ColumnImtiaz Aasi

انتخابات، مردم شماری اور دہشت گردی

امتیاز عاصی

اس بات میں کوئی ابہام نہیں رہا ہے حکومت آئندہ ماہ اقتدار چھوڑ دے گی۔ ملکی تاریخ میں پہلا موقع ہے بروقت انتخابات بارے نہ تو سیاسی اور نہ عوامی حلقے پر امید ہیں۔ نئی مردم شماری اور دہشت گردی کے ماحول میں انتخابات کا التواء کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہو گی۔ چنانچہ جوں جوں انتخابات کا وقت قریب آرہا ہے دہشت گردی کی کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ کچھ سیاسی جماعتیں نئی مردم شماری کے مطابق الیکشن کی خواہاں ہیں۔ انتخابات کے نتیجہ میں اقتدار میں آنے والی حکومت بظاہر جمہوری ہوتی ہے حقیقت وہ طاقتور حلقوں کی مرہون منت ہوتی ہے۔ ہماری حکومتوں کا مقتدرہ کے تابع ہونا سیاست دانوں کا انتظامی طور پر نااہل اور حکمرانی کے طور طریقوں سے نابلد ہونا ہے۔ جیسا کہ بہت سی جماعتیں نئی مردم شماری کے مطابق انتخابات پر زور دے رہی ہیں ایسا ہوا تو نئی حلقہ بندیوں کا کام ضروری ہوگا اس طرح انتخابات کو آگے لے جانے کا معقول عذر بھی ہو گا۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا جمہوری دور میں زیادہ امور مملکت طاقتور حلقوں کی مشاورت سے چلائے جاتے ہیں۔ عجیب تماشا ہے الیکشن ایکٹ میں ترامیم کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا گیا تو نہ حکومتی اور نہ اتحادی جماعتوں کو ان ترامیم کی کوئی خبر تھی جو اس امر کی نشاندہی ہے حکومت اور اس کے اتحادیوں میں اعتماد کا فقدان ہے۔ حکومت جاتے جاتے نگران وزیراعظم کے اختیارات میں رد و بدل کا ارادہ رکھتی ہے۔ دراصل مسلم لیگ نون کو آنے والے الیکشن میں کامیابی کا یقین نہیں ہے۔ مسلم لیگ نون کے وزیراعظم کے دور میں عوام کی مہنگائی سے چیخیں نگل گئیں اس کے باوجود حکومت نے اشیائے ضرورت میں کمی لانے کے لئے نہ تو کوئی قانون سازی کی اور نہ ہنگامی طور پر اقدامات کئے۔ چنانچہ کچھ تو ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں اضافہ اور کچھ تاجروں نے اپنی مرضی سے نرخوں میں اضافہ کرکے غریب عوام کو مشکلات سے دوچار کیا۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کا حالیہ بیان پی ایم ایل نون کو انتخابات میں دو تہائی اکثریت کی امید نہیں مسلم لیگ نون کی عوام کی حمایت سے محرومی کا بین ثبوت ہے۔ لیگی حلقوں کا خیال ہے نواز شریف کی وطن واپسی سے ان کی جماعت کے ووٹ بنک میں اضافہ یقینی ہے حالانکہ اس طرح کی سوچ رکھنے والے رہنما احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ حکومت اور اس کی اتحادی جماعتوں نے تحریک انصاف کو کچلنے کے لئے ہر حربہ آزما لیا ۔ عمران خان پر سیکڑوں مقدمات قائم کرنے کے باوجود اور پی ٹی آئی چیئرمین کے خلاف غیر اخلاقی مہم چلانے کے باوجود حکومت اور اس کے اتحادی عوامی حمایت سے محروم ہیں۔ الیکشن ایکٹ میں ترامیم پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے پہلے روز اتفاق رائے نہ ہو سکا تھا اور اس بل کو ایک روز کے لئے موخر کر دیا گیا۔ تعجب ہے حکومت نے الیکشن ایکٹ ترامیم سے اتحادی جماعتوں کو بھی لاعلم رکھا جو سمجھ سے بالاتر ہے۔ جہاں تک الیکشن پر اٹھنے والے اخراجات کی بات ہے ابھی تک حکومت نے الیکشن کمیشن کو مطلوبہ فنڈ دینے کی حتمی حکمت عملی نہیں بنائی ہے آیا الیکشن کمیشن کو پورے کے پورے فنڈ یکشمت یا اقساط میں دیئے جائیں گے۔ اس ناچیز کے خیال میں انتخابات کو موخر کرنے کے لئے نئی مردم شماری اور دہشت گردی کو جوڑا جا سکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کے پی کے اور بلوچستان افغانستان کی سرحد سے جڑے ہوئے ہیں جو دہشت گردی کی لپیٹ میں ہیں۔ سیکیورٹی اداروں کی اہل کاروں کے آئے روز شہادتیں اس امر کی غماز ہیں دہشت گرد وقفے وقفے سے ہمارے ہاں وارداتیں کر رہے ہیں۔ حکومت کا یہ کہنا اس نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا ہے کیا اس مقصد کے لئے کوئی معاشی پلان بنا تھا جس کی روشنی میں ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ؟ حقیقت یہ ہے کوئی بھی حکومت ہوتی وہ سعودی عرب اور دوسرے دوست ملکوں سے قرض لے سکتی تھی۔ بقول وزیراعظم شہباز شریف دوست ملکوں سے قرض لینے میں اہم کردار چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر کا ہے۔ مان لیا آرمی چیف نے قرض لینے میں مرکزی کردار ادا کیا تو اس میں اتحادی حکومت کا کیا کردار تھا۔ افواج پاکستان تو ہمہ وقت ملک کی حفاظت اور ترقی کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔ سوال ہے پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی تو کیا سعودی عرب اور دیگر ملک ہمیں قرضہ نہیں دیتے۔ سعودی عرب اور دوست ملکوں کے تعلقات کسی کی شخصیت سے نہیں جڑے ہوئے ہیں بلکہ ریاست سے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا موڑ آیا ہے سعودی عرب اور دوست ملکوں نے ہمیں قرض نہ دیا ہو لہذا کسی ملک سے قرض لینے کو حکومت کی کامیابی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ چنانچہ یہی صورت حال آئی ایف ایم کی ہے آئی ایم ایف نے ریاست کو پیسے دینے ہوتے ہیں نہ کہ کسی وزیراعظم کو قرض دینا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کے بقول انہیں آئی ایم ایف سے قرض کی خاطر ناک رگڑنا پڑا ہے۔ ہمیں ایسی صورت حال سے کیوں دوچار ہونا پڑا ہے کیا ملک کے غریب عوام حکومتوں کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں عوام کو سیاست دانوں نے کہیں کا نہیں چھوڑا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے عوام سیاسی دانوں سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اقتدار میں آنے کے بعد زیادہ سے زیادہ مراعات ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ آج تک کسی حکومت نے غیر ضروری اخراجات کم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جہاں تک انتخابات کی بات ہے الیکشن ایکٹ میں ترامیم پر تمام جماعتوں کا اتفاق رائے بغیر یہ ترامیم لاحاصل ہیں۔ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے متفقہ طور پر آئین تشکیل دیا تھا بالکل اسی طرح الیکشن ایکٹ میں ترامیم پر تمام جماعتوں کا اتفاق رائے ضروری ہے۔ حکومت نے سیاسی جماعتوں کی مشاورت کے بغیر الیکشن ترامیم کیں تو مستقبل قریب میں ان پر بہت شور غوغا ہو سکتا ہے لہذا اب بھی وقت ہے تمام سیاسی جماعتیں سر جوڑ کر الیکشن ترامیم پر مشاورت کر لیں ورنہ اتفاق رائے بغیر آنے والے انتخابات پر کسی کو یقین نہیں ہوگا۔ دیکھا جائے تو موجودہ حکومت نے ایک سال سے زیادہ مدت میں عوام کو مہنگائی کا تحفہ دینے کے سوا دیا بھی کیا ہے۔ انتخابات جب بھی ہوئے مسلم لیگ نون کے لئے امتحان اور ہمیں پی ایم ایل نون کی عظمت رفتہ کی بحالی ممکن دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button