومت مشورے سے کی جائی جس پر عام لوگوں کو اعتماد ہو۔ خلفائے راشدینؓ کے عہد میں جو لوگ شوریٰ کے رکن بنائے گئے، اگرچہ ان کو انتخاب عام کے ذریعہ سے منتخب نہیں کرایا گیا تھا۔ اسلامی ریاست کا اصول یہ تھا کہ لوگوں کو اظہار رائے کی پوری آزادی ہو۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اسلام نے ہر مسلمان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا تھا۔ اسلامی معاشرے اور ریاست کے صحیح راستہ پر چلنے کا انحصار اس بات پر تھا کہ لوگوں کے ضمیر اور ان کی زبانیں آزاد ہوں، وہ ہر غلط کام پر بڑے سے بڑے آدمی کو ٹوک سکیں۔ خلافت راشدہ میں صرف یہی نہیں کہ لوگوں کا یہ حق پوری طرح محفوظ تھا بلکہ خلفائے راشدینؓ اسے ان کا فرض سمجھتے تھے اور اس فرض کے ادا کرنے میں ان کی ہمت افزائی کرتے تھے۔ ان کی مجلس شوریٰ کے ممبروں ہی کو نہیں قوم کے ہر شخص کو بولنے اور ٹوکنے اور خود خلیفہ سے باز پرس کرنے کی مکمل آزادی تھی۔ خلیفہ اور اس کی حکومت خدا اور خلق دونوں کے سامنے جواب دہ ہے۔ جہاں تک خدا کے سامنے جواب دہی کا تعلق ہے اس کے شدید احساس سے خلفائے راشدین پر دن کا چین اور رات کا آرام حرام ہوگیا تھا۔ اسلامی دستور کا یہ تھا کہ بیت المال خدا کا مال اور مسلمانوں کی امانت ہے جس میں کوئی چیز حق کی راہ کے سوا کسی دوسری راہ سے آنی اور جانی نہ چاہئے۔ خلیفہ کا حق اس مال میں اتنا ہی ہے جتنا قرآن کی رُو سے مال یتیم میں اس کے ولی کا ہوتا ہے، ملک میں قانون (یعنی خدا اور رسولؐ کے قانون) کی حکومت ہونی چاہئے۔ مسلمانوں میں حقوق اور مراتب کے لحاظ سے کامل مساوات اسلامی دستور کا بنیادی اصول تھا۔
یہ تھے وہ تغیرات جو اسلامی خلافت کو خاندانی بادشاہت میں تبدیل کرنے سے رونما ہوئے۔ کوئی شخص اس تاریخی حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ یزید کی ولی عہدی ان تغیرات کا نقطہ آغاز تھی اور اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ اس نکتے سے چل کر تھوڑی مدت کے اندر ہی بادشاہی نظام میں وہ سب خرابیاں نمایاں ہوگئیں جو اوپر بیان کی گئی ہیں۔ جس وقت یہ انقلابی قدم اٹھایا گیا تھا اس وقت یہ خرابیاں سامنے نہ آئی تھیں مگر ہر صاحب بصیرت آدمی جان سکتا تھا کہ اس اقدام کے لازمی نتائج یہی کچھ ہیں۔ امام حسینؓ اس پر صبر نہ کر سکے۔ امامؓ نے اس عظیم خطرے میں کود کر اور مردانہ وار اس کے نتائج کو انگیز کرکے جو بات ثابت کی وہ یہ تھی کہ اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات امت مسلمہ کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہیں جسے بچانے کیلئے ایک مومن اپنا سر بھی دے دے اور اپنے بال بچوں کو بھی کٹوا بیٹھے تو اس مقصد کے مقابلے میں یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button